کیا میں اس کا مجرم تھا ؟

اور کئی سال تک یہ خبر اخبارات کی زینت بنتی رہی ہے جب بے نظیر برسر اقتدار آئی تو یہ بات مشہور کر دی گئی کہ وہ بابے دھنکّے کا سوٹا کھانے گئی تھی اور بابے نے اس کو سوٹا مارا اور جیالوں نے نعرہ لگا دیا کہ اب بے نظیر وزیر اعظم بن جائے گی اور واقعی وہ بن گئیں اور اگلی دفع نوازشریف صاحب بابے دھنکےّ کے پاس پہنچ گئے اور بابے دھنکّے نے ان کو بھی سوٹا مارا تو اخبارات میں یہ خبر شہ سرخیوں میں شائع ہوئی کہ اب نواز شریف ضرور وزیراعظم بن جائیں گے

میں ایک ناقابل فراموش واقعہ آپ لوگوں کو سنانے لگا ہوں جو ابھی تک میرے لیے معمّہ ہے وہ کوئی بہت بڑے گھرانے کا آدمی تھا اور کسی جادوگر نے اپنا معمول بنا رکھا تھا اور وہ میرے پیچھے لگا ہوا تھا کہ یہ آدمی صاحب کرامت ہے یا نہیں کسی نہایت ہی چالاک اور مکّار شخص نے اسے یہ غلط فہمی کا شکار کیا تھا کہ جو بندہ اس آدمی اس کی پیٹھ پر ہاتھ لگائے گا وہ ملک کا وزیراعظم بن سکتا ہے بلکل ایسے ہی جیسے ایک شوشا چھوڑا گیا تھا کہ جو بندہ بابے دھنکّے کا سوٹا کھائے گا وہ ملک کا وزیر اعظم بن جائے گا

اور کئی سال تک یہ خبر اخبارات کی زینت بنتی رہی ہے جب بے نظیر برسر اقتدار آئی تو یہ بات مشہور کر دی گئی کہ وہ بابے دھنکّے کا سوٹا کھانے گئی تھی اور بابے نے اس کو سوٹا مارا اور جیالوں نے نعرہ لگا دیا کہ اب بے نظیر وزیر اعظم بن جائے گی اور واقعی وہ بن گئیں اور اگلی دفع نوازشریف صاحب بابے دھنکےّ کے پاس پہنچ گئے اور بابے دھنکّے نے ان کو بھی سوٹا مارا تو اخبارات میں یہ خبر شہ سرخیوں میں شائع ہوئی کہ اب نواز شریف ضرور وزیراعظم بن جائیں گے

اور واقعی وہ وزیراعظم بن گِئے اور بہت سے لوگ اپنے مسائل کا حل کرانے بابے دھنکّے کے پاس پہنچ جاتے تھے اور ان کا یہ یقین تھا کہ جو بابے کا سوٹا کھاتا ہے وہ جلد مسائل سے چھٹکارا پا لیتا ہے اور میں ان دنوں خود جادو کا شکار تھا اور کبھی ٹرین کے نیچے لیٹنے جاتا اور کبھی بس کے نیچے اور کبھی میں پنکھے پر جھول جانے کی کوشش کرتا تھا لیکن اللہ نے ایسا اقدام کرنے سے محفوظ رکھا اور جب وہ میرا پیچھا کرتا تھا تو اس کو یہ بتایا جاتا تھا کہ پیر صاحب جو حکم دیں گے اس پر بلا تردّد عمل کر ڈالنا اور میری جو حالت تھی وہ مجھے سلو پوائزن سمندری جھاگ اور جبوّلوٹا دیا جاتا تھا

یہ مجھے پتا نہیں کہ کون ہوٹلوں والوں کو چائے خانے والوں کو اس بات پر قائل کر لیتا تھا کہ اس کو یہ چیز ڈال کر کھلانی یا پلاںی ہے حتٰی کہ ہسپتال والوں کو بھی رشوت دے کر مجھے کھانے میں یہ چیزیں دی جاتی تھیں مجھے جس پر شک ہے اس کانام ہے خالد ہے جو جماعت الدعوہ ڈسکہ کی ایمبولینس چلاتا ہے فہداللہ اور امتیاز وغیرہ بھی اس کے ساتھ ملے ہوئے تھے کسی اور جگہ مجھے سونے کے لیے اور رات گزارنے کے لیے میسّر نہیں تھی الغرض میں ان لوگوں کے رحم و کرم پر تھا حتّی کہ گھر والے بھی مجھے گھر میں رکھنے پر راضی نہیں تھے

یہ ایک قسم کا ٹارچر تھا جو مجھ پر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دیا جاتا تھا اور مجھے کہا جاتا تھا کہ ہم نے پاکستان کا بھی وہ حال کرنا ہے جو ہم نے بنگلہ دیش کا کیا ہے لیکن میں نے تھا نے جانے کی کوشش کی تو مجھے نشئی قرار دے کر تھانے والوں نے بات ہی نہیں سنی بلکہ ایک بدصورت پولیس والے نے مجھے گیٹ کے اندر داخل نہیں ہونے دیا خالد امتیاز اور فہداللہ سیاست دان ہیں غدّار ہیں یا اداکار ہیں کہ سمگلر مجھے اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا میں نے تکلیف کی شدّت سے تنگ آکر مینار پاکستان کا رخ کیا اور ٹکٹ لے کر آخری منزل پر پہنچ گیا اور میں چھلانگ لگانے کے لیے پر تول رہا تھا کہ وہ میرا نامعلوم مرید جو پتا نہیں جوگی کی طرح کا تھا جو مزاق رات میں سانپ والی آئٹم کرتا تھا

اس نے کہا کہ کیا حکم ہے میرے آقا میں نے کہا کہ کون آقا اس نے کہا آپ حضور میں نے بیزاری سے کہا میں تو چھلانگ لگانے آیا ہوں تکلیف سے میرا برا حال ہے اس نے کہا میں بھی آپ کے ساتھ ہی مروں گا میں تھوڑا سا آگے کو جھکا اس نے کہا میری جان حضور آپ کے نام آپ وہی ہیں جنہوں نے اپنے مرید کو تنور میں چھلانگ لگانے کا حکم دیا تھا میں نے آپ میں ساری نشانیاں دیکھ لی ہیں میں جب چھلانگ لگاوں گا تو جیسے آپ نے اپنے مرید کو تنور سے صحیح سالم بلا لیا تھا مجھے بھی بلا لینا اور اس نے چھلانگ مار ڈالی میں دیکھا کہ وہ مینار پاکستان کے فلاور پر گرا ہوا تھا

اور مجھے اسی وقت پاگل خانے میں داخل کرا دیا گیا اور مجھے کہا گیا کہ تو نے اتنے بڑے آدمی کو مینار پاکستان سے گرا دیا ہے اب تیرا سارا خاندان ختم کردیا جائے گا میں نے کہا کہ میں تو خود چھلانگ لگانے آیا ہوں گارڈ نے مجھے مضبوطی سے پکڑ کر نیچے اتارا تھا لیکن ظلم کی انتہا ملاحظہ کریں کہ ایک چھوٹے قد کا ڈاکٹر جسے میں ٹھٹھّہ لاکھی ہسپتال میں دیکھ چکا تھا اس کے چہرے پر ماتا کے داغ تھے اس نے وہاں بھی مجھے سلو پوائزن دینا بند نہیں کیا اور وہاں اور زیادہ میری طبیعت خراب ہو گئی لیکن وہ روڈ ایکسیڈنٹ میں مارا گیا اور میری جان چھوٹی اور جب میں گھر پہنچا تو سارا گھر سنسان پڑا تھا

سب کو مار دیا گیا تھا اب بھی ویسے ہی حالات دوبارہ ہو رہے ہیں اور اب کی بار وہ چھلانگ لگائے گا یا نہیں میں نہیں جانتا -یہ وہ کرامت ہے میری زندگی کی جسے کوئی بھی نہیں مانتا اور سب مجھے پاگل سمجھتے ہیں لیکن میں اللہ کاشکر ادا کرتا ہوں جس نے مجھے ہر نعمت دوہری دوہری عطا فرمائی ہے اللہ مجھے اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین اے اللہ میں تیری بے شمار نعمتوں کا شکر گزار ہوں اللہ کی پناہ جادوگروں کے شر سے منافقوں کے شر سے آمین

محمد فاروق حسن
About the Author: محمد فاروق حسن Read More Articles by محمد فاروق حسن: 108 Articles with 138938 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.