اپریل کی اٹھائیس تاریخ کو وزیراعظم ہاؤس سے ایک ایسی
دستاویزکو جاری کیا گیاجس میں ڈان لیکس کے حوالے سے بنائی گئی انکوائری
کمیٹی کی سفارشارت منظورکرتے ہوئے خارجہ امور کے معاون خصوصی طارق فاطمی
اور اطلاعات ونشریات کے پرنسپل سیکرٹری راؤ تحسین کے خلاف 1973کے آئین کے
ایفی شنسی اینڈ ڈسپلن رولزکے تحت کارروائی کرتے ہوئے ان سے عہدہ چھوڑنے کا
کہا گیاڈان لیکس اسکینڈل میں حکومت کی جانب سے جن نئے بکروں کی قربانی کا
کہا گیا ہم نے دیکھاکہ وہ نئے بکرے کسی بھی حال میں قربان ہونے کو تیار
نہیں تھے مگر ریاستی طاقت نے انہیں جبراً قربان کرہی ڈالاہے ،جبکہ حکومت کی
یہ خواہش تھی کہ یہ معاملہ اس طرح حل ہوجائے کہ کوئی کرپٹ یا سیاسی
عہدیدارکو پکڑا جائے جو بغیر شور مچائے حکومت کی آن پر قربان ہوجائے ،تاکہ
آرمی والوں کو یہ تسلی کرادی جائے کہ کچھ نہ کچھ کارروائی کردی گئی ہے یعنی
نیوز اسکینڈل کے اس کیس میں چیزوں کواِدھر ادھر کرکے اہم معاملے کو فراموش
کیا جارہاہے ۔،مگر ہم نے دیکھا کہ فوج کی جانب سے حکومتی فیصلے کوسختی سے
رد کردیاگیا،قائرین کرام ڈان خبر کا معاملہ انتہائی سنگین رہاہے جس میں فوج
کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی اب پھنسنے پر ہماری حکومت مک مکاؤ کے زریعے
اپنے گلے سے یہ پھندانکالنا چاہتی ہے میں سمجھتا ہوں کہ اگر ڈان اسکینڈل کا
مسئلہ حکومتی منشا کے مطابق حل ہوگیاتو حکومت میں یہ جزبہ بھی بیدار ہوجائے
گاکہ ہم پانامہ لیکس کا معاملہ بھی وہ اِدھرادھر کرکے اپنے حق میں کرلینگے
اور اس طرح ان دونوں کیسوں سے وہ اپنی جان بچا لینگے ۔اس وقت پانامہ لیکس
کے حوالے سے جے آئی ٹی بنانے کا معاملہ بھی طے پاگیاہے لیکن اس وقت عوامی
توجہ ایک بار پھر سے ڈان لیکس کے معاملے میں زیادہ ہے لہذا حکومت وہ ہر
سیاسی و انتظامی حربہ استعمال کرکے ملک کی سیاسی ماحول کو اپنے اپنے قابو
میں کرنا چاہتی ہے ،تاکہ عمران خان کی عوامی تحریک کا زور ٹوٹ سکے اس وقت
قوم دیکھ رہی ہے کہ فیڈرل حکومت ہر قیمت پر اپنا اقتدار بچانا چاہتی ہے
کراچی میں ریلی اور ایک جلسے میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب
سے وزیراعظم کو کرپشن کا گارڈ فادر کہہ کر پکارا گیا جسے میڈیا میں بڑے
پیمانے پر نشر بھی کیا گیا مگر ہم نے دیکھا کہ وزیراعظم کے ماتھے پر اس نئے
لقب پر بھی کوئی شکن نہ ابھری میں سمجھتا ہوں کہ پانامہ لیکس کا فیصلہ آنے
پر جس طرح تمام ججوں کی جانب سے وزیراعظم کے لیے تحفظات پائے گئے اور اس کے
باجود ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس میں مٹھائیاں تقسیم کی گئی ایسے میں تو
یہ ہی کہا جاسکتاہے کہ عمران خان کی جانب سے انہیں کرپشن کا گارڈ فادر سن
کر اچھا ہی لگا ہوگاکیونکہ وزیراعظم کی اس قدر سرزنش کے باجود ان کا خوش
ہونا بھی وجہ حیرت ہے تو پھر اس نئے لقب سے بھی انہیں خوش ہی ہونا
چاہیے،ورنہ بات اگر عزت بے عزتی کی ہوتی تو وہ کب کے مستعفی ہوجاتے جس طرح
گزشتہ روزمالٹا کے وزیراعظم کو جب یہ پتہ چلا کہ اس کی بیوی نے قوم کے پیسے
پر ہھیرا پھیری کی ہے تو اس نے اسی وقت اپنے عہدے سے استعفیٰ دے ڈالا اور
نئے انتخابات کی کال بھی دے ڈالی یہ قائرین کرام یہ ہوتی ہے ملک کی شان اور
ایماندار لیڈر کی پہچان کہ وہ کسی بھی حال میں اپنے دامن کو داغدار نہیں
ہونے دیتا،اب ہمارے ملک کا یہ حال ہے کہ اس وقت وزیراعظم کی طرح ان کے چند
ایک متحرک وزرا جو صرف بیان بازیوں میں ہی اپنی کارکردگی دکھاسکیں ہیں ان
لوگوں کی بھی خواہش ہے کہ وزیراعظم کا اقتدار ایک سال اور بچا رہے کیونکہ
وہ جان چکے ہیں کہ اگلی باری تو کیا انہیں شاید ملکی سیاست میں دوبارہ
انٹری اورلوٹ مار کا موقعہ ہی نہ مل سکے لہذا خوب کماؤبینک بیلنس بڑھاؤ کی
خاطر حکومتی وزرا اس وقت بلکل بھی یہ نہیں چاہتے کہ عمران خان کی جدوجہد
کامیاب ہو کیونکہ وہ ہر قیمت پر اپنا کاروبار بچانا چاہتے ہیں۔لیکن ملک کے
حالات اب یہ ہیں کہ ہمارے وزیراعظم سے فوج بھی ناراض ،اپوزیشن بھی ناراض ،عوام
بھی ناراض یہاں تک ان کی حکومت بہت سے اہم بندے بھی وزیراعظم پر خاصے برھم
دکھائی دیتے ہیں اور لوگ دھڑا دھڑ نواز لیگ سے الگ ہورہے ہیں مشیر خارجہ
طارق فاطمی صاحب اپنے زبردستی قربان کیئے گئے فیصلے پر جب اپنا بوریا بستر
اٹھا رہے تھے اس وقت ان کے چہرے کے تاثرات اور منہ سے نکالے گے کلمات
وزیراعظم اور ان کی حکومت کے لیے ٹھیک نہ تھے وہ اپنی برسوں کی خدمات
کارونا روتے ہوئے اپنے آفس سے رخصت ہوئے ،میں سمجھتا ہوں کہ ڈان لیکس کا
معاملہ اس قدر آسانی سے حکمرانوں کی جان نہیں چھوڑے گا،فوج کی جانب سے جس
طرح حکومت کی رپورٹ کو مسترد کیا گیا ہے وہ سب کے سامنے ہے اب اس پر چودھری
نثار صاحب دودھ پیتے بچے بن جائیں اور یوں کہیں کہ انہیں تو کسی بات کا علم
ہی نہیں ہے اور میڈیا کو وضاحت دینے کی بجائے نئے پاسپورٹ آفسسز بنانے کی
خوشخبریاں دیتے رہے تو اس پر ہنسا ہی جاسکتاہے بھولے وزیرداخلہ یہ نہیں
سمجھتے کہ پاسپورٹ بنانے کی خوشخبری ان کے وزرا کے لیے تو ہوسکتی ہے مگران
لوگوں کے لیے پاسپورٹ کی کیا ضرورت جو لالو کھیت سے صدر جانے کے لیے اپنی
جیب میں کرایہ نہیں رکھتے وہ کیا خواب میں بین الاقوامی دورے کرینگے،قائرین
کرام ملک کا سربراہ ملک کا محافظ یعنی رکھوالا ہوتا ہے مگر جب گھر کا مالک
اپنے ہی گھرکو لوٹنے لگے تو اس کے لیے کرپشن کا گارڈ فادر کا لقب بھی کم
پڑجاتاہے آج کل وزیراعظم کی صاحبزادی کی جانب سے پانامہ پیپر کو ردی کہنا
شروع کردیاہے میرا خیال ہے انہیں پانامہ پیپر کو ردی کہنے کی بجائے ردی کی
ٹوکری کہنا زیادہ زیب دیتاکیونکہ یہ قوم اب جاگ چکی ہے سپریم کورٹ کی جانب
سے جو جے آئی ٹی تشکیل دی جارہی ہے اس نے اگر ایمانداری سے کام لیا تو یہ
ردی کی ٹوکری بہت کام آئیگی اس کا فیصلہ بھی جلد ہی ہوجائے گاکہ اس ردی کی
ٹوکری میں جائیگا کون ۔آپ کی فیڈ بیک کا انتظار رہے گا۔ |