واہ..وہ! کتنی سادگی سے کہہ گئے
وزیراعظم..؟کرپٹ وزرا کو نکال دوں تو کابینہ میں کِسے رکھوں ..؟
کیا حکومت جانے والی ہے....؟؟؟ یا یوں ہی دن مہینے سال گزرتے جائیں گے
وزیراعظم کی.....کہی اَن کہی.....
ایک طرف تو گزشتہ کئی ماہ سے ملک میں یہ افواہ بڑی گرم ہے کہ حکومت اپنی
ناقص پالیسیوں اور غیر مناسب حکمت ِ عملیوں کے باعث عوام میں اپنا اعتماد
بحال نہیں کرا سکی ہے جو بڑی حد تک حقیقت پر مبنی ہے اور مگر دوسری طرف
ہمارے حکمران اِسے افواہ قرار دے کر اپنی اپنی مستیوں میں مگن ہیں جبکہ یہی
وہ حقیقت ہے کہ جس کو ماننے اور تسلیم کرنے سے حکمران تو انکار کر رہے ہیں
مگر حکمرانوں کی اِسی غلطی کو عوام اور دانشوران ِاہل وطن سب سے بڑی کمزوری
سمجھ رہے ہیں اور وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ عوام کسی بھی حال میں
ملک کے موجودہ حکمرانوں کو اِن کی حکومت کی مدت پوری کرنے کی مہلت نہیں دیں
گے اور اِس پر سونے پہ سہاگہ یہ کہ ملک میں حالیہ بارشوں کے نتیجے میں آنے
والے سیلاب نے تو ملک میں پہلے سے موجود مہنگائی کے سیلاب سے پریشان حال
عوام کا پوری طرح کچومر نکال کر اِس کا ستیاناس کر کے رکھ دیا ہے اور اِس
حال میں حکومتی سطح پر کوئی عوامی دُکھ اور درد کا مداوا کرنے والا نہیں
رہا ہے کیونکہ ہمارے حکمرانوں کو تو اپنی کُرسی بچانے کی پڑی ہے تو اُدھر
ہی اپوزیشن کو اپنی سیاست چمکانے اور سیاسی گھوڑے دوڑانے کی لگی ہے اور
اِدھر عوام ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں اور منہ توڑ سینہ زور بے لگام
مہنگائی کے ہاتھوں پریشانی اور مفلسی کے عالم میں مری جارہی ہے۔
اِس ساری صورتِ حال کے بعد جو منظر سامنے آیا ہے وہ ایک افواہ ہی کی شکل
میں صحیح مگر سچ تو یہی ہے کہ موجودہ حکومت اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں بری
طرح سے ناکام ہوگئی ہے جس کی وجہ سے اَب اِس کے چل چلو کے دن قریب آتے
جارہے ہیں۔ اور ملک کے سترہ کروڑ عوام اِس انتظار میں ہیں کہ کب اِس کے
کانوں میں تبدیلی کی صدائیں آئیں گی اور پھر کوئی نیا حاکم اِس پر مسلط
ہوگا جو اِس کے دکھ اور درد کا مداوا کرے گا۔عوام ہے کہ بیچاری اِسی انتظار
میں سُوکھی جارہی ہے کہ کب اِس کو ایسے حکمرانوں سے چھٹکارہ نصیب ہوگا جو
عوام کو خالی وعدوں اور اپنے جھوٹے دعوؤںپر ٹرخا رہے ہیں اور خدا جانے کب
تک یوں ہی ٹرخاتے رہیں گے.....؟؟؟آج عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اَب
ایسی جمہوری حکومت کا کیا فائدہ جس میں جمہوریت کو تو پوجا جائے اور عوام
کو مہنگائی کے سیلاب کے آگے ڈال کر اِسے زندہ درگور کردیا جائے جیسا کہ
ہمارے موجودہ حکمران اِن دنوں کررہے ہیں۔اِن سے اچھا تو کوئی آمر ہی اِن پر
مسلط رہتا تو اچھا تھا وہ کم ازکم اِنہیں مہنگائی کے رحم وکرم پر تو نہ
چھوڑتا.....جیسا کہ موجودہ جمہوری حکمرانوں نے عوام کو مہنگائی کے سامنے
ڈال کر اِنہیں خودکشیاں کرنے پر مجبور کر رکھا ہے۔
اِس ساری صُورتِ حال میں مجھے کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے
ایوانِ صدر اور وزیر اعظم ہاؤس سے لے کر اپوزیشن جماعتوں کے سازشی دفاتر
سمیت کسی غریب کے چھوٹے سے چائے کے ہوٹل تک بیٹھے جتنے بھی لوگ ہیں سب کے
سب مفروضات کے غلام ہیں اور جن کی ذمہ داریاں بس ملکی سیاست اور حالات
واقعات کے تناظر میں صرف زبردستی اپنا اپنا سیاسی قد اونچا کرنے کے اور کچھ
نہیں رہ گئی ہیں جس کے لئے یہ سب محض مفروضوں اور طرح طرح کی قیاس آرائیوں
کی ہی بنا پر اُلٹے سیدھے اپنے خیالات کا اظہار کر کے اپنے بیانات کے تیر
چلاتے رہتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو روز نت نئے اور مخمصے دار اپنے
بیانات کے انبار لئے میڈیا میں اِنہیں داغتے نظر آتے ہیں اور اِن کے اِس
طرح کے غیر ذمہ دارانہ اور غیر سنجیدہ بیانات کی وجہ سے ہی آج یہ لگنے لگا
ہے کہ جیسے ملک کے اِن کوچوانوں کا کام اَب کسی نہ کسی بہانے خود کو صرف
خبروں کی زینت بنانا رہ گیا ہے اور اِن کے اِسی شوق اور مشغلے سے ملکی اور
عالمی سطح پر یہ تاثر عام ہوتا جارہا ہے کہ موجودہ حکمران اور اپوزیشن سب
کے سب عدم اعتماد کے شکار ہیں۔ جس سے ملکی سیاست سمیت ملک کی معاشی اور
اقتصادی ڈھانچہ دگرگوں ہو کر رہ گیا ہے۔
اور واہ...وہ ! اَب میں اِسے اپنے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی کوئی سادگی
کہوں....؟ یا اَن کی کوئی مصلحت پسندی.... جب سے میں نے اِن کا یہ غیر
سنجیدہ بیان پڑھا ہے جس میں اُنہوں نے کہا ہے کہ ”کرپٹ وزرا کو نکال دوں تو
کابینہ میں کِسے رکھوں“ میں اِس اُلجھن میں گرفتار ہوں کہ وزیراعظم کے منہ
سے ایسے غیر سنجیدہ اور غیر پارلیمانی الفاظ ادا کیسے ہوگئے .....؟جو
اِنہیں کسی بھی طور پر زیب نہیں دیتے یہ اور بات ہے کہ وہ اِس سے قبل بھی
اپنے متعدد خطابات اور بہت سے مواقعوں پر ایسے الفاظ کہہ چکے ہیں جنہیں
میڈیا سے لیکر عوامی سطح تک ہدفِ تنقید بنایا گیا اور اِس بار بھی اسلام
آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم یوسف رضاگیلانی حسبِ روایت پھر
وہی غلطی دہرا گئے جیسی یہ اکثر و بیشتر کیا کرتے ہیں یعنی یہ کہ ہمارے ملک
کے ایک جمہوری حکومت کے جمہوری وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ہیں جنہوں نے
گزشتہ دنوں سینہ تان کر سر اٹھا کر اور اپنی پوری ڈھٹائی کے ساتھ اپنی بڑی
بڑی آنکھیں پھاڑتے ہوئے سینہ ٹھونک کر کہا کہ”کرپٹ وزرا کو نکال دوں تو
کابینہ میں کِسے رکھوں“ ......؟وزیراعظم کی یہ کیسی کہی اَن کہی ہے۔
یہاں میرا مسٹر وزیر اعظم سے سوال یہ ہے کہ اُنہوں نے یہ بات کیا سوچ کر
کہی ہے....؟؟اور اِن کا اشارہ کس طرف تھا....؟؟وزیراعظم یہ بھی واضح کردیتے
تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجاتا تو اچھا تھا اور میرا اِن سے دوسرا
سوال یہ ہے کہ کیا آپ کی پارٹی میں سارے ہی کرپٹ لوگ ہیں....؟؟ اگر آپ کی
حکومت کے موجودہ وزرا کرپٹ ہیں تو اِنہیں ہٹاکر اپنی ہی پارٹی سے دوسرے
لوگوں کو اِن کی جگہ دے دی جائے ....اور اگر ایسا نہیں کرسکتے ہیں تو پھر
کرپٹ لوگوں کو اِس وطن عزیز جس کا نام پاکستان ہے اِس پر حکمرانی کرنے کا
کوئی حق نہیں ہے اور اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ عدلیہ اور
حکومت کے درمیان کوئی تصادم نہیں، عدلیہ ملک میں جمہوری نظام کو آگے بڑھانا
اور کامیاب دیکھنا چاہتی ہے وزیراعظم کا ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہنا انتہائی
معنی خیز لگا کہ حکومت کو جانے کی پیش گوئیاں کرنے والوں کو مایوسی ہوگی جب
کہ یہ حقیقت ہے کہ حکومتی اراکین سمیت خود صدر اور وزیراعظم یہ بات متعدد
بار کہہ چکے ہیں کہ ہماری حکومت سے بہت سی کوتاہیاں ہوئی ہیں مگر اِس کے
باوجود بھی ہم اپنی مدت پوری کریں گے کیونکہ عوام نے ہمیں اِس کا مینڈیٹ
دیا ہے تو صدر، وزیراعظم اور حکومتی اراکین یہ بات بھی سُن لیں عوام نے آپ
لوگوں کو جو مینڈیٹ دیا ہے وہ صرف حکومتی مدت پوری کرنے کے لئے ہی نہیں دیا
بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے بھی آپ لوگوں کو مسندِ اقتدار سونپا تھا مگر
آپ تو عوام اور اِس کے مسائل کو بھول چکے ہیں اور آپ لوگوں کو صرف عوام کا
اپنے لئے دیا گیا مینڈیٹ ہی یاد رہ گیا ہے اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ عوام نے
آپ کو اقتدار کے لئے مینڈیٹ دیا تھا تو اَب یہی عوام آپ سے یہ مطالبہ کرتے
ہیں کہ آپ لوگ اَب جس قدر جلد ممکن ہوسکے اقتدار سے ہٹ جائیں اور اقتدار کو
فی الفور چھوڑ دیں کیونکہ عوام کو آپ کے چہرے سے کوئی مطلب نہیں ....اِسے
تو وہ حکمران چاہئے جو اِس کے مسائل حل کرسکے وہ حکمران کوئی آمر ہو یا
جمہوری مگر آپ لوگوں جیساکوئی نہ ہو۔جو عوام کو روزانہ مہنگائی کی دلدل میں
دھکیل کر جشن بنائے اور عوام مہنگائی بھوک و افلاس اور تنگدستی کے ہاتھوں
مجبور ہو کر روز مرتے رہیں اور تم جیسا کوئی حکمران جمہوریت کی بانسری
بجاتے عیش کرتے رہے۔ اِس پر حکمران پارٹی نے حکومت جانے سے متعلق اُن تمام
پیش گوئیوں کو مسترد کرتے ہوئے یہ کہنا شروع کردیا ہے یہ دن مہینے سال
گزرتے جائیں گے دیکھ لینا ...... مگر ہماری حکومت نہیں جائے گی اِن کا کہنا
ہے کہ اِن کی حکومت کو عوام کی بھر پور حمایت حاصل ہے اور کیونکہ ہماری
حکومت نے جہاں ملک میں مہنگائی کو قابو نہیں کیا ہے تو وہیں ہماری حکومت نے
عوام کو اِس بابت اور دوسرے بہت سے ریلیف بھی تو دیئے ہیں جن میں مثلاََ
آسانی سے مرنے اور مارنے سمیت لوٹ مار کرنے جیسے وہ ریلیف شامل ہیں جو اِس
ملک کے کسی بھی حکمران نے کبھی بھی اپنی عوام کو نہیں دیئے ہیں۔ |