پشتوکی مشہورکہاوت ہے ’’ پہ گنڑوقصابانوکے غوامردارہ
وی‘‘یعنی ان گنت قصائیوں کی موجودگی میں گائے ذبح ہونے کی بجائے مرجاتی ہے
کچھ اسی قسم کی صورتحال وطن عزیزپاکستان کی ہورہی ہے یہاں کی سیاست توشروع
سے ہی نرالی چال کی حامل ہے قیام پاکستان کے اوائل میں غداری کالفظ شہرت
رکھتاتھاکسی بھی سیاستدان کیلئے اپنے مخالف پرغداری کاالزام لگاناانتہائی
آسان اورعام سی بات تھی اگرآپ سیاستدان ہیں آپ کے پاس کوئی حکومتی عہدہ ہے
اورلوگوں میں آپ کی شناخت موجودہے تو آپ بلاکسی توقف کے کسی بھی مخالف
سیاستدان کوغدارقراردے سکتے ہیں اسی غداری اورحب الوطنی کے سرٹیفیکیٹس
بانٹنے کے دوران صوبائی خودمختاری کیلئے جدوجہدکرنے والوں کوعدالتوں کے
ذریعے غدارقراردلاکرانکی سیاسی جماعتوں پرپابندیاں لگائی گئیں مزے کی بات
یہ کہ وہی سیاسی جماعتیں انہی نظریات کے ساتھ دوسرے نام سے سامنے آجاتی
تھیں زیادہ دورنہ جائیں نیپ کی مثال ہمارے سامنے ہے نیشنل عوامی پارٹی
پرپابندی لگی تووہی پارٹی عوامی نیشنل پارٹی کے نام سے سیاست میں متحرک
ہوگئی اورپابندی کے بعدچارمرتبہ صوبائی جبکہ تین مرتبہ وفاقی حکومتوں میں
شامل رہی اب اگریہ پارٹی یااس سے متعلقہ لوگ غدارتھے ،ملک دشمن تھے ،وطن
فروش تھے توانہی لوگوں نے دوبارہ سیاست میں حصہ کس قانون کے تحت لیااسی
سیاسی جماعت کی سیاسی سرگرمیوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ پابندی’’
سیاسی انصاف‘‘ کے مرہون منت تھی کیونکہ ناتواس پارٹی نے ملک کودوٹکڑے کرنے
میں کوئی کرداراداکیا،ناہی اس نے ملکی سلامتی کے رازفاش کئے اورناہی اسے
باہرسے کسی فنڈنگ کے ثبوت ملے اسی طرح ذوالفقارعلی بھٹونے جس سپریم کورٹ سے
اپنے سیاسی مخالفین کوپابندی کانشانہ بنوایامختصرعرصے کے بعداسی کورٹ نے
اسی ذوالفقاعلی بھٹوکوسزائے موت سنادی جسے آج تک بھٹوکے پرستارماننے کیلئے
تیارنہیں اورکچھ عرصہ قبل اس کیس کودوبارہ کھولنے کیلئے سپریم کورٹ میں
درخواست بھی دائرکی گئی یہ تمام تفصیل بیان کرنے کامقصدصرف یہ ہے کہ
بدقسمتی سے ہماراعدالتی نظام یاعدالتوں سے منسلک لوگ اپناوہ کرداردرست
طریقے سے ادانہ کرسکے جس کیلئے انہوں نے حلف لیاتھایہاں عدالتیں مارشل لاؤں
اورغیرقانونی حکومتوں کونظریہء ضرورت کے تحت چھتریاں فراہم کرتی رہیں
اورحکمرانوں کی مرضی کے فیصلے ہوتے رہے یعنی سامنے نظرآنیوالی عدالت کے
پیچھے حکمرانوں کی ایک اور عدالت بھی لگی ہوتی تھی ایوب خان ،یحیٰ خان
،ضیاء الحق اور پرویزمشرف کوغیرآئینی چھتری انہی عدالتوں نے فراہم کی
حالانکہ بعدمیں جج صاحبان کواپنے فیصلوں پرپچھتاناپڑااس کامطلب یہ قطعاً
نہیں کہ یہاں کے جج فیصلے کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ اصل مسئلہ یہی ہے
کہ عدالتوں کوکھل کرکام نہیں کرنے دیاگیااورانہیں دباؤمیں رہ کر فیصلے دینے
پڑے جب کسی ملک کی عدالتوں کوکھل کرانصاف فراہم کرنے سے روکاجائے تواس ملک
یاریاست کی حالت اس سے بھی بدترہوجاتی ہے جوآج ہماری ہے عدالتوں کوانصاف کے
تقاضے پورے کرنے سے روکنے کے باوجوداگریہ ملک اب بھی قائم ہے تویقیناً اسے
قائم رکھنے والی کوئی ایسی ذات موجودہے جسے ہماری آنکھیں دیکھنے سے قاصرہیں
بہرحال بات ہورہی تھی ملک میں عدالتوں کے اوپرعدالتوں کی تو اب تک اس ملک
کے ساتھ یہ کھلواڑہوتارہاکہ عدالتوں کوانصاف فراہم کرنے کی بجائے ذاتی
پسندکے فیصلے لینے کیلئے مجبورکیاگیااسکی تفصیل میں اگرہم جائیں گے تومعلوم
ہوگاکہ اس میں ہمارے جمہوری اورغیرجمہوری دونوں حکمران ایک دوسرے پربازی
لیتے ہوئے نظرآرہے ہیں یہاں پسندکافیصلہ نہ دینے پراعلیٰ عدالتوں پرحملے
بھی کئے گئے ،ججوں کوانکی فیملی کے حوالے سے دباؤمیں لایاگیا،دھونس دھاندلی
اورلالچ کے ذریعے من پسندفیصلے کروائے گئے اوراگرکبھی قانون کے مطابق کوئی
فیصلہ آیاتوسیاسی مخالفین نے صوبائی تعصب کوہوادی اورفیصلوں کوصوبائی
تناظرمیں پیش کرنے کی کوشش کی گئی حالیہ پانامہ کیس میں یہ بات کھل کرسامنے
آئی کہ عدالتوں کودباؤمیں لاکرمرضی کافیصلہ لینے کی کوشش کی گئی روزانہ
عدالت کے باہرکئی عدالتیں لگائی گئیں اورکیس میں ججوں کی جانب سے اٹھائے
گئے نکات ،اعتراضات اورکمنٹس کی من پسندتشریحات کی گئیں ،اسی طرح شام
کوروزانہ آٹھ سے گیارہ بجے تک ٹی وی سکرینوں پرعدالتیں لگائی گئیں جہاں
عدالت کوگائیڈکرنیکی کوشش کی گئی اخبارات کے صفحات پربھی عدالتیں قائم کی
گئیں جہاں مجھ سمیت بہت سے خودساختہ ججوں نے اپنے فیصلے سنائے اوران فیصلوں
سے عوام کوکنفیوزکرنے کاسلسلہ تاحال جاری ہے دراصل ہم انصاف اسی کوسمجھتے
ہیں جس میں ہماری مرضی کافیصلہ آئے ذراواضح الفاظ میں ہم یہ بھی کہہ سکتے
ہیں کہ ہم فیصلے توخودکرتے ہیں بس ان پرعدالت کی مہرلگواناچاہتے ہیں فیصلے
کرنے میں ہماری قوم دنیاکی ذہین ترین قوم ہے یہاں ملک کی اعلیٰ عدالت سپریم
کورٹ تک کافیصلہ آنے سے پہلے ہم اپنے فیصلے سناتے رہتے ہیں ،یہاں ہم خودہی
جج بن کرکسی کوسزابھی دے دیتے ہیں ،یہاں اپنی دی گئی سزاپرعملدرآمدبھی
کیاجاتاہے اورکسی کوقتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیاجاتامشال قتل کیس میں اب
تک کسی بھی ریاستی ادارے کوتوہین رسالت ﷺ کاثبوت نہیں ملامگرہم نے مشال
کوناصرف قتل کردیابلکہ اس کی لاش کے ساتھ غیرانسانی سلوک بھی کیاگیااوراب
ہمارے ہاں کی مذہبی جماعتیں مشال کے قاتلوں کوسزاہونے سے روکنے کیلئے بھی
متحرک ہوگئی ہیں افسوس کامقام یہ ہے کہ ہم مظاہروں ،پریس
کانفرنسوں،میڈیاٹاکس،ٹی وی پروگرامز،اخبارات کے صفحات اوراونچی آواز سے
عدالتوں کوانصاف کی فراہمی سے روکتے ہیں گزرے زمانوں میں حکمران عدالتوں
پراثراندازہوتے رہے مگرآج پیٹیشنرزیہی کام سرانجام دے رہے ہیں وقت آچکاہے
کہ ریاست ایسی قانون سازی کرے کہ عدالتی امورمیں کسی کوبھی دخل اندازی کی
ہرگزاجازت نہ ہوعدالتیں اپناکام کریں اوردوسرے لوگ اپنا،کسی بھی مقدمے میں
کسی بھی فریق کویہ اجازت نہیں ہونی چاہئے کہ وہ کیس کے بارے میں جلسوں ،ٹی
وی سکرینوں ،اخباری صفحات یاکسی بھی عوامی جگہاؤں پرعدالتوں میں زیرسماعت
مقدمات پررائے زنی کرے ،عدالتی امورکوزیربحث لائے یاکیس کے فیصلے کی
تاریخیں دیں کسی بھی سطح پرکیس پراثراندازہونے کی قطعاًاجازت نہیں ہونی
چاہئے اوراگرکوئی فریق ایساکرے توکیس کافیصلہ اسی وقت اسکے خلاف جاناچاہئے
یاکوئی اوراس قسم کاقدام کرے تواسے فی الفورسزادی جانی چاہئے دوسروں کے
فرائض میں ٹانگ اڑانے جیسی حرکات کاراستہ روکنا ضروری ہے ورنہ ہمارامعاشرہ
،ملک اورریاست سترسال مزیدگزرنے کے باوجودبھی اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں
مارتے رہیں گے اورملک وقوم کی کوئی سمت مقررنہیں ہوگی ہم ایک سوچالیس سال
عمرہونے کے باوجودنابالغ ہی رہیں گے اورذ ہنی بلوغت کی منزل سے میلوں
دوررہیں گے عدالتوں پراپنے فیصلے مسلط کرنے سے انصاف نہیں مل سکتا اپنی
اپنی عدالت اوراپنے اپنے فیصلوں کے رواج کی روک تھام ضروری ہے۔ |