عشق مجازی سے حقیقی تک

 اس دنیا کی ہنگامہ آرائیوں میں جہاں دیگر چیزوں کا شور بپا ہے وہیں "عشق" کا چرچا بھی شباب پر پر ہے، یوں تو اس کی تقسیم حقیقی ومجازی میں کی جاتی ہے؛ لیکن مجازی پر اس کا اطلاق شائع وذائع ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اس لفظ کی بدنمائی کی وجہ سے پورے قران اور تمام ذخیرۂ احادیث میں سوائے دو تین جگہوں کے اس کا استعمال کہیں نہیں ہوا، اور ان دو تین کو بھی محدثین نے ضعیف وموضوع قرار دیا ہے.
یہ تین حرفوں کا مجموعہ اپنے اندر کرب واضطراب، نامرادی وناکامی اور بربادی تباہی کا ایک سمندر سموئے ہوا ہے، بڑے بڑے سورما وجیالے، خدا ترس وخدا رساں اس کے سوئے ہوے تاروں کو چھیڑنے کے جرم میں اپنے ہوش وحواس، عقل وخرد اور عزت وناموس کھو بیٹھے، بہت سی حکومتیں ان حسیناؤں سے عشق کی پاداش میں زیرو زبر ہوگئیں، شجاعت وبہادری کے بڑے بڑے تمغے جیتنے والے ان کے زلف برہم کے اسیر بن گئے اور ان کے گیسوئے دراز پابہ زنجیر ہوگئے، کسی کے قلب میں ان کے دل آویز جسم کے زیروبم اور پر کشش نگاہوں کی ایسی تیر پیوست ہوئی کہ وہیں مرغ نیم بسمل کی طرح تڑپ اٹھا اور کوئی ان کی ایک ادا پر مرمٹا اور ایک مسکراہٹ پر جان نچھاور کر ڈالی؛ چوں کہ جہاں اس کی تباہ کاریاں عام اور اس کے نقصانات مشہور ہیں وہیں اس کی میٹھی کسکیں اور اس کی رنگینیاں بھی بڑی پرکیف وپر لطف ہیں؛ چناں چہ ایک وعاشق گویا ہے:

شرکت غم بھی نہیں چاہتی غیرت مری★ غیر کی ہوکے رہے یا شب فرقت مری.


اس کی ہزارہا خرابیوں اور ناکامیوں سے واقفیت اور اس کی المناکی وستم ظریفی، پھر اس کے انجام سے آشنائی کے باوجود ایک عاشق صحرائے لیلی کا آہوئے بیتاب بنا پھرتا ہےاور صہبائے عشق کو جو دراصل اشک غم اور مئے تلخ وترش ہے پرلذت جام سمجھ کر گھونٹ گھونٹ پیتا رہتا ہے، جب کہ پھولوں کا سیج انھیں پرخار نظر آتا ہے، چین وسکون چھن جاتا ہے، زندگی مکدر ہو جاتی ہے، بالآخر ناکامی ونامرادی کو اپنی قسمت سمجھ کر موت کا جام پی لیتا ہے یا پھر رونا اور صرف رونا... زیست کے لمحات گھٹ گھٹ جینا اور ذلت ورسوائی اس کا مقدر بن جاتی ہے.

عشق نے غالب نکما کردیا ★ ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے.

اس کے برخلاف عشق حقیقی پائیدار اور باقی ہے؛ چوں کہ یہ اس ذات سے عشق ہے جس پر فنا متصور نہیں، لیلی لیلی کی رٹ لگانے کے بجائے اگر زبان ذکر مولی سے سرشار ہو تو قلب مطمئن اور دماغ پرسکون ہوتا ہے، (ألا بذكر الله تطمئن القلوب) {الرعد/۳۸} محبوب فانی کی دیدار کے لیے آنکھیں بے قرار رکھنے کے بجائے محبوب حقیقی سے ملاقات کے انتظار میں نمازوں کے ذریعہ آنکھیں ٹھنڈی ہوں،
(قرة عيني في الصلاة. مصنف عبدالرزاق:7939) حوران جہاں سے دل لگانے کے بجائے خالق حور خیالات کا محور ہو اور اسی کی شب وصال کی فکر میں مگن ہو تو اس کی زندگی میں چار چاند لگ جاتا ہے اور زیست کی ساری تاریکیاں ختم ہوجاتی ہیں، انسان تباہی کے دہانے سے بچ نکلتا ہے اور دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی اس کی قدم بوس ہوتی ہے، اللہ تعالی اپنے اس محب کا ذکر جبریل امین سے کرتے ہیں، جبریل اس کا چرچا فرشتوں میں عام کرتے ہیں اور پھر انسانوں کے قلوب میں اس کی محبت ڈال دی جاتی ہے جس سے وہ اللہ اس کے فرشتوں اور تمام انسانوں کا محبوب بن جاتا ہے، اللہ تعالی اس کے کان، آنکھ، ہاتھ اور پاؤں بن جاتے ہیں جن سے وہ سنتا، دیکھتا، پکڑتا اور چلتا ہے اور اس کا کوئی سوال رد نہیں ہوتا (فإذا أحببته : كنت سمعه الذي يسمع به ، وبصره الذي يبصر به ، ويده التي يبطش بها ، ورجله التي يمشي بها ، وإن سألني لأعطينه ، ولئن استعاذني لأعيذنه. بخاري:6502) بل کہ اگر وہ اللہ پر قسم کھا لے تو اللہ اس کی قسم کو رائیگاں نہیں ہونے دیتے (لو أقسم على اللهِ لأَبَرَّه. مسلم: 2542) اور اس سے بغض وعداوت رکھنے والوں کے لیے اعلان جنگ کردیتا ہے. (من عادى لي وليا فقد آذنته: بخاري: 6502)
عشق نے احمد مجلی کردیا ★ورنہ ہم بھی آدمی تھے نام کے.
عشق ایسی سوزش ہے جس کی تپش سے ماسوی المحبوب خاکستر ہوجاتا ہے، اس کی دبی چنگاریوں میں بھی کہیں ماسوی المحبوب کا وجود نہیں ہوتا، کسی سے محبت لگاؤ بھی محبوب کی خاطر اور بغض وعداوت بھی محبوب کی خوشنودی ورضامندی کے لیے ہوا کرتی ہے اور اس محبوب سے جدائی کا تصور بھی شعلہ زن دہکتی آگ میں کود جانے سے زیادہ مشکل ہوتا ہے.
(ثلاثٌ مَن كنَّ فيه وجَد حلاوةَ الإيمانِ : مَن كان اللهُ ورسولُه أحبَّ إليه مما سواهما، ومَن أحبَّ عبدًا لا يحِبُّه إلا للهِ، ومَن يَكرَهُ أن يعودَ في الكفرِ، بعد إذ أنقَذه اللهُ، كما يَكرَهُ أن يُلقى في النارِ. بخاري: 21)
اسے ایمان کی اسے ایمان کی حقیقی حلاوت وچاشنی نصیب ہوتی ہے اور اپنے گوہر مقصود یعنی "اللہ" کو پالیتا ہے، پھر اس کی خواہشات اس کے تابع بن جاتی ہیں اور اس کے لیے جلوت میں خلوت اور خلوت میں جلوت ہوا کرتی ہے. یہی تصوف ہے.

تصوف شریعت سے باہر کوئی نئی ایجاد نہیں؛ بل کہ جبریل امیں علیہ السلام کے سوال " ما الإحسان؟" کی عملی تربیت کا نام ہے کہ انسان کسی شیخ یا مربی کی تربیت میں رہ کر اپنے آپ کو صفاء قلب کی چھلنی میں چھلتا رہے تا آنکہ " أن تعبد الله كأنك تراه، فإن لم تكن تراه فإنه يراك" کو پالے اور فنا فی اللہ بن جائے؛ لیکن اس کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ انسان فنا فی اللہ بن کر دائرہ شریعت سے باہر نکل جاتا ہے. پھر نمازیں ان سے عفو، روزے ساقط، چرس وگانجے حلال، گانے باجے اور رقص وسرور مستحب ومندوب بن جاتا ہے؛ بل کہ جس طرح ظاہر میں نماز روزے، صدقات وعطیات شرعی اصول وآئین کے دائرہ میں ہو ایسے ہی اس کا باطن بھی شرعی قالب اور منشأ نبوی میں ڈھل جائے شراب وشباب اور لحم خنزیر جس درجے کا حرام سمجھتا ہو اسی درجے میں امراض باطنیہ بغض، حسد، کینہ، غرور، حب جاہ، نام ونمود، دنیا پرستی کو بھی سمجھنے لگے.
چوں کہ یہ علوم باطنی ہیں جن کا ادراک کتابوں کی ورق گردانی سے نہیں ہوسکتا، کبر حرام ہے تو عزت نفس واجب، حسد ناجائز ہے تو غبطہ (رشک) جائز، بغض ایک قبیح مرض ہے؛ لیکن اللہ کے لیے بغض ایک محبوب عمل ہے، محض کتابوں کی ورق گردانی سے ان کے درمیان خط امتیاز کھینچ پانا ناممکن ہے، اس کے لیے کسی منجھے دل شخصیت کی طرف انابت ضروری ہے،
اصول فقہ کا معروف قاعدہ ہے:مالا يتم إلا به فهو واجب.
علامہ سید سلیمان ندوی سے کون ناواقف ہوگا؟ نابغہ روزگار سیرت نگار،، وسیع النظر مؤرخ، اعلی پایہ کے سوانح نگار، باکمال انشاء پرداز، مزاج مذاق شریعت آشنا، صاحب بصیرت مدبر، اچھے شاعر اور دریائے بحث وتحقیق کے بہترین شناور؛ بل کہ جامع کمالات شخصیت تھے، پہلی بار جب بغرض ملاقات تھانہ بھون گئے اور حکیم الامت رحمہ اللہ سے نصیحت کی درخواست کی، حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا: آپ جیسے فاضل کو کیا نصیحت کروں؛ لیکن بزرگوں سے جو سنا ہے اس کا تکرار کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اس راہ کا پہلا قدم اپنے آپ کو مٹادینا ہے. یہ سننا تھا کہ سید صاحب پر گریہ طاری ہوگیا پھر بعد میں بھی تھانہ بھون گئے، تین دن حضرت تھانوی کی مجلس میں شریک ہوے، تیسرے دن کھڑے ہوکر سہ دری پر ہاتھ رکھ کر رونے لگے، فرمایا: تمام عمر جس کو علم سمجھا اب معلوم ہوا کہ سب جہل تھا، علم تو اس بڑے میاں کے پاس ہے. پھر سید صاحب نے فرمایا:

جانے کس انداز سے تقریر کی★
پھر نہ پیدا شبہ باطل ہوا
آج ہی پایا مزہ قرآن میں★
جیسے قرآن آج ہی نازل ہوا

اس انقلاب کے بعد علامہ کے پاس بہت سے خطوط آئے کہ آپ جیسے فاضل اجل اور محقق کو ایک پرانے طرز کے عالم کے سامنے سر جھکانے کی کیا ضرورت تھی؟ اس کے جواب میں سید صاحب نے فرمایا کہ میں نے اپنے اندر کوئی کمی تو پایا جس کی تکمیل کے لیے وہاں گیا، معاملہ دماغ کا نہیں قلب سلیم اور قلب منیب کا ہے، نفس کا نہیں روح کا ہے، جب تک دل کا تعلق دل والے سے نہ ہو انسان کامل نہیں بنتا. ( معارف سلیمان: 68)

خلاصہ یہ کہ عشق اپنے آپ میں ایک خوبصورت جذبات واحساسات سے معمور تحفہ ہے، ایک شیریں شراب ہے، مہکتا گلاب ہے اور شب کی تاریکی میں مسکراتے وجگمگاتے ستارے ہیں بشرطیکہ اس عشق کا تعلق اللہ اور اس کے رسول سے ہو، اس سے ایک انسان ان بلندیوں کو چھو لیتا ہے جسے اس کے بغیر ریاضت وعبادت سے چھونا ممکن نہیں.

عشق ایک فطری جذبہ ہے جس کا منبع انسانی دل ہے بس اس کی توجہ خلق سے ہٹاکر خالق کی طرف کرنے کی ضرورت ہے جسے صوفیاء کی زبان میں صرف ہمت کہتے ہیں جس کے لیے کسی معتمد شیخ ومربی سے دست گرفتگی ضروری ہے، اس کے بغیر "احسان" اور حلاوة ایمان" کا حصول ناممکن نہیں تو کم از کم مشکل ترین ضرور ہے.

Abdullah Mumtaz
About the Author: Abdullah Mumtaz Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.