دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ہر سال 3مئی کو آزادی
صحافت کا دن منایاجاتا ہے ۔ اس دن کو منانے کا مقصد ہر فرد خواہ وہ کسی بھی
معاشرے اور مذہب سے تعلق رکھتا ہے کو حق فراہم کرتا کہ وہ آزادی اظہار رائے
کا حق استعمال کرتے ہوئے اپنے حقوق کیلئے آذادانہ طور پر آواز بلند کر سکیں
،دستور پاکستان کا آرٹیکل 19آزادی اظہار رائے کی اجازت فراہم کرتا ہے، اس
امر میں کوئی شک نہیں کہ صحافت کسی بھی ریاست کا اہم ستون تصور کیا جاتا ہے
، صحافت کا براہ راست اور اہم تعلق میڈیا سے ہے اور دور حاضر میں اسکی
اہمیت اور افادیت اور بھی بڑھ جاتی ہے جس سے قطعی طور پر انکار نہیں کیا جا
سکتا ۔ امریکی فریڈ م ہاؤس کی جانب سے جاری جائزہ رپورٹ کیمطابق گزشتہ سال
70ممالک میں صحافتی آزادی ، 61ممالک میں جزوی اور 64ممالک میں آزاد صحافت
پر پابندی عائد رہی، ہماری سیاسی ، سماجی ، معاشرتی اور اقتصادی زندگی پر
جس طرح میڈیا نے مثبت اور منفی نقوش چھوڑے ہیں یقیناًاہمیت کے حامل ہیں
،بہر طور میڈیا ابلا غ کا موثر اور طاقتور ذریعہ ہے جسکی طاقت کے سامنے بڑے
بڑے کج کلاہوں کی ادائے سکندری نے سر تسلیم خم کیا اپنے عہد کے عظیم ڈکٹیٹر
نپولین نے بھی صحافت اور قلم کی طاقت کے سامنے سر نگوں کیا اور کہا تھا کہ
( I Fear three newspapers more than a hundred thousands bayonets) نپو
لین کا یہ جملہ آج بھی صحافت کی طاقت کے انکاری عناصر کیلئے زندہ مثال ہے ،
لیکن بد قسمتی سے ہر دور میں تحریر اور قلم پر پابندیاں لگائی گئیں اور
آزادی اظہار رائے کے حق کو صلب کرنے کی مذموم اور ناکام کو شیشیں کی گئیں
اور تاحال جاری ہیں ، مظلوم کی آواز بننے والے اور سچ سامنے لانے والے
صحافیو ں کو زدو کوب اور اغواہ کرکے کئی کئی عرصہ نامعلوم مقام پر منتقل
کیا جاتا رہا ، گزشتہ برس بھی اس عظیم فریضہ کی ادائیگی میں ڈیڑھ سے زائد
صحافیوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے مگر پھر بھی یہ عزم و ہمت کے پیکر
ڈٹے رہے اور ہمالیہ سے بلند حو صلوں کی تاریخی مثالیں قائم کیں ، اگر ذرائع
ابلاغ نہ ہوتے نہ جانے کتنی سوہنیاں رات کے اندھیرے میں چو دھریوں اور
وزیروں کی ہوس کی بھینٹ چڑھ جاتی اور کسی کو پتہ بھی نہ چلتا ، کتنی لڑکیاں
سر داروں کی نام نہاد پنچایت کے ہاتھوں بے موت مرجاتی او ر قانون نافذ
کرنیوالے ادارے بے خبر رہتے ، کتنے سیاستدان بیرون ملک سرے محلوں اور لندن
فلیٹس کی قطاریں لگادیتے اور بے خبر عوام آوے گا بھئی آوے گا کے نعرے لگاتے
رہتے ، سو ئس بینکوں کے تمام اکاؤنٹس پاکستانی سیاستدانوں کے نام ہوجاتے
اور بھولی عوام لاعلم رہتی ، بڑے بڑے تاجر لگژری فلیٹس اور رہائشی کا
لونیوں پر قبضہ جمالیتے اور کسی کو کونوں کان خبر تک نہ ہوتی ، کتنے غریب
مزدور بھٹہ مالکان کی نجی سیلوں میں گل سڑ جاتے اور انصاف دینے والا کوئی
نہ ہوتا، کتنے لوگ لسانی اور علاقائی دشمنیوں کے نام پر مارے جاتے اور کوئی
پرسان حال نہ ہوتا ، کتنی مختاراں مائیں پنچایت کے من مانے فیصلوں کی نظر
ہوجاتیں اور ہم تغافل کی نیند سو رہے ہوتے ، کتنی ملا لائیں گل مکئی کے نام
سے ڈائریاں لکھ لکھ اور سرپٹیخ پٹیخ کر مر جاتیں لیکن کسی کے کانوں پر جوں
تک نہ رینگتی ،ہمیں یہ تسلیم کرلینا چاپیئے کہ ظلم و جبر، اشرافیہ اور کرپٹ
عناصر کے سامنے بڑی رکاوٹ میڈیا ہی ہے وقت کے حکمران کی آنکھوں میں آنکھیں
ڈال کر بات کرنے کا ہنر اور آزادی میڈیا ہی کی حصے میں ہے ، آج تجد ید عہد
کا دن ہے کہ ہم عہد کریں کہ قلم و قرطاس کے وقار کو بلند کرنے کیلئے اپنا
ملی اور مثبت کردار ادا کرینگے جس سے معاشرہ میں منفی اور گھٹن زدہ فضا کو
ختم کرنے میں مد دملے ، بحیثیت صحافی ملکی معروضی حالات کے پیش نظر اپنے
اخلاقی قواعد و ضوابط کا خود تعین کریں، قلم کے ذریعے غیر جانبدار ، نڈر
اور جرات کے ساتھ بطورعبادت اپنے پیشے سے منسلک ہوں اور قلم و قرطاس کے
تقدس کا پاس رکھتے ہوئے اخلاقی روایات کا دامن نہ چھوڑیں تاکہ صحافت کی
اعلی قدریں پامال نہ ہوں، میڈیا تنظیموں اور صحافتی اداروں پر یہ بھاری ذمہ
داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صحافت کو طبقاتی آزادیوں سے باہر نکال کرضابطہ
اخلاق کے تحت صحافت کو یقینی بنانے کیلئے اپنا فریضہ انجام دیں اور اس مقدس
پیشہ سے وابستہ ان کالی بھیڑوں کو اپنی صفوں سے الگ کریں جو اپنی عزت نفس
اور ملکی وقار کا سودا کرتے ہیں ،قلم فروش اور ذرد صحافت کے پوجاریوں کو
نشان عبرت بنا یا جانا چاہیئے تاکہ ایک مہذب قوم کی مہذب صحافت پروان چڑھ
سکے۔ |