جنگلات کا تحفظ کون کرے گا ؟

پاکستان میں جنگلات کا کل رقبہ پاکستان کے کل رقبے کا تقریبا چار اعشاریہ آٹھ فیصد ہے ۔ہزارہ اور مالاکنڈ ڈویژن سمیت خیبر پختونخواہ میں 1.3ملین ہیکٹر رقبے پر جنگلات ہیں ۔لیکن انتظامی بد حالی اور کرپشن کے باعث اربوں مالیت کے درخت کاٹے جا چکے ہیں ۔ٹمبر مافیا اور انتظامیہ کی ملی بھگت سے یہ کام برسوں سے جاری ہے ۔جنگلات کی بے دریغ کٹائی سے ہونے والے نقصانات میں ماحولیاتی آلودگی ،زمینی کٹاؤ،بارشوں میں کمی ،سیلاب ،گلوبل وارمنگ میں اضافہ اور لینڈ سلائیڈنگ کی صورت میں ہر کوئی محسوس کر سکتا ہے۔جانوروں کی کئی اقسام کو جنگل کی بقااور زندگی کے لیے اشد ضرورت ہوتی ہے۔ان ساری باتوں کا ادراک ریاست کو بخوبی ہوتا ہے۔مگر اس کے باوجود محکمہ جنگلات کی کارکردگی روزروشن کی طرح سب پہ عیاں ہے کہ محکمے میں موجود کالی بھیڑیں کس طرح ٹمبر مافیا سے مل کر راتوں رات جنگلات کا صفایا کرنے پہ تلی ہوئی ہیں۔صوبائی حکومت کا سونامی بلین ٹری منصوبہ کو ملکی و بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی مگر اس کے باوجود درختوں کے بچاؤ اور ٹمبر مافیا کے کنٹرول کے لیے صوبائی اسمبلی میں کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی ۔حالانکہ تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے کئی بار اس امر کا اعادہ کیا ہے کہ جنگلات کے تحفظ کے لیے وہ قانون سازی کریں گے مگر ان کی حکومت اپنے آخری فیز میں داخل ہو چکی ہے جنگلات کے تحفظ کے لیے کوئی قانون سازی نہیں ہو پائی۔سابقہ کالم میں ہزارہ بھر کے جنگلات کے ساتھ ساتھ ضلع بٹگرام میں کٹنے والے جنگلات کی نشاندہی کی گئی تھی جس پر محکمہ جنگلات کی طرف سے ان علاقوں میں چھاپے مارے گئے اور لاکھوں روپے کے جرمانے عائد کئے گئے ۔محکمہ جنگلات کے سیکرٹری نے بذریعہ فون ان علاقوں کی نشاندہی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ جو علاقے برف کی وجہ سے چیکنگ سے رہ گئے ہیں ان پر بھی جلد کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔سیکرٹری صاحب کی محبتوں کا ممنون ہوں مگر کیا ان کے محکمے اس بات سے لاعلم رہتے ہیں کہ کہاں کہاں سے جنگلات کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔اور جہاں یہ چوری ہوتی ہے وہاں آپ نے اپنے اہلکاروں کو کوئی سزا دی ہے۔محکمے کی طرف سے دکھ و افسوس کے ساتھ ساتھ مجھے اسی کالم کے ذریعہ جنگلات کے تحفظ کے لیے بنائی گئی تنظیم (سرحد عوامی فارسٹری اتحاد )سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ۔جس کے صدر ریاض محمد خان اور جنرل سیکرٹری جمشید علی خان ہیں ۔1997میں قائم ہونے والی اس تنظیم کا مقصد محکمہ جنگلات کی پیش کردہ اصلاحات کی عوامی نقطہ نظر سے تشریح و جانچ پڑتال کرنا ،ماحولیات کے تحفظ اور پائیدار شجر کاری اور شجر پروری کو یقینی بنانا،جنگلات کے حوالے سے عوامی شعور بیدار کرنا ،جنگلات سے وابستہ مقامی لوگوں کے حقوق اور ضروریات کا تحفظ کرنا اور اس تنظیم سے متفق افراد کو مقامی ،علاقائی ،صوبائی اور ملکی سطح پر منظم کرنا ہے۔اس تنظیم کے توسط سے معلوم ہوا کہ خیبر پختونخواہ کی نئی فارسٹ پالیسی اور فارسٹ آرڈیننس کے درمیان باہمی ہم آہنگی نہیں ہے۔فارسٹ آرڈیننس 2002کے حوالے سے ان کا مطالبہ ہے کہ ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دی جائے جو عوامی خدشات اور تحفظات کو دور کرے ۔جنگلات کے انتظام میں سیاسی مداخلت عروج پہ ہے جس کی وجہ سے جنگلات کی بے دریغ کٹائی کا سلسلہ جاری ہے جب تک یہ مداخلت بند نہیں ہوتی اس وقت تک جنگلات کا تحفظ ممکن نہیں ۔اس سے قبل بھی تحریر کر چکا ہوں کہ ہزارہ بھر کے نامی گرامی سیاستدانوں کی جانچ پڑتال کی جائے تو ان کی آمدنی کا اصل ذریعہ جنگلات اور ٹمبر مافیا کی سرپرستی ہی ہے۔جو اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو بذور طاقت خاموش کرا دیتے ہیں۔ٹمبر مافیا کے خلاف آواز اٹھا نے والے ٹمبر مافیا کے بھیڑیوں سے قتل بھی ہو چکے ہیں ۔ہزارہ بھر میں ٹمبر مافیا کے حوالے سے ایک ڈر اور خوف کی فضا پھیلی ہوئی ہے جسے دور کرنے کے لیے حکومتی سطح پر کوئی اقدامات نہیں کیے جا رہے اور ٹمبر مافیا دن بدن مضبوط ہوتی جارہی ہے ۔اسی ڈر اور خوف کا نتیجہ ہے کہ محکمہ جنگلات کا عملہ بھی ٹمبر مافیا کے سامنے بھیگی بلی بن جاتا ہے محکمہ جنگلات کا عملہ اور اعلیٰ افسران کا تبادلہ بھی ٹمبر مافیا کے ذریعہ ہی ہوتا ہے۔مارگلہ کے جنگلات کی کٹائی پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا ہے اور وفاق سمیت خیبر پختونخواہ اور پنجاب حکومتوں کو تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ تینوں حکومتیں ٹمبر مافیا کے سامنے یرغمال بنی ہوئی ہیں ایسا لگتا ہے کہ یہ اس مافیا سے الیکشن جیتنے کے لیے رقم لیتی ہیں۔ٹمبر مافیا کا کردار سپریم کورٹ کے ججز نے بھی محسوس کر لیا ہے مگر اس کے باوجود اس مافیا کے خلاف حکومتی سطح پر کوئی کاروائی نہیں کی جا رہی جو یقینا لمحہ فکریہ ہے۔محفوظ جنگلات میں حکومت اور مراعات یافتگان کے درمیان جنگلات کی ملکیت کے تنازعے کو حل کرنے کے لیے بھی آج تک کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔جو اس بات کا تعین کر سکے کہ محفوظ جنگلات کے اصل مالکان کون ہیں اور یہاں مقامی آبادی کی فارسٹ رائیلٹی کا صحیح اور جائز حصہ کیا بنتا ہے۔محکمہ جنگلات خاص کر ڈی ایف اواور جوائنٹ فارسٹ منجمنٹ کمیٹیوں کے درمیان اختیارات کا توازن نہیں ہے۔محکمہ کی ذمہ داریوں میں انتظامی منصوبوں کی تیاری ،مقاصد اور معیارات کے تعین ،جنگلات کی مارکنگ اور نگرانی کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ مارکنگ سے زیادہ درخت نہ کاٹے جائیں اور وہاں دوبارہ جنگل لگایا جائے ،جنگلات کی ترقی کے لیے تحقیق کرنا ،لوگوں کو جنگلات بافی کی تربیت دینا ،مشاورتی خدمات فراہم کرنا شامل ہوتا ہے کیا ان میں سے کوئی بھی ذمہ داری محکمہ جنگلات پوری کرتا ہوا نظر آتا ہے۔روایتی طور پر حکومت جنگلات کو سرکاری آمدن کے حصول اور اس میں اضافے کا ایک ذریعہ سمجھتی ہے اس حوالے سے سالانہ ریونیواہداف بھی مقرر کیے جاتے ہیں گزشتہ کئی دہائیوں سے جنگلات کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر ضرورت اس امر کی ہے کہ جنگلات کے دیگر فوائد (ماحولیاتی ،سماجی )کو سامنے رکھ کر ریونیو کے اہداف کو 80فیصد کم کیا جائے کہ جنگلات کی کٹائی کم ہو سکے اور ان کا موثر تحفظ بھی ہو سکے۔جنگلاتی علاقوں کو سوئی گیس فراہم کی جائے اور ترجیحی بنیادوں پر مائع گیس رعایتی قیمت پر فراہم کی جائے ،پہاڑی علاقوں میں جہاں مناسب سہولت موجود ہو وہاں مقامی سطح پر پن بجلی کی پیداوار کے لیے جنریٹر لگائے جائیں ،پہاڑی علاقوں میں زمینی کٹاؤ کو روکنے کے لیے چیک ڈیمز تعمیر کیے جائیں ،سونامی بلین ٹری پراجیکٹ کو میسر انتظامات کے علاوہ فارسٹ گارڈ سے لیکر ڈی ایف اوتک پلانٹیشن کے متعلق رکھوالی کو یقینی بنایا جائے اوراس سے ماہانہ رپورٹ بھی طلب کی جائے ۔جنگلاتی پیداوار کی قدر بڑھانے اور ان کی منڈی تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں ،ایندھن کی مناسب دستیابی کے لیے جلد نشونما پانے والے پودہ جات کی شجر کاری کی جائے ،اچھی کارکردگی دکھانے والے محکمہ جنگلات کے ملازمین کو انعام دئیے جائیں اور ٹمبر مافیا کے سہولت کاروں کے خلاف سخت کاروائیاں کی جائیں ،لوکل کوٹہ میں آبادی کے تناسب سے اضافہ کیا جائے ،جنگلات کی افادیت اور ان کی تباہی سے ہونے والے مختلف قسم کے منفی اثرات سے عوام کے لیے آگاہی مہم شروع کی جائے اور اس حوالے سے مساجدمیں تقاریر کا بھی انتظام کیا جائے ،ونڈ فال کی مارکنگ اور نکاسی کی پالیسی کو آسان کیا جائے ،نوتوڑ کو روکنے کے لیے مقامی سطح پر انتطامات کیے جائیں ۔یہ چند اقدامات اگر حکومتی سطح پر کر دئیے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ جنگلات کے تحفظ کو یقینی نہ بنایا جا سکے ۔درخت ہمارے ملک کا سرمایہ ہیں بلین ٹری منصوبہ میں بھی محکمہ جنگلات کی چند کالی بھیڑوں نے بڑے پیمانے پر کرپشن کی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت اس کرپشن کو کنٹرول کرنے کے لیے کیا اقدامات کرتی ہے۔

Akhlaq Ahmed Khan
About the Author: Akhlaq Ahmed Khan Read More Articles by Akhlaq Ahmed Khan: 7 Articles with 7513 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.