کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں بہت ٹیلینٹ موجود ہے یا یہ کہ
پاکستان میں ٹیلینٹ کی کمی نہیں ہے۔ مجھے حقیقت میں اس بات کا اندازہ تب
ہوا کہ واقعی ہمارے ملک میں ٹیلینٹ کی کوئ کمی نہ کبھی تھی اور نہ ہے، جب
میں نے اپنے ملک کے بیسویں اور اکیسویں صدی کے سائنسدانوں پر آرٹیکل لکھنے
کے لئے قلم اٹھایا اور ہمارے سائنسدانوں کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ
شروع ہوگیا۔ میں نے کوشش کی ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ پاکستان کے
سائنسدانوں اور ان کی خدمات کو مختصر الفاظ میں ایک جگہ سمیٹ کر آپ کے
سامنے پیش کروں۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان
ڈاکٹر عبدالقدیر خان 27 اپریل 1936 کو بھوپال میں ایک پشتو خاندان میں پیدا
ہوۓ۔ 1952 میں ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آیا اور کراچی مقیم ہو گیا۔
1956 میں قدیر خان نے فزکس کی تعلیم کے لۓ کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔
وہاں سے انھوں نے 1960 میں سولڈ اسٹیٹ فزکس میں ڈگری حاصل کی۔ 1965 میں
ڈیلفٹ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی نیدرلینڈ سے ٹیکنالوجی میں ڈگری حاصل کی۔
1972 میں کیتھولک یونیورسٹی آف لیووین سے میٹالرجکل انجنئیرنگ میں ڈاکٹریٹ
کی ڈگری حاصل کی اور ایمسڑدیم میں فزکس ڈائنامکس ریسرچ لیبارٹری میں شمولیت
اختیار کر لی۔ کچھ عرصہ بعد وہ نیدر لینڈ میں یورینکو گروپ جو ایک یورینیم
اینرچمنٹ پلانٹ چلا رہا تھا، کے لئے کام کرنے لگے۔ 1974 میں قدیر خان
یورینکو چھوڑ کر پاکستان آ گئے۔ 1975 میں قدیر خان نے پاکستان اٹامک بم
پروگرام میں شمولیت اختیار کی اور پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (پی اے ای سی)
کے ممبر بن گئے۔ 1976 میں قدیر خان نے بریگیڈئیر زاہد علی اکبر کے ساتھ مل
کر انجینیئر ریسرچ لیبارٹری (ای آر ایل) میں کام کیا اور اس پراجیکٹ کی
ریسرچ کے لئے کہوٹہ کی سرزمین کا انتخاب کیا گیا۔ اسی اثناء میں جی ڈی عالم
تھیورسٹ بھی ای آر ایل میں قدیر خان کے ساتھ شامل ہوگئے۔ 4 جولائ 1978 کو
جی ڈی عالم اور قدیر خان کو اپنے ایک تجربے میں کامیابی حاصل ہوئ۔ 1983 میں
قدیر خان کو ای آر ایل کا ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔ 28 مئ 1998 کو چاغی۔1 کے
نام سے قدیر خان اور دوسرے سائنسدانوں نے مل کر پاکستان کا پہلا ایٹمی
دھماکہ کیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ملنے والے اعزازات، 1989 ہلالِ امتیاز، 1996 نشانِ
امتیاز، 1999 نشانِ امتیاز۔ اس کے علاوہ پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں سے
60 گولڈ میڈل بھی حاصل کئے۔
ڈاکٹر محمد عبدالسلام
29 جنوری 1926 کو جھنگ میں پیدا ہوۓ اور 21 نومبر 1996 کو وفات پائ۔
عبدالسلام بیسویں صدی کے نامور سیاست دان اور تھیوریٹکل عالم طبیعات تھے۔
وہ پاکستان کے پہلے سائنسدان تھے جنھوں نے 1999 میں نوبل پرائز حاصل کیا۔
عبدالسلام 1960 سے لے کر 1974 تک حکومت پاکستان کے سائنس ایڈوائزر رہے۔
پاکستان اٹامک بم کی ترقی میں انھوں نے نہایت اہم کردار ادا کیا۔ لہٰذا
1972 میں انھیں اس پروگرام کا سائنٹیفک فادر کہا گیا۔ دنیا کی فزکس کمیونٹی
میں پاکستانی فزکس کا نام پیدا کرنے والے، یہاں تک کہ وفات سے کچھ عرصہ
پہلے تک بھی اسی کے لئے کام کیا اور تھرڈ ورلڈ کے ممالک میں سائنس کی ترقی
کے کئے کوشاں رہے۔ عبدالسلام پاکستان کے اسپیس پروگرام کے بانی تھے۔ اشفاق
احمد سابقہ چیئر مین پی اے ای سی نے عبدالسلام کے بارے میں کہا، " ڈاکٹر
عبدالسلام کی وجہ سے پاکستان سے 500 عالم طبیعات، ریاضی دان اور سائنسدانوں
کو یو کے اور یو ایس اے کے بہتریں اداروں میں پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کرنے
کے لئے گۓ"۔ عبدالسلام نے نوبل پرائز کے علاوہ بے شمار ملکی اور غیر ملکی
ایوارڈز اور گولڈ میڈل جیتے جن میں سے چند یہ ہیں،فزکس میں نوبل پرائز
1979، ستارہ پاکستان 1959، رائل میڈل 1978، نشانِ امتیاز 1979، اسمتھز
پرائز 1950، آدمز پرائز 1958، ایف آر ایس 1959
عبدالسلام کی وفات کے بعد چند ایوارڈز ان کے نام سے منسوب ہیں جیسے
عبدالسلام ایوارڈ جو فزیکل اور نیچرل سائینسز میں اچھی اور نمایاں کارکردگی
پر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح عبدالسلام میڈل اور عبدالسلام شیلڈ آف آنر بھی
انھی کے نام پر ہیں۔ ان کی وفات کے بعد نہ صرف ملکی بلکہ کئ غیر ملکی
اداروں نے بھی ان کے نام پر اپنے اداروں کا نام رکھا مثلاً عبدالسلام
انٹرنیشنل سینٹر فار تھیوریٹکل فزکس، اٹلی اور عبدالسلام اسکول آف
میتھمیٹکل سائنسز، لاہور۔
غلام مرتضیٰ
3 جنوری 1939 کو امرتسر میں پیدا ہوۓ۔ غلام مرتضیٰ پلازما عالم طبیعات اور
ریاضی دان ہیں۔ غلام مرتضیٰ نظری، یعنی تھیوریٹیکل اور پلازما فزکس کے
پروفیسر اور عبدالسلام چیئر ان فزکس ریسرچ انسٹیٹیوٹ، گورمنٹ کالج
یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ہیں۔ 1960 میں آپ پی اے ای سی پاکستان اٹامک انرجی
کمیشن میں شامل ہوۓ جہاں پہلے پرنسپل سائنس آفیسر اور پھر ترقی ہو کر
سائنٹفک آفیسر بن گۓ۔ آپ ڈاکٹر عبدالسلام کے نمایاں شاگردوں میں سے تھے۔ آپ
کے اعزازات ، ستارہ امتیاز 1986، گولڈ میڈل پاکستان اکیڈمی آف سائنسز 1991
آج کل غلام مرتضیٰ سپارکو، سپیس اینڈ اپر ایٹماسفیئر ریسرچ کمیشن میں کام
کر رہے ہیں اور وہاں ایسٹرو نومی اور ایسٹرو فزکس لیبارٹری کے انچارج ہیں۔
منیر احمد
1934 میں لاہور میں پیدا ہوۓ۔ منیر احمد پاکستان کے مشہور ریاضی دان اور
عالم طبیعات ہیں۔ آپ نے ڈاکٹر عبدالسلام کے ساتھ مل کر پی اے ای سی میں کام
کیا۔ منیر احمد نے اٹامک بم کی ڈیزائنگ کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔
اسکیٹرنگ تھیوری، پی اے ای سی میں نیوکلیئر فزکس میں انھوں نے بیش قیمت
دریافتیں کی ہیں۔ ان خدمات کی بناء پر انھیں 2010 میں پی اے ایس گولڈ میڈل
دیا گیا۔
فیاض الدین
10 نومبر 1930 کو لدھیانہ میں پیدا ہوۓ۔ آپ تھیوریٹیکل عالم طبیعات اور
ریاض الدین تھیوریٹکل عالم طبیعات کے بھائ اور انصار فیاض الدین تھیوریٹکل
عالم طبیعات کے والد ہیں۔ 1962 میں ڈاکٹر عبدالسلام کی زیر نگرانی آپ نے
تھیورٹکل پارٹکل فزکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور اسی سال عبدالسلام
کے ساتھ پی اے ای سی میں کام کرنے لگے۔ 2005 میں قائداعظم یونیورسٹی سے
منسلک ہوۓ۔ 2008 میں سینئر سائنسدان کے طور پر نیشنل سینٹر فار فزکس میں
شمولیت اختیار کی۔ فیاض الدین کو دئے گۓ اعزازات، فزکس کی ریسرچ اور سائنس
میں ان کی کارکردگی پر2000 میں انھیں ہلال امتیاز دیا گیا۔ خوارزمی انٹر
نیشنل ایوارڈ 2003، پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کی طرف سے ریاض الدین کے ساتھ
مشترکہ گولڈ میڈل 1979، بھاوانی داس گولڈ میڈل گورمنٹ کالج یونیورسٹی 1951
ریاض الدین
10 نومبر 1930 کو لدھیانہ میں پیدا ہوۓ اور 9 ستمبر 2013 کو وفات پا گۓ۔
ریاض الدین تھیوریٹکل عالم طبیعات تھے جنھوں نے نیوکلیئر اور ہائ انرجی
فزکس میں اسپیشلائز کیا تھا۔ نیوکلیئر ہتھیاروں کی ترقی میں جن سائنسدانوں
نے اہم کردار ادا کیا ان میں ریاض الدین سرفہرست ہیں۔ 1974 سے 1984 تک آپ
پی اے ای سی کے تھیوریٹکل فزکس گروپ کے ڈائرکٹر رہے۔ ریاض الدین کی وفات کے
بعد ان کےنام سے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں ریاض الدین نیشنل سینٹر
بنایا گیا۔ ریاض الدین نے بے شمار ایوارڈز حاصل کئے۔ ان میں سے چند یہ ہیں،
ایچ ای سی لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ 2009،البرٹ آئن اسٹائن ورلڈ ایوارڈ آف
سائنس 2000، خوارزمی انٹرنیشنل ایوارڈ 2000، ستارہ امتیاز 1999، ہلالِ
امتیاز 1999، تمغہ امتیاز 1990، ہلال امتیاز 1980 |