اگر پانامہ لیکس میں ان پر کوئی الزام ہوتا

سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تو اس میں مریم نواز کا ذکر غائب تھا، عدالت نے صاف لکھا کہ مریم نواز کواپنے والد کا کفیل ثابت نہیں کیا جا سکا ۔وہ الگ گھر میں نہیں بھی رہتیں تو بھی والد کے زیر کفیل نہیں، وہ شادی شدہ ہیں ، اور دوونوں میاں بیوی ایک دوسرے کا سہارا ہیں، عدالت نے تسلیم کیا کہ مریم کو گاہے گاہے اپنے والد سے تحائف ملتے رہتے ہیں مگر تحائف ملنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ والد کی کفالت میں ہیں۔
اس بنیادی نکتے کو عدالت نے مسترد کر دیا اور اپنے فیصلے کی بنیاد اس ایک نکتے پر استوار نہیں کی تو سارا مقدمہ ہی ختم ہو گیا، اب جے آئی ٹی میں حسن نواز ، حسین نواز اور نواز شریف کو پیش ہوناہے، دونوں بیٹے پاکستانی شہری ہی نہیں، اس لئے جے آئی ٹی ان تک کیسے رسائی حاصل کرتی ہے، یہ ملین ڈالر معمہ ہے ، رہ گئے نواز شریف تو پانامہ لیکس کے کسی صفحے پر ان کا ذکر تک نہیں،پھر ان سے تحقیقات کس بات کی۔ اگر پانامہ لیکس میں ان پر کوئی الزام ہوتا تو اس کی صداقت کا بار ثبوت پانامہ لیکس والوں پر ہوتا، اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پانامہ لیکس والوں کو پاکستان کی کسی عدالت میں طلب ہی نہیں کیا جاسکتا،

سپر یم کورٹ میں عمران خان، شیخ رشید وغیرہ وغیرہ کے دلائل کی بنیاد ایک ہی تھی کہ لندن میں فلیٹ خریدے گئے، جن آف شور کمپنیوں کے ذریعے یہ فلیٹ خریدے گئے۔، وہ مریم نواز کی ملکیت تھیں اور مریم نواز اپنے والدنواز شریف کی زیر کفالت تھیں، جس کا مطلب یہ ہو اکہ سارا پیسہ نواز شریف کا تھا ، یہ پیسہ پاکستان سے چوری چوری باہر بھیجا گیا۔اس لئے وزیر اعظم منی لانڈرنگ کے مرتکب ہوئے اور اپنے عہدے سے معزول کئے جائیں۔ بحث بہت ہوئی کہ ایک اچھی خاصی عاقل بالغ خاتون ، شادی شدہ، کس طرح باپ کی زیر کفالت ہو سکتی ہیں۔ خاوند بھی سر پہ موجود۔ دونوں میاں بیوی کے پاس اپنی اپنی جائیداد بھی ہے ۔ لیکن ڈھٹائی کی کوئی حد نہیں ہوتی، شور یہی تھا کہ کسی کاغذ پر وزیر اعظم نے کسی زمانے میں مریم نواز کو اپنے زیر کفالت دکھایا تھا، اس لئے عدالت سے بھی استدعا کی گئی کہ مریم نواز کو اپنے والد کی زیر کفالت ہی سمجھا جائے اور یوں بیٹی کے ہر کاروبار کو باپ کی ملکیت تصور کر کے باپ کو اقتدار سے چلتا کیا جائے۔دلیل بڑی آسان تھی، عام فہم تھی، مگر عدالت کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ الزام کس قدر سادہ اور عام فہم ہے، اس کی ساری توجہ اس نکتے پر مرکوز ہوتی ہے کہ کیامخالف فریق اس الزام کو قانون کی رو سے ثابت کر سکتا ہے۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تو اس میں مریم نواز کا ذکر غائب تھا، عدالت نے صاف لکھا کہ مریم نواز کواپنے والد کا کفیل ثابت نہیں کیا جا سکا ۔وہ الگ گھر میں نہیں بھی رہتیں تو بھی والد کے زیر کفیل نہیں، وہ شادی شدہ ہیں ، اور دوونوں میاں بیوی ایک دوسرے کا سہارا ہیں، عدالت نے تسلیم کیا کہ مریم کو گاہے گاہے اپنے والد سے تحائف ملتے رہتے ہیں مگر تحائف ملنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ والد کی کفالت میں ہیں۔
اس بنیادی نکتے کو عدالت نے مسترد کر دیا اور اپنے فیصلے کی بنیاد اس ایک نکتے پر استوار نہیں کی تو سارا مقدمہ ہی ختم ہو گیا، اب جے آئی ٹی میں حسن نواز ، حسین نواز اور نواز شریف کو پیش ہوناہے، دونوں بیٹے پاکستانی شہری ہی نہیں، اس لئے جے آئی ٹی ان تک کیسے رسائی حاصل کرتی ہے، یہ ملین ڈالر معمہ ہے ، رہ گئے نواز شریف تو پانامہ لیکس کے کسی صفحے پر ان کا ذکر تک نہیں،پھر ان سے تحقیقات کس بات کی۔ اگر پانامہ لیکس میں ان پر کوئی الزام ہوتا تو اس کی صداقت کا بار ثبوت پانامہ لیکس والوں پر ہوتا، اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پانامہ لیکس والوں کو پاکستان کی کسی عدالت میں طلب ہی نہیں کیا جاسکتا،

ہم تو میمو گیٹ کے منصور اعجاز کو پاکستان نہیں بلا سکے تھے حالانکہ پورا جی ایچ کیو اس کے لئے دباﺅ ڈال رہا تھا مگر کسی ملک کے شہری پر ہمارے قانون کا اطلاق ہی نہیں ہوتا ۔ ہم تو ریمنڈ ڈیوس کو قابو میں نہیں رکھ سکے جو کہ لاہور کے ایک بھرے چوک میں دو پاکستانیوں کے قتل میں رنگے ہاتھوں پکڑا گیا اورا سے ہم نے جیل بھی بھیج دیا مگر وہ اڑن چھو ہوگیا، یہ تو بیرونی شہریوں کے معاملات تھے۔ ہم نے دعوی کیا کہ ایان علی نامی خاتون لاکھوں ڈالر لے کر باہر جا رہی تھی،ا سے گرفتار کر لیا گیا۔ ظاہر ہے ملزمہ نے صفائی میں یہی کہنا تھا کہ وہ بے قصور ہے مگر جس سرکاری اہل کار نے اسے گرفتار کیا تھا، اسے قتل کر دیا گیا، یہ خون خاک نشیناں تھا ، رزق خاک ہوا، کچھ عرصہ تک مقدمہ بازی ہوتی رہی۔ آخر ایان علی رہا بھی ہو گئی اور باہر بھی چلی گئی۔جب ہم اس کو قصور وار ثابت نہیں کر سکے تو مریم نواز جو ایک الگ گھر چلا رہی ہیں، جن کے بچے بھی جوان ہیں اور شادی شدہ ہیں ، انہیں نواز شریف کے زیر کفالت کہا جائے تو عدالت تو دور کی بات ہے، کوئی تھڑے والا بھی اس الزام کو قبول نہیں کرے گا۔ مگر کیا کیا جائے اپوزیشن کا کہ ا س نے اپنے مقدمے کی بنیاد ہی اسی ایک نکتے پر رکھی اور جب یہ نکتہ بے کار نکلا تو سارا مقدمہ ہی ڈھیر ہو گیا، نکل گیا ہے سانپ اب لکیر پیٹا کر۔

مریم نواز صرف خود سرخرو نکلیں بلکہ انہوں نے اپنے والد اورو زیر اعظم نواز شریف کو بھی سرخرو کر دیا۔مریم نواز کے حریف اس کی گرد پا تک کو بھی گزند نہ پہنچا سکے۔

مریم نواز اپوزیشن کا مسلسل ٹارگٹ ہیں،کیوں، یہ کوئی راز کی بات نہیں۔ وہ اپنے والد جو کہ ملک کے وزیرا عظم بھی ہیں، ان کے لئے پروپیگنڈہ سیل چلاتی ہیں۔اس طرح کا سیل چلانا کوئی جرم نہیں مگر اپوزیشن کی کوشش ہے کہ وہ مریم نواز کو اس کام کے قابل نہ چھوڑیں، اس لئے کبھی انہیں براہ راست اور کبھی ان کے موٹو گینگ کی وساطت سے ٹارگٹ کیا جا تاہے، ان پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے، یہ بھی کوئی نہیں دیکھتا کہ مریم ایک بیٹی کی طرح ہیں، ان سے اختلاف تو کیاجا سکتا ہے مگر ان پر گند نہیں اچھالا جانا چاہئے، بیٹیوں کے ساتھ کوئی بھی اس طرح کا سلوک نہیں کرتا ۔ مریم نواز بہر حال حوصلے والی خاتون ثابت ہوئیں۔ انہوں نے تلخ ترش سب کچھ برداشت کیا مگر اپنے رستے پر چلتی رہیں، اپوزیشن بھی بڑی ڈھیٹ واقع ہوئی ہے، ملک میں کوئی گڑ بڑ ہو جائے تو اس کے لئے مریم نواز کو قصور وار ٹھہرا دیا جاتا ہے، الزام لگانا کون سامشکل کام ہے، دو ٹکے کی زبان ہی تو ہلانا پڑتی ہے -

اورا وپر سے ہمارا میڈیا، سبحان اللہ۔ ماشااللہ ، چیخ و پکار کو سو سے ضرب دے کر ہر دم اچھالتا ہے۔ الزام لگانے والا صرف ایک بار بولتا ہے اور میڈیا دن میں تین سو بار اسے دہراتا ہے۔ اور مسلسل چیختا رہتا ہے، اسی طرح اس کی ریٹنگ بڑھتی ہے، اسی طرح گوئبلز کا فلسفہ سچ ثابت ہوتا ہے کہ جھوٹ بار بار بولو، اس قدر بولو کہ اس پر سچ کا گمان ہونے لگے۔مریم نواز اسی جھوٹ کا نشانہ بنی ہوئی ہیں۔

مگر جب عدالتوں کاواسطہ پڑ جائے تو جھوٹ کا سکہ نہیں چلتا، یہاں کھرا اور کھوٹا الگ الگ ہو جاتا ہے، پانامہ کے کیس نے مریم نواز کو ہر جھوٹے الزام سے بری کر دیا ہے۔ چلئے کسی کو تو انصاف ملا۔
کسی وجہ سے کا لم کا ناغہ ہو جائے تو بعض قیامتوں کا ذکر نہیں ہو پاتا۔ اور کئی اہم معاملات ، نت نئے واقعات کے طوفانوں میں دب جاتے ہیں۔ اسی طرح کا واقعہ احسان اللہ احسان کی گرفتاری یا سرینڈر کا ہے، سوشل میڈیا پر ایک تبصرے نے مجھے ہلا کر رکھ دیا کہ احسان اللہ احسان کو اس قدر پروٹو کول مل رہا لگتا ہے کہ اس نے سرینڈر نہیں کیا،پاکستانی قوم پر کوئی احسان عظیم کر ڈالا ہے۔ میں یہ تبصرہ نہ بھی پڑھتا تو میری رائے یہ تھی کہ اس شخص کو فوری طور پر پارلیمنٹ ہاﺅس کے سامنے ،کھلے عام پھانسی پر لٹکا دینا چاہئے تھا،

یہ کسی رو رعایت کا مستحق نہ تھا، اس نے اوراسکے ساتھیوں نے پاکستان میں برس ہا برس تک قتل عام کیا اور اس کی ذمے داری قبول کی، ادھر کوئی سو ڈیڑھ سو لاشیں گرتیں ، ادھر احسان اللہ احسان کا فرمان جاری ہو جاتا کہ وہ اس دہشت گردی کی ذمے داری قبول کرتے ہیں، جو ہلاکو خاں یا چنگیز خاں ہر لرزہ خیز دہشت گردی کاا عتراف کرتا رہا ، وہ کسی رو رعائت کا مستحق نہ تھا۔ آئی ایس پی آر کے سابق سربراہ کے بقول ،شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کا انٹر نیٹ مرکز جس شخص نے سنبھالا ہوا تھا، جو شخص ایک قطار میں کھڑے کئے گئے پاک فوجیوں کو ایک ایک کر کے گولی کا نشانہ بناتے فلم بناتا اور اسے سوشل میڈیا پر پھینکتا، جو شخص پاک فوجیوں کے قلم کئے گئے سروں سے فٹ بال کھیلتے دہشت گردوں کی فلم بناتا ور اسے سوشل میڈیا پر شیئر کرتا اور جو شخص ہمہ وقت پاکستانی میڈیا کے ساتھ ٹیلی فون اور ای میل کے ذریعے رابطے میں رہا، اسے موقع پر جہنم رسید کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا، ہم نہیں کر سکتے تھے تو سی آئی اے کا احسان لیتے اور احسان اللہ احسان کو ایک ڈرون میزائل سے جہنم واصل کر چکے ہوتے،عجب ستم ظریفی ہے کہ یہ شخص کھل کھیلتا رہا اور اب سرینڈر کر کے ایک جنگی قیدی کی مراعات سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ وہ جنگی قیدی نہیں ، ایک دہشت گرد ہے، اور اسے فوری طور پر کسی ملٹری کورٹ میں پیش کیا جائے، اس کو پھانسی کی سزاسنائی جائے اور صدر مملکت اپنے وجود کا احساس دلاتے ہوئے اسے پھانسی پر چڑھانے کا حکم جاری کریں ، یہ سب نہیں ہوتا تو پھر د ہشت گردوں کے حوصلے بڑھیں گے۔اور بڑھتے ہی چلے جائیں گے۔

محمد فاروق حسن
About the Author: محمد فاروق حسن Read More Articles by محمد فاروق حسن: 108 Articles with 138809 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.