اسلام دین حق ہے۔ اس کی سچائی کا اعتراف مخالفین،
معاندین و اغیار سبھی نے کیا ہے۔ اور مستقبل میں بھی اس طرح کا اعتراف کیا
جاتا رہے گا۔ در حقیقت یہ اعتراف اسلام کی صداقت و سچائی اور حقانیت و دینِ
فطرت ہونے کے سبب ہے۔ اعتراف کرنے والے ہر دور میں رہے ہیں۔ ایسے اعترافات
کی قدر و وقعت اتنی ہے کہ معترف اسلام کا احترام کرتا ہے، اس کی تعلیمات سے
متاثر ہے، تعصب کے بغیر اس کی سچائی کا قائل ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں
کہ وہ واقعی اسلام کے تئیں مخلص ہے! اگر اس نے اسلام کی واقعی قدر جان لی
ہے تو قبولِ حق کیوں نہیں کر لیا! بہر کیف اس طرح کے اعترافات کا ایک مثبت
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مخالفین میں بھی بعض کی زباں اعترافِ حق میں رطب
اللساں ہے۔
جنھوں نے صدق دل سے اسلام کو تسلیم کیا بالآخر ان کی منزل قبول اسلام رہی۔
مستشرقین اور دانش ورانِ مغرب کا ایک ایسا طبقہ بھی گزرا جس نے ابتدا میں
اسلام پر تحقیق صرف اس غرض سے کی کہ وہ کم زوریاں تلاش کریں گے اور اسلام
کے مطالعے سے اسلام کے خلاف مؤثر حملے کر سکیں گے۔ پھر مطالعہ نے بعض کے
دلوں کی دُنیا بدل دی، سچ کہا ہے محقق مجددیات پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود
احمد نقشبندی نے: ’’مطالعہ و مشاھدہ نیک و بد اور خیر وشر کی پہچان کا
بہترین ذریعہ ہے ۔‘‘…… ہوا یہ کہ مطالعہ قبولِ اسلام کا سبب بن گیا۔
جارج برنارڈشا یورپ کا عظیم دانش ور، ناقد، شاعر، ادیب اور سخن شناس گزرا
ہے۔ مغربی مفکرین کی صف میں وہ نمایاں ہے، اقوام مغرب اس پر نازاں ہیں۔ اس
نے اسلام سے متعلق کئی عمدہ تاثرات دیے ہیں؛ جنھیں ہمارے مصنفین بڑے چاؤ سے
بیان کرتے اور بڑے شوق سے نقل کرتے ہیں، لیکن اس بابت بھی کبھی غور کیا گیا
کہ اس کی فکر میں یہ بدلاؤ کہاں سے آیا؟ وہ تو ابتدا ہی سے اسلام کا بڑا
مخالف تھا، اتہامات کا ایسا قائل تھا کہ اسلام سے متعلق تحقیق کے تمام
تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر شدت پسندانہ رویہ اختیار کرتا تھا جیسا کہ آج
کے مغربی دانش وروں کا طرز عمل ہے۔ ہمارے اصحابِ قلم نے کبھی اس پہلو کو
نہیں چھوا کہ وہ کون سی ذات تھی جس نے برنارڈشا کے اسلام سے متعلق متشدد
مزاج کو کامیابی کے ساتھ بدلا۔
ایک صدی کی تاریخ کھنگالنے پر معلوم ہوتا ہے کہ پوری دُنیا میں اسلام کی
اشاعت و تبلیغ کے حوالے سے سب سے زیادہ وسیع و عالمی پیمانے پر جس ذات نے
سرگرمی دکھائی اور کامیابی کے ساتھ اشاعتِ اسلام کا فریضہ انجام دیا وہ
ہندوستان کے عظیم سپوت ہیں جنھیں دُنیا مولانا عبدالعلیم صدیقی میرٹھی
(۱۸۹۲ء۱۹۵۴-ء)کے نام سے جانتی ہے۔ آپ ’’عالمی مبلغ اسلام‘‘ بھی کہے جاتے
ہیں۔ دُنیا کی بیش تر زبانوں میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ حکمت و دانش کے اس
جوہر سے مالا مال تھے جس کا حکم اسلام کی تبلیغ کے سلسلے میں کتاب الٰہی
میں دیا گیا ہے کہ:’’اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت
سے اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہترہو‘‘ (سورۃ النحل:۱۲۵؛ترجمہ
کنزالایمان)
اسی حسن تدبیر کا نتیجہ تھا کہ آپ نے پورے براعظم افریقا، یورپ،
امریکا،آسٹریلیا، سورینام، ملایا، انڈوچائنا، چین، جاپان، فلپائن، برما،
سری لنکا میں ہزاروں افراد کو داخلِ اسلام کیا۔ ان کی تربیت کے لیے مدارس و
مساجد، اسلامک سنٹر اور لائب ریریاں قائم کیں۔ کالجز قائم کیے۔ رسائل و
جرائد کا اجرا کیا درجنوں کتابیں انگریزی، عربی اور اردو میں تصنیف کیں۔
اسلام کی بنیادی تعلیمات پر مشتمل تحریرں شائع کیں۔ آپ ہی نے جارج برنارڈشا
کو اسلام کی طرف دعوت دی لیکن وہ قبولِ حق سے محروم رہا، ہاں یہ ضرور ہوا
کہ اس کے خیالات میں زبردست تبدیلی آئی اور کل تک جو اسلام کا مخالف تھا وہ
معترف ہوا۔
کینیا(جنوبی افریقہ ) کے شہر ممباسا میں ۱۷؍اپریل ۱۹۳۵ء میں مولانا
عبدالعلیم صدیقی میرٹھی کا برنارڈشا سے مکالمہ ہوا جس نے برنارڈشا کی فکر
کو بدل ڈالا۔اس نے اسلام سے متعلق اپنے شبہات پیش کیے، مبلغ اسلام مولانا
عبدالعلیم صدیقی نے ان کا ازالہ استدلال سے کیا۔ دی انٹرنیشنل اسلامک
مشنریز گلڈز نے اس مکالمہ کی انگریزی میں اشاعت کی، بہ عنوان A Shavian and
a Theologian سیدطارق علی نے اردو ترجمہ کیاماہ نامہ ترجمان اہلِ سنت کراچی
نے مارچ ۱۹۷۲ء میں اور نوری مشن مالیگاؤں نے ۲۰۱۱ء میں اشاعت کی۔
برنارڈشا نے تشدد، جہاد، اسلام کی اشاعت کے ذرائع، اسلوبِ دعوت، قرآن کا
نزول، انسانی حقوق جیسے عناوین پر اپنے اعتراضات پیش کیے۔ علامہ میرٹھی نے
دلائل و امثال سے جوابات دیے جس سے غبارِ فکر و نظر دور ہوا اور آخر میں
برنارڈشا نے وہ معرکہ آرا تاثر دیا جس کی معنویت کا مشاہدہ دنیا خود کر رہی
ہے: ’’تعلیم یافتہ، مہذب اور شائستہ لوگوں کا مستقبل کا مذہب’’اسلام‘‘ہے
۔‘‘(مبلغ اسلام اور جارج برنارڈشا،ص۱۵، طبع مالیگاؤں)
جس طرح سے فرقہ پرست عناصر اور صہیونی سازشیں اسلامی حسن کو دھندلانے اور
گہنانے کی کوشش میں ہیں اگر مسلمان اسلامی احکام پر عمل پیرا ہو گئے تو
تمام حملے دم توڑ جائیں گے اور اسلامی حسن اور نکھر کر فکروں کو متاثر کرے
گا۔
٭٭٭
|