پاکستان کے اعلیٰ سیاسی اورفوجی وفود کی کابل میں
افغان قیادت سے ملاقاتوں کے بعد دونوں ہمسایوں کے تعلقات پر چھائے عدم
اعتماد کے بادلوں کے چھٹنے کی امید پیدا ہوگئی ہے۔ دونوں ممالک نے رابطوں
میں تیزی لانے اور دہشت گردی کے خاتمے میں مل کرکردار ادا کرنے کے عزم کا
اظہار کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور افغانستان گزشتہ دو
دہائیوں سے دہشت گردی اور عالمی سازشوں کا تختہ مشق بنے ہوئے ہیں۔جس کی وجہ
سے دونوں ممالک کی حکومتیں اور عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ پاکستان نے
مسلسل اقدامات اور بیش بہا قربانیوں کے بعد دہشت گردی کے عفریت پرکافی حدتک
قابوپالیا ہے تاہم افغانستان میں یہ آگ سینکڑوں افراد کو ہرروز نگل رہی ہے
۔ افغان فورسز دہشت گردوں کی ان بڑھتی کارروائیوں پر قابو پانے میں کلی طور
پر ناکام دکھائی دے رہی ہیں۔ بہت سے علاقوں میں طالبان کا کنٹرول اور
اثرورسوخ بڑھ گیا ہے۔مزار شریف میں حالیہ کارروائی میں انہوں نے فوجی
ہیڈکوارٹرزکو نشانہ بناکر 150 افغان فوجیوں کو ہلاک کردیا۔ خون ریزی کے اس
بڑے واقعے کے بعد افغان فوج کے سربراہ قدم شاہ شہیم اور وزیرِ دفاع عبداﷲ
حبیبی کو مستعفی ہونا پڑا۔ طالبان کے علاوہ افغانستان میں داعش بھی اب ایک
قوت کی شکل اختیار کرچکی ہے اور اس کے جنگجو طالبان کے ساتھ ساتھ افغان اور
اتحادی فورسز سے بھی گتھم گتھا ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی بھی افغانستان
پر دن رات گولہ باردو پھینک رہے ہیں۔تاہم دہشت گردوں کے خلاف ان کی دال
گلتی نظر نہیں آرہی۔
اس پس منظرمیں افغانستان اس وقت بدامنی اور لاقانونیت کا ایسا گندہ تالاب
بن چکا ہے جس میں دہشت گردی کی ہر قسم اور نوع کی گندی مچھلی پائی جاتی ہے۔
یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ دہشت گردی کی اس بہتی گنگا میں بہت سی
پوشیدہ قوتیں بھی اپنے اپنے ہاتھ دھو رہی ہیں۔ خاص طور پر بھارت اس سرزمین
کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے۔ اس مقصد کے لیے اس نے افغان حکومت
اور خفیہ ایجنسیوں کو رام کر رکھا ہے اور پاک افغان تعلقات میں گہری خلیج
پیدا کرنے کے لیے انہیں مسلسل اکسا رہا ہے۔ بھارت کی ان سازشوں کی وجہ سے
پاک افغان تعلقات کشیدگی کا شکار ہوتے چلے گئے اور صدر اشرف غنی اپنے پیش
رو حامد کرزئی کے نقش قدم پر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے نظر آئے۔یہ
بھی دیکھا گیا کہ لائن آف کنٹرول اور پاک افغان سرحد پر ایک ہی وقت میں
فائرنگ کی جاتی جو اسلام آباد کے لیے واضح پیغام تھا کہ پاکستان کو نقصان
پہنچانے کے لیے افغانستان اور بھارت یکجان ہیں۔اس طرح پاک افغان روٹ پر
بھارتی لابی کے زیراثر پاکستان مخالف سرگرمیاں اور مظاہرے دونوں ممالک میں
دوریوں اور بداعتمادی میں اضافے کا باعث بنے۔ بھارتی گود میں بیٹھ کر افغان
قیادت یہ تک بھول گئی کہ پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے افغان عوام کی
میزبانی کرتا رہا ہے جن کی بہت بڑی تعداد آج بھی پاکستان میں موجود ہے اور
عام شہریوں جیسے حقوق سے لطف اندوز ہورہی ہے۔ اس کو یہ بھی احساس نہ رہا کہ
افغان مہاجرین کی آمد کے بعد پاکستان مسائل کی چکی میں پس رہا ہے۔ ہر شعبے
پرایک منفی اثر پڑا۔ وسائل اور معیشت کی بدحالی تو ایک طرف بدامنی ،
کلاشنکوف کلچر اور منشیات نے ہمارے معاشرے کو ایسا جکڑا کہ آج تک ہم اس سے
جان نہیں چھڑا سکے ہیں۔پاکستان پر حملوں میں ملوث دہشت گردوں کی افغانستان
محفوظ پناہ گاہ کا کردار ادا کررہا ہے ۔ پاکستان نے متعدد مرتبہ ان کے بارے
میں افغان قیادت کو آگاہ کیا مگر ان کی سردمہری پاکستان کے لیے تشویش کا
باعث ہے۔یہ طرز عمل دہشت گردی کے خلاف مجموعی کوششوں کے لئے زہرقاتل ثابت
ہوا۔ کابل کے ان روکھے رویوں کے باوجود پاکستان نے اسپیکر قومی اسمبلی کی
قیادت میں 18رکنی پارلیمانی وفد افغانستان بھیج کر اعلان کیا ہے کہ
افغانستان اس کا اہم ہمسایہ ہے اور وہ کابل کے ساتھ بہتر تعلقات کو انتہائی
اہمیت دیتا ہے۔ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل نوید مختارکا خصوصی
دورہ کابل اور افغان ہم منصب معصوم استانکزئی سے ملاقاتیں بھی باہمی سلامتی
اور انسداد دہشت گردی کے امور میں پاکستان کی مخلص کوششوں کی عکاس ہیں۔ اس
سے قبل چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل بلال اکبر کی قیادت میں ایک وفد
افغان وزیر دفاع طارق شاہ بہرامی اور افغان آرمی چیف جنرل محمد شریف یفتالی
سے ملاقات کرچکا ہے۔ان ملاقاتوں میں بھی دونوں ممالک کے فوجی حکام نے دہشت
گردی کے خاتمے کے لیے مل کر کام کرنے اوردہشت گردوں کو مشترکہ خطرہ قرار
دیتے ہوئے انھیں شکست دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ یقینا پاکستان کی سول
اور ملٹری قیادت کی جانب سے رابطوں کا یہ سلسلہ تعلقات میں بہتری کی خواہش
کا واضح اظہار ہے۔
افغان قیادت کی جانب سے بظاہر ردعمل مثبت ہے تاہم پھر بھی ان کے لب لہجے
میں شکایت اوربداعتمادی کا عنصر پایا جاتا ہے۔لگتا ہے کہ اب بھی ان کا ذہن
بھارتی پراپیگنڈے کے چنگل سے آزاد نہیں ہوا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ افغان
قیادت تیسری قوت کے اشاروں پر ناچنے کی بجائے پاکستان کی پرخلوص کوششوں کا
مثبت جواب دے۔اسے اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ پاکستان اس کا اہم ترین
ہمسایہ ہے،اس کے خلاف کسی تیسری قوت کے مفادات کی تکمیل خود اس کے وجود کے
لیے خطرناک ہوسکتی ہے۔پاکستان دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے انتہائی
سنجیدہ ہے ۔ اس ضمن میں اس کے ٹھوس اقدامات اور کارروائیاں اس کے اخلاص کا
واضح اظہار کررہی ہیں۔ پاک افغان بارڈر کو منظم کرنے کے حوالے سے بھی پر وہ
عزم ہے اور بہت جلد اسے بھی مکمل طور پر محفوظ بنا دیا جائے گا۔اس پس منظر
میں افغان قیادت معاندانہ رویہ اختیار کرنے کی بجائے باہمی تعاون کو فروغ
دے اور رابطوں کا جو سلسلہ بحال ہوا ہے اسے سازشوں اور غلط فہمیوں کے بھینٹ
چڑھنے نہ دے۔ جس وقت یہ سطور لکھی جارہی تھیں، افغان فورسز کی جانب سے چمن
میں پاکستان کے علاقوں پر فائرنگ کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ تفصیلات کے
مطابق سرحدی علاقوں میں مردم شماری پر مامور ٹیموں کو نشانہ بنایا گیاہے جس
کے نتیجے میں ایک شخص جاں بحق جبکہ متعدد زخمی ہوگئے۔افغان فورسز کی جانب
سے اس حالیہ سرحدی خلاف ورزی کے بعد ذہن میں خدشات جنم لینے لگے ہیں کہ
کہیں یہ حالیہ باہمی رابطوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش تو نہیں؟ اﷲ کرے یہ خام
خیالی ہی ہو، مگر خدشات درست ہوئے تو یہ پاک افغان تعلقات کے لئے کوئی نیک
شگون نہیں۔ |