مارشل، قدم بڑھاؤ ہم تمہار ساتھ ہیں ․․․․

 ایک عرصہ سے ایسے لوگ جنہیں اقتدار ہاتھ لگتا دکھائی نہیں دیتا جان بوجھ کر ملک میں مارشل لاء کے لئے راہیں ہموار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔کبھی چیخ چیخ کر ایمپائر کی انگلی اٹھوانے کے لئے زور لگاتے دکھا ئی دیتے ہیں۔تو کبھی آرمی چیف سے ملاقات کے لئے جاتے ہوئے اس قدر خوش دیکھے جاتے ہیں کہ جیسے دنیا کی کوئی عظیم ترین نعمت ان کے ہاتھ لگنے والی ہے۔ایسے لوگ جمہوریت اور جمہوری لوگوں سے بیزار اور فوجی ٹولے سے بے پناہ مسرور دکھائی دیتے ہیں۔ان لوگوں کو موجودہ گھٹنوں کے بل چلتی لولی لنگڑی جمہوریت کے مقابلے میں بوٹوں کی جھنکار زیادہ مسرور کرتی دکھائی دیتی ہے!ملک کی تمام تو نہیں لیکن دو تین پارٹیاں ایسی ہیں جو فوجی ٹولے کو خوش آمدید کہنے کے لئے دن رات بے تاب دکھائی دیتی ہیں ۔جن میں سر فہرست تو عمران خان اور ان کی پی ٹی آئی ہے، دوسرے نمبر پر ماضی کی ایم کیو ایم ہے اور تیسر نمبر پر ایک جعلی مولوی طاہر القادری کی جماعت ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی چھوٹی چھو ٹی پارٹیاں اس حمام میں غسل کر رہی ہیں۔ رہی کرپشن کی بات تو کوئی بتائے کہ ہم بتائیں !جنرلز، ججز،بیورو کریٹز،سیاست دانوں اور صنعت کاروں سمیت اس ملک میں کون دودھ میں نہا رہا ہے؟؟؟اور گذشتہ ستر سالوں کے دوران کس کا پیٹ چیر کر لوٹا ہوا مال بر آمد کیا گیا ہے؟

خدا میرے ملک کو ان دل جلوں کی نظر سے بچائے!پاکستان میں جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کے حوالے سے کچھ میڈیاز اور ان کے نام نہاد اینکرز(ان میں سے کچھ تو ایسے بھی ہیں جو صحافت کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہیں اور جن کااس سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے) دن رات کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔ان میں بعض ریٹائرڈعسکری اداروں کے لوگ اور جنرلز بھی شدو مد سے اس جہاد میں شریک ہیں۔جو، نواز شریف کوناجائز طریقوں سے ہٹا نے اور جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کے لئے اپنا اپنا کرادار بڑی محنت سے ادا کر رہے ہیں۔ اور موجودہ جمہوریت جیسی بھی ہے ان لوگوں کے لئے سُمِ قاتل بنی ہوئی ہے۔ایسے لوگوں اور اداروں کی رہنما ئی ایک ایسا شخص کر رہا ہے جس کے گُفتار اور کردار سے کونسا پاکستانی ہے جو واقف نہیں ہے؟جو اپنی جماعت میں بھی ایک ڈکٹیٹر مشہور ہے اور سوتے جاگتے وزارت عظمیٰ کے خوابوں میں گم رہتا ہے۔جس کا اپنا کوئی کاروبار یا بزنس بھی نہیں ہے مگر زندگی شہنشاہوں والی گذار رہا ہے اور کسی کو اپنی آمدن کے ذرائع بتانے کو بھی تیار نہیں ہے۔ جن کو اﷲ نے مال و دولت سے نوزا ہوا ہے اُن سے حسد اور کُڑہن میں اپنا ثانی نہیں رکھتا ہے۔جو جمہوریت کی بات تو کرتا ہے مگر آمرانہ ہتھکنڈوں کا دل دادا ہے۔اور جو اس ملک میں فوجی بوٹوں کے ذریعے اقتدار پر قابض ہونا چاہتا ہے۔اس حوالے سے مولانا فضل الر حمٰن کا کہنا ہے کہ عومی رائے کو پامال کر کے دوسروں کو قوم پر مسلط کرنے کی روش کو چھوڑنا ہوگا۔

آج پاکستان میں چند کے سوائے وہ تمام سیاسی جماعتیں ،جنہیں اپنا الیکشن میں مستقبل تاریک دکھائی دے رہا ہے،وہ تمام کی تمام نواز شریف کی مخافت میں ایسا دھومس اٹھائے ہوئے ہیں کہ جیسے وہ تمام دودھ کی دھلی ہیں اور صرف نواز شریف ہی کرپشن زدہ ہے اور جب ’’آئینہ اُن کو دکھایا تو برا مان گئے‘‘ کے مصداق اپنا آلودہ دامن جھاڑتی دکھائی دیتی ہیں۔اب تو ایسا بھی محسوس کیا جا رہا ہے کہ بعض ادارے بھی منظم طور پر وزیرِ اعظم پاکستان نواز شریف کو نشانے پر لئے ہوئے ہیں ۔وہ اپنی ڈیوٹی کرنے کی بجائے سربراہِ حکومت پر اپنا رعب داب ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کو خبر ہونی چاہئے کہ وزیر اعظم کسی ملک کا چیف ایگزیکٹیوہوتاہے۔جس کو اس ملک کے عوام نے منتخب کر کے آئنی طور پراس عہدے پر بٹھایا ہے اور ملک کے تمام ادارے اس کے ما تحت ہوتے ہیں۔اداروں کو چاہئے کسی زعوم میں آئے بغیر اپنی ڈیوٹی انجام دیں!کیونکہ ادارے ملک بناتے ہیں ورنہ ان میں شامل افراد کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ہے․․․․․․ان کو عزت ،نام ونمود بھی ملک کی وجہ سے ہی ملتاہے !!! اس لئے ملک کے آئین کی پاسداری ان کا فرض بنتاہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ عسکری ادارے کی یہ بات ناقابلِ یقین اورہماری بد قسمتی بھی ہے کہ وزیرِ اعظم پاکستان (ڈان لیکس) انکوئری کمیشن کی سفارشات پر عمل در آمد کیلئے تین متعلقہ وزارتوں کو حکم دیتے ہیں۔ لیکن سر عام وزیر اعظم کے اقدام سے اختلاف کیاجاتا ہے اور اسے مسترد بھی کر دیا جاتاہے۔جو جمہوریت سے تصادم کی خطرناک بات ہے۔ آئی ایس پی آر کی ٹوئٹ کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں کہ ’’ڈان لیکس پر اعلامیہ نا مکمل ہے اور انکوائری بورڈ کی سفارشات کے مطابق نہیں ہے۔اعلامیہ مسترد کیا جاتا ہے‘‘ ۔اس ضمن میں پاکستان کی صحافت کا ایک اہم نام انصار عباسی کہتے ہیں کہ’’ واضح طور پر منتظمِ اعلیٰ کے عہدے کو نقصان پہنچاتے ہیں اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ جیسے فوج آئین سے بالا تر کوئی ادارہ ہے‘‘۔

فوج کی جانب سے وزیر اعظم کے اداروں کو لکھے گئے خط پر فوجی ردِ عمل کے حوالے سے پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ’’ٹوئٹس جمہوریت کے لئے مہلک ہیں اور با اصرار کہا گیا ہے کہ ’’ادارے ٹوئٹس کے ذریعے ایک دوسرے سے بات نہیں کیا کرتے ہیں‘‘ فوج کسی بھی وجہ سے درست یا غلط وزیرِ اعظم کے 29 ،اپریل2017 حکم نامے سے نا خوش ہو سکتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ٹوئٹ کرنا چاہئے جس طرح انہوں نے ہفتے کو کیا۔جی ایچ کیو کے لئے بہترین لائحہِ عمل یہ ہوتا کہ وہ وزیرِ اعظم کے دفتر سے رابطہ کرتے اور اپنے تحفظات پہنچاتے۔ریٹنگ کے بھوکے ٹی و ی چینل کے لئے ٹوئٹ نے وہ پورا نسخہ فراہم کر دیا جو سیاسی افراتفری اور سول اور فوج کے درمیان غلط فہمی کو بھڑکانے کا باعث بنے گا۔پہلے سے تیار تجزیہ کاروں نے بھی یہ دیکھے بغیر کہ حکومت نے کیا کہا ہے۔دیکھے بغیر ہی کہ حکومت نے کیا کرنے جاری کیا ہے اس میں اپنا حصہ ڈالدیا ہے۔وزیر اعظم کا آرڈر مکمل طور پر غلط پڑھا اور غلط سمجھا گیا ہے‘‘۔ اس ضمن حکومت مخالف ٹولہ اپنے حمائتیوں کے ہم آواز ہو کر یہ نعرے لگا نا چاہ رہا ہے’’ مارشل‘‘ قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔اس ضمن میں لوگوں کو عمران خان کی چیف آف آرمی اسٹاف سے ملاقات کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے ۔جس کی مکمل معلومات ٹوئٹر نے بھی فراہم نہیں کیں․․․․․
 

Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed
About the Author: Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed Read More Articles by Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed: 285 Articles with 213196 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.