پاکستانی قومیت کی شناخت

قوم سے مراد افراد کا ایسا گروہ ہوتا ہے۔جس میں حدت فکر اورہم آہنگی ہو۔اسلام ہی ہمیں وحدت فکر دیتا ہے اور ہم آہنگ کرتا ہے۔آپس میں جوڑتا ہے۔پاکستان بننے سے پہلے2۔قومی نظریہ بھی اسی لئے معرض وجود میں آیا کہ برصغیر پاک وہند میں رہنے والی 2۔بڑی قوموں مسلمانوں اور ہندوں میں صرف مشترکہ وطن سے ہم آہنگی اور وحدت فکر پیدانہیں ہورہی تھی۔دونوں میں شدید اختلافات اکثر دیکھنے میں آتے رہتے تھے۔زمانہ جمہوری حکومتوں کا آن پہنچا تھا۔دور اندیش اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کا مستقبل علیحدہ ریاست میں محفوظ سمجھا۔انہوں نے نئی ریاست کی بنیاد اسلام کے سیاسی،معاشی تمدنی اور قانونی اصولوں پر استوار کرنے کا اعلان کیا۔یہ اعلان ہوتے ہی برصغیر کے تمام مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔منزل واضح ہوگئی تھی۔اس منزل کے حصول کی عملی جدوجہد کے لئے اقبال کی نظر بیرسٹر محمد علی پرپڑی۔اقبال کوکوئی بھی لیڈر ان جیسا آئین و قانون کا ماہر اور دوراندیش نظر نہیں آتاتھا۔اقبال کے کئی دفعہ رابطہ کے بعد بیرسٹر محمد علی لندن سے واپس آگئے اور اقبال کی طے کردہ منزل کے حصول کی طرف سفر شروع کردیا۔برصغیر میں رہنے والے مسلمانوں میں وحدت فکر اور ہم آہنگی صرف اسلام نے پیدا کررکھی تھی اور آئندہ بھی قائم ہونے والی ریاست کی بنیاد اسلام کا نظام زندگی ہی ٹھہرا۔اقبال کے ایک شعر میں بھی اسی کی وضاحت کی گئی تھی۔
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں

ریاست پاکستان میں شروع ہی سے ایک غلطی ضرور ہوئی۔ریاستی حکمرانوں نے پاکستان کی بنیاد اسلام کی طرف توجہ نہیں دی۔پاکستان کا مطلب ہرگز تھیوکریسی نہیں تھا۔لیکن اسلامی نظام زندگی کے مختلف شعبہ جات کی تعلیم وتشریح ریاست کی اولین ذمہ داری تھی۔اس اہم کام کو عام لوگوں کے لئے چھوڑ دیاگیا۔دینی تعلیمی ادارے قائم تو ہوئے لیکن ان تمام پرمسلک کی چھاپ لگ گئی۔اب آکر ایسے اداروں کی تعداد30۔ہزار کے قریب بتائی جاتی ہے۔علماء نے اس کام کو سنبھالا اور خوب سنبھالا اور ترقی دی۔لیکن ان اداروں کو وہ مسلکوں سے بالا نہ رکھ سکے۔ان اداروں کے بڑی تعداد میں علیحدہ قیام سے دین ودنیا کی تعلیم میں واضح فرق بھی قائم ہوگیا۔شروع ہی سے سیاسی اقتدار کی کشمکش شروع ہوگئی اور اسلام کی متفقہ تعلیم و تشریح کا اہم کام خوش اسلوبی سے نہ ہوسکا۔ایک پاکستانی قوم کی نشوونما اور ترقی کے لئے ضروری تھا کہ نظام تعلیم ایک ہی رہتا۔اسلام کی بنیادی باتیں ثانوی تعلیم تک ہر مسلم طالب علم کو پڑھائی جاتیں۔اور پھر جس نے جو اختصاصی تعلیم حاصل کرنی ہو۔وہ اپنی پسند کے شعبے کو اختیار کرلیتا۔قرآن و سنت کی اختصاصی تعلیم کا انتظام قومی تعلیمی نظام میں ہی کیاجاتا ۔جس ادارے میں کیمیاء،طبیعات اور معاشیات کی تعلیم اعلیٰ پیمانے کی ہوتی۔وہیں قرآن و حدیث اور فقہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے کھلے ماحول میں پڑھائے جاتے۔یوں فرقہ واریت کے موجودہ ماحول کے پیدا ہونے کا کوئی امکان ہی نہ ہوتا۔اگر اب ملک میں کئی مسلکی اختلافات ہیں تو اس کی اصل ذمہ داری ریاستی حکمرانوں کی غفلت ہے۔دنیا کے کئی مسلم ممالک میں دینی تعلیم بھی ریاستی کنٹرول میں ہے وہاں فرقہ وارانہ جھگڑے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ترکی اور سعودی عرب کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ان مسائل کے باوجود بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی قومیت کی اصل شناخت اسلام ہی ہے۔مذہب کا لفظ شاید محدود معنی میں استعمال ہوتا۔لیکن دین توزندگی کے تمام شعبوں کے بارے ہدایات دیتا ہے۔بیسویں صدی کے بہت سے مفکرین نے اپنی تحریروں میں دین اسلام کو آج بھی انسانی مسائل کا واحد حل بتایا ہے۔علامہ اقبال ،سید ابوالاعلیٰ مودودی،علامہ محمد اسد اور سید قطب اور دیگر درجنوں مفکرین نے جدید اصطلاحات اور دلائل سے اسلام کو ایک ریاست کی بنیاد کے طورپر واضح کیا ہے۔پاکستانی قومیت کی بنیاد دین اسلام ہوگا قائد اعظم نے اپنی بے شمار تحریروں اور تقریروں میں اسکی وضاحت کی ہے کہ پاکستانی قومیت کی شناخت دین اسلام ہوگا۔اور پہلے ہی دن جب پاکستانی جھنڈا لہرانے کے لئے 2۔شخصیتوں کی ضرورت پڑی تو قائداعظم نے مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا ظفر احمد عثمانی کا انتخاب کیا۔ایک نے کراچی اور دوسرے نے ڈھاکہ میں جھنڈا لہرایا۔1973ء سے پہلے جتنے بھی آئین ترتیب دیئے گئے ان میں قرآن وسنت سے راہنمائی کے لئے کہاگیا۔اور موجودہ دستور تو ہے ہی خالص اسلامی دستور۔اس دستور کی 3۔بنیادوں کا ماہرین اکثر ذکر کرتے ہیں۔یہ کہ دستور اسلامی ہے۔وفاقی ہے اور پارلیمانی ہے۔اس دستور میں1953ء میں پاس شدہ قرار داد مقاصد پہلے دیباچہ میں شامل تھی۔پھر اسے بھی قابل عمل حصے میں شامل کردیا گیا۔اس دستور کی بنیاد پر ہمارے تمام امور سرانجام دیئے جارہے ہیں۔اس دستور سے ہٹنے پر کبھی کسی قومی ادارے نے بات نہیں کی ۔اس دستور کی بنیاد پر بہت سے سرکاری دینی ادارے سالہا سال سے قائم ہیں اور اپنا کام خوش اسلوبی سے سرانجام دے رہے ہیں۔پارلمینٹ بھی ہماری قومیت کی اس شناخت کو تحفظ دیئے ہوئے ہے۔سپریم کورٹ میں کبھی اسلام متنازعہ نہیں بنا۔اور ہمارا سب سے بڑا قومی تحفظ کا ادارہ فوج،اس کا موٹو ہی ایمان،تقویٰ اور جہاد فی سبیل اﷲ ہے۔یہ ماٹو مسلح افواج کی ہر بڑی بلڈنگز کی پیشانی پر چمک رہاہوتا ہے۔پارلیمنٹ کے ذریعے دینی امور طے کئے جاتے ہیں۔اگر پاکستانی طالبان نے طاقت کے ذریعے اپنی اسلامی تعبیر نافذ کرانیکی کوشش کی تو مسلح افواج نے اسے قربانیاں دیکر ناکام کردیا۔دینی قوانین کے نفاظ کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل اورپارلیمنٹ جیسے دقیع ادارے موجود ہیں۔یہ ادارے دور جدید کو سامنے رکھ کر اپنی ذمہ داریاں اداکررہے ہیں۔پاکستانی قومیت کی نشوونما میں ہمارا دین کبھی بھی رکاوٹ نہیں بنا۔دینی اداروں سے وابستہ علماء اب اپنے اختلافات کم کرتے جارہے ہیں۔مفتی منیب الرحمن کالکھا ہوا قومی قومی بیانیہ باقی تمام علماء نے تسلیم کرلیا ہے۔یہ تحریر جو میں نے چند دن پہلے پڑھی۔جامع تحریروں کا بہترین نمونہ تھی۔علماء کو احساس ہوگیا ہے۔کہ فرقہ وارانہ اختلافات کا اب زمانہ نہیں رہا۔اسلام کی بنیاد پر برصغیر کے مسلمانوں کی قومیت پہلے پیدا ہوئی اور1947ء کے بعد اسے پاکستان جیسا بڑا علاقہ مل گیا۔یوں ہم پاکستانی دوسروں سے مختلف ہیں۔کہلاتے تو ہم قومی اور بین الاقوامی طور پر پاکستانی ہیں لیکن پاکستانیت کی بنیاد ہمارا دین ہے۔پاکستانی قومیت کی بنیاد حال میں بھی اسلام ہے اور مستقبل میں یہی رہے گی۔لبرل اور سیکولردانش ور باربار اس بنیاد پر حملے کرتے رہتے ہیں۔اور اب حال ہی میں علامہ جاوید غامدی کی آواز بھی انہی کا ساتھ دے رہی ہے۔یہ قابل افسوس ہے۔وہ ریاست سے اسلام کو الگ کرنے کی ناکام کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔وہ معاشرے میں انتشار اور فساد پھیلانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کررہے۔ہمارے ایک لکھاری دوست نے انہیں بیمار ذہن والے قرار دیکر صحیح تعارف کرادیا ہے۔ایسے چند لوگ ہر ملک میں ہوتے ہیں۔ہر قوم کی پہچان اسکی زبان بھی ہوتی ہے۔جیسے فرانس،جرمنی،چین اور جاپان کی اپنی اپنی زبانیں ہیں۔ہمارے ہاں بھی اردو یہ فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب ہرادارے میں اسے لاگو کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔کئی صوبائی محکموں میں اردو کو خط وکتابت کا ذریعہ بنالیا گیا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کی علاقائی زبانوں کے الفاظ کو اردو میں جذب کرنے کی کوشش کی جائے۔پنجابی،سندھی،بلوچی،بروہی اور پشتو کی اپنی اپنی جگہ بہت اہمیت ہے۔یہ زبانیں رسل ورسائل کا بڑا ذریعہ ہیں۔جب ان زبانوں میں استعمال ہونے والے الفاظ کا بڑا حصہ اردو میں جذب ہوجائے گا تو اردو خود بخود پاکستان کی قومی زبان کے طورپر ترقی کرتی چلی جائے گی۔ابھی تک کاسیکی اردو میں عربی اور فارسی کے الفاظ زیادہ ہیں۔ہمیں اپنی خوبصورت مقامی زبانوں کے الفاظ کو بھی زیادہ سے زیادہ اردو میں استعمال کرنا شروع کردینا چاہیئے۔پھر یہ اعتراض ختم ہوجائے گا کہ اردو کسی بھی پاکستانی علاقے کی زبان نہیں ہے۔اس کا استعمال کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر زیادہ سے زیادہ ہو۔اردو میں سائنسی علوم پر اعلیٰ درجے کی کتب تحریر ہونا ضروری ہے۔تخلیقی کام صرف اور صرف اپنی زبان میں ہی اعلیٰ درجے کا ہوسکتا ہے۔اگر کوئی قوم اپنی زبان کو ترقی دینے کا مصمم ارادہ کرلے تو راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔پاکستانی قومیت کی شناخت میں اردو بھی ایک بڑا رول اداکرتی ہے۔محمد علی جناح نے بھی اپنی زندگی میں اردوزبان کو قومی زبان کہاتھا۔پنجابی،سندھی،بلوچی اور پشتو کو بھی پاکستانی زبانیں سمجھ کر ترقی ملنی چاہئے۔اردو کو ہم ترقی دیتے رہیں اور قومی زبان کے طورپر ہر شعبہ ہائے زندگی میں استعمال کریں۔رہتے تو ہم قدیم تہذیبوں ہڑپہ،گھندارا اور موہنجودڑو کے علاقوں میں ہیں۔لیکن ہزار وں سال پہلے کی یہ تہذیبیں جو اب کھنڈرات کی شکل میں موجود ہیں۔ہماری پاکستانی قومیت کی شناخت میں کوئی کردار ادا نہیں کرتیں۔ہماری شناخت صرف وحی پر مشتمل نظریے سے ہوتی ہے۔

Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 55075 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.