شہر ستم گراں تھا اور قومی یوم کتاب کے سلسلہ میں نیشنل
بک فاؤنڈیشن کا آٹھواں قومی کتاب میلہ اپنے اختتام کی حدوں کو چھو رہا تھا
۔اسلام آباد کو مختلف بینروں ،فلیکسوں ،جھنڈوں سے دلہن کی طرح سجایاگیا تھا
۔خوشیاں اور مسرتیں ہر سو تھیں ۔کتب سے محبت کرنے والے کتب کی خریداری میں
مگن تھے ۔یہ میلہ تین روز تک جاری رہا اور اس کے مختلف سیشن ہوئے جس میں
صدر پاکستان ممنون حسین اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی
نامورشخصیات شریک ہوئیں ۔میلے میں مختلف سٹالز تھے اور مختلف نامور مصنفین
کی کتب کی تقریب رونمائی بھی ہوئی ۔ 22اپریل سے 24اپریل تک جاری رہنے والے
اس میلے میں ہزاروں افراد شریک ہوئے ۔میلے کی آخری نشست مارگلہ کے پہاڑوں
کے درمیان قدرتی پارک پاک چائنہ فرینڈ شپ سینٹر اسلام آباد میں جاری تھی ۔قومی
کتاب میلہ ابھی اختتام کی جانب گامزن تھا ۔اسٹیج پر وفاقی وزیر منصوبہ بندی
چوہدری احسن اقبال ،مشیر وزیر اعظم عرفان صدیقی ،مینجینگ ڈائریکٹر نیشنل بک
فاؤنڈیشن ڈاکٹر انعام الحق جاوید براجمان تھے ۔ایسے میں معروف شاعرہ ،ادیبہ
،منصفہ محترمہ فرزانہ ناز نے اپنے پہلے شعری مجموعہ ’’ ہجرت مجھ سے لپٹ گئی
ہے ‘‘ وفاقی وزیر کو پیش کی ۔محفل اختتام پذیر ہو رہی تھی اور اسٹیج پر رش
کے باعث تل دھرنے کو جگہ نہ تھی مختلف شاعر،ادیب اور قلم قبیلے سے وابستگان
ایک دوسرے سے مل رہے تھے ۔فرزانہ ناز کے ہمراہ انکے خاوند آرٹسٹ ،منصف بشیر
اسماعیل بھی تھے ۔اسٹیج کی اونچائی تقریبا12,15فٹ تھی اور رش کے باعث
فرزانہ ناز اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکیں اور اسٹیج سے نیچے حاضرین اور
اسٹیج کے درمیان فاصلے کیلئے بنائے گئے کھائی نما کھڈے میں جاگریں ۔سنگ
مرمر کا فرش تھا جس وجہ سے فرزانہ ناز کے سر اور کمر میں شدید چوٹیں آئیں
۔اﷲ اﷲ کرکے قریبی الشفاء ہسپتال پہنچایا گیا ۔زندگی اور موت کی کشمکش میں
مبتلافرزانہ ناز خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے دوسرے روز وہ اپنے خالق
حقیقی سے جاملیں ۔آپ کی ایک پانچ سالہ صاحبزادی ہما زہرابتول اور ایک چار
سالہ صاحبزادہ وصی حیدر ہیں ۔
قارئین آئیے !اب ادبی میلے کا نوحہ پڑھیں اور کروڑں روپے خرچ کرکے محفل ادب
لگانے والوں کی عقل پر بھی کچھ ماتم کریں جو قوم کی عظیم بیٹی کی جان لے
گئے ہیں ۔شاید ہمارے رونے دھونے سے کوئی اور ہمار اپیار اایسے ہی دیکھتے
دیکھتے ہم سے جدا نہ ہو جائے ۔خوش شکل اور خوش عقل محترمہ فرزانہ ناز تو اب
واپس نہیں آئیں گئیں مگرمیں ورطہ حیرت میں ہوں کہ میلے کے منتظمین ،سی ڈی
اے اسلام آباداور دیگر انتظامی افسران اس وقت کہاں تھے جب اس پروگرام کا
این او سے جاری کیا جا رہا تھا ۔کیا تین روز تک جاری رہنے والے اس بڑے
ایونٹ کے منتظمین کی اس سے بڑی نااہلی اورکیا ہو سکتی ہے کہ اس میں کسی نے
المصطفی ویلفیئر سوسائٹی ، ایدھی فاؤنڈیشن ،مسلم ہینڈز کی ایمبولنس سروسز
کی خدمات لینے بھی پسند نہیں کیں اور تواور شرکاء میلے کیلئے نہ کوئی
ابتدائی طبی امداد،نہ ڈاکٹر ،نہ سکاوٹ کا اہتمام کیا گیا ۔اس پروگرام کے
منتظمین بتا سکتے ہیں کہ 12,15فٹ اونچا اسٹیج بنانے کی ضرورت کیا تھی اور
فرزانہ ناز اسٹیج سے کیسے گریں ۔یہ اسٹیج کتنا وزن اٹھانے کے قبل تھا اور
عوامی کا جم غفیر اسٹیج پر کیوں چڑھایا گیا تھا ۔کیاپروگرام کیلئے بنایا
گیااسٹیج کسی انجینئرنگ فرم سے منظور شدہ تھا ۔کیا اسٹیج کے سیفٹی ایسپیکٹ
چیک کرنے کی کوئی لسٹ موجود ہے یاانتظامیہ ڈیلی کا اس سے دس لاکھ روپے ہی
لینا جانتی ہے جوعوام کو جان کا تحفظ بھی فراہم نہیں کرسکتی ۔یہ مختلف
اداروں کے ذمہ دارن کی نااہلی کا نتیجہ ہے ۔اس کی شفاف اور اعلی سطحی
تحقیقات ہونی چاہیں اور ذمہ دارن کو کیفرارکردار تک پہنچانا ضروری ہے ۔ پاک
چائنہ فرینڈ شپ سینٹر اسلام آباد کے اس منحوس آڈیٹوریم میں پہلے بھی کئی
حادثات ہو چکے ہیں ۔ پاک چائنہ فرینڈ شپ سینٹر کو عوام کیلئے فوری بند کر
کے اس کے تعمیر ی نقص کو فوری دور کیا جائے تاکہ آئندہ کسی قیمتی جان کا
ضیاع نہ ہو سکے۔ پاک سر زمین پر اسطرح کا یہ کوئی پہلا حادثہ ہے نہ آخری ۔اس
لئے کہ ہمارے ہاں کسی حادثے کی تحقیقات نہیں ہوتیں اور اگر عوام مجبور کرے
دباؤ ڈالے تو آخری انجام جے آئی ٹی بناکر فوری عوامی غصہ ٹھنڈا کرکے اصل
واقع پر مٹی ڈال دی جاتی ہے ۔ فرزانہ ناز کی شہادت بلاشبہ قومی سانحہ ہے،آپ
کی شہادت سے علم و ادب کی دنیا ویران ہو گئی اور وطن عزیز ایک قیمتی سرمایہ
سے محروم ہو گیا ۔آپ کے دفات سے پوری قوم دکھی اور غمزدہ ہے ۔دیکھتے ہیں اب
انتظامی معاملات میں نااہلی برتنے والوں کے خلاف کوئی کاروائی ہوتی ہے یا
بھر ہم دیگر حادثات اور بم دھماکوں کی طرح اس حادثے کو بھی اﷲ کی عطاء مان
کرخود کو اس جرم سے بری کرنے کی روایت زندہ رکھیں گے ۔اﷲ رب العزت محترمہ
فرزانہ ناز کی اگلی تمام مشکلات آسان فرمائے اور انکے بچوں کو صبر دے ۔آمین
خوش گمانی کی اڑتی ہوئی تتلیاں رنگ کھو دیں گی ،بے موت مر جائیں گی اسی لئے
نیند سے مری بنتی نہیں آنکھ لگتی نہیں (فرزانہ ناز) |