چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے سے پاکستان کو ایک
موقع ملا ہے کہ وہ بے اصولی سے جان چھڑاتے ہوئے ترقی اور استحکام کی جانب
پیش رفت کر سکتا ہے اور اسی حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ '' سی پیک''
منصوبے سے پاکستان کا ڈیفنس بھی چین کی ذمہ داری میں شامل ہو چلا ہے۔گوادر
بندر گاہ،سی پیک منصوبے سے متعلق چینی بحریہ کی بحر ہند میں موجودگی
پرہندوستان اور امریکہ کی طرف سے تشویش ظاہر کی جا رہی ہے۔ 'سی پیک '
منصوبے میں دیگر کئی ممالک کو بھی شامل کرنے کے حوالے سے آئندہ چند دنوں
میں چین میں 28ملکوں کا اجلاس منعقد ہو رہا ہے جس میں ایشیا، یورپ اور
افریقہ کے درمیان تجارتی تعلقات کو وسعت دینے پر بات کی جائے گی۔اس منصوبے
کی سیکورٹی کے حوالے سے منعقدہ ایک سیمینار میں چین کی داخلی سکیورٹی کے
سربراہ نے کہا ہے کہ اس منصوبے پر اس وقت ہی پیش رفت ہو سکتی ہے جب محفوظ
اور مستحکم ماحول ہو گا۔ داخلی سکیورٹی کے سربراہ نے ایک اہم بات یہ بھی
بتائی کہ بڑہتے ہوئے عالمی تعاون، خطرات اور چیلنجز سے مشترکہ طور پر نمٹنا
اور 'ون روڑ ون بیلٹ' کی سکیورٹی تمام ممالک کی مشرکہ ذمہ داری ہے۔سیمینار
میں پبلک سکیورٹی کے چینی وزیر کنے کہا کہ عوام کی سکیورٹی، انسداد دہشت
گردی اور بیرون ملک مفادات جیسے عوامل میں پہلے سے زیادہ عملی تعاون کی
ضرورت ہے۔یوں چین کی طرف سے یہ توقع ظاہر کی جار ہی ہے کہ 'سی پیک' سے
متعلق 28ملکوں کے اجلاس میں اس منصوبے کی سیکورٹی مشترکہ ذمہ داری کے طور
پر قبول کی جائے گی۔چین کے وزیر نے امید ظاہر کی کہ منصوبے میں شامل تمام
فریقین مشترکہ اور تعاون پر مبنی سکیورٹی کی سوچ کی سرپرستی کریں گے اور'
ون بیلٹ ون روڈ 'کے اقدام کی سکیورٹی تعاون کے لیے ایک مربوط طریقہ کار کا
قیام عمل میں لایا جائے گا۔چین کی میزبانی میں14اور15مئی کو منعقد ہونے
والی اس کانفرنس میں پاکستان، روس، ویتنام، ترکی، سپین، سعودی عرب، بیلاروس
اور دیگر ممالک شامل ہوں گے۔
یوں چین دنیا کے مختلف خطوں کے درمیان پائیدار تجارت کے منصوبے پر اپنے
مکمل' ہوم ورک'کے ساتھ مختلف ملکوں کے ساتھ اشتراک عمل پر توجہ دے رہا
ہے۔دوسری طرف 'سی پیک' منصوبے کے اہم ملک پاکستان میں اختیارات و حاکمیت کی
داخلی کشمکش کو کسی طور ترک کرنے کا رجحان ظاہر نہیں ہوتا۔کئی اندرونی و
بیرونی خطرات کا شکار ملک درپیش صورتحال میں یوں الجھا نظر آتا ہے کہ کئی
نئے خطرات کی بھی نشاندہی ہو رہی ہے۔بیرونی و اندرونی دہشت گردی،عوامی امور
سے متعلق سرکاری اداروں کی بد انتظامی،بد عنوانی ،رشوت،اقربا ء
پروری،طبقاتی تقسیم،مہنگائی سمیت کئی خرابیوں کے باوجو دسب سے بڑا خطرہ ملک
کے '' کمانڈ اینڈ کنٹرول'' کے عدم اتفاق کو قرار دیا جا رہا ہے۔دانشور اور
ملک کا سنجیدہ طبقہ اس بات کی نشاندہی کرتا چلا آ رہا ہے کہ پاکستان کی بقا
ء ،استحکام اور ترقی کے لئے آئین کی بالادستی اور تقدیس کو یقینی بنانے کے
علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ملک میں مارشل لاء اور اس کی ذیلی و طفیلی
حکومتوں کے آنے جانے کے باوجود پارلیمنٹ اپنی بالادستی میں غیر موثر نظرآتی
ہے۔سول حکومتیں فوجی اسٹیبلشمنٹ کا پورا پورا خیال رکھنے کے باوجود ملکی
پالیسیوں اور اختیارات میں پابند ومجبور چلی آ رہی ہیں۔
مشورہ اور نصیحت تو تواتر سے فراہم کیا جا رہا ہے لیکن اقتدار پر مستقل
براجمان یہ سننے اور تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ پارلیمنٹ کی بالا دستی ہی
ملک کو چلانے کا واحد مفید راستہ ہے۔لیکن کوئی اس بارے میں ''سٹینڈ'' لیتا
نظر نہیں آتا کہ ملک میں پارلیمنٹ کی حقیقی بلادستی کو یقینی بنایا
جائے۔یوں نصیحت کرنے والے،خیر کا راستہ دکھانے والے تو بہت سے ہیں لیکن اس
سمت پیش رفت کے لئے رہنمائی کہیں نظر نہیں آتی۔ملک و عوام کی وسیع تر خیر
خواہی کے مشورے دینے والے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمودات
کے حوالے بھی دیتے ہیں لیکن کیا کیا جائے کہ ہمارے ملک میں فیصلے طاقت کی
بنیاد پر کئے جانے کا رواج مضبوط سے مضبوط تر ہو چکا ہے۔
ہندوستان کے ساتھ کشیدگی میں اضافے کی مسلسل صورتحال ،افغانستان کے ساتھ
خراب تعلقات، کشیدگی،ایران کے ساتھ تشویشناک سرحدی امورسے پاکستان کی سرحدی
دفاعی ذمہ داریوں میں بہت اضافہ ہو چکا ہے۔ملک میں انتشار ،بے یقینی،مایوسی
میں اضافہ ہوتا جا رہاہے۔ملک اور عوام کے ساتھ '' والی بال'' اور فٹ بال''
کا طرز برتائو تبدیل کرنا اب ناگزیر ہونے کے آخری مرحلے میں داخل ہو چکا
ہے۔جب تک فوج مکمل طور پر حکومت،پارلیمنٹ کے فیصلوں کے تابع نہیں ہوتی،اس
وقت تک ملک میں بہتری کا خواب دیکھنا بھی ممکن نظر نہیں آتا۔شاید ہمارے
ارباب اختیار کی طرف سے اس حقیقت کو فراموش کیا گیا ہے کہ ایک میان میں
دوتلواریںنہیں رہ سکتیں۔جو دپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے ملک کو تیار
بتاتے ہیں،ان کی فہم و فراست یا پھر نیت پر شک ہونے لگتا ہے۔اس ملک کی قدر
کریں جسے قدرت نے ہر قسم کے وسائل سے نوازا ہوا ہے اور قدر کرنے کی بڑی اور
نمایاں ذمہ داری انہی پہ ہے جو پاکستان کے اقتدار و اختیار اور وسائل سے
مستفید ہو رہے ہیں۔ |