الحمدﷲ!قلم وقرطاس سے ناتا آج کا نہیں،ناچیز راقم کی پہلی
تحریر،جو ایک کہانی تھی ،جب بچوں کا جنگ میں شایع ہوئی تو اس وقت راقم چھٹی
جماعت کا طالب علم تھا،تب سے اب تک قلم وقرطاس سے تعلق کا سلسلہ استوار ہے
اور خواہش ہے کہ زندگی کے آخری سانس تک یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے۔1997ء
میں مدرسے میں داخلے کے بعد کہانی لکھنا تو چھوڑ دی ،کہ کہیں یہ جھوٹ کے
زمرے میں نہ آجائے،لیکن مضامین لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور بیش تر مضامین
دینی واصلاحی مضامین لکھے،2011ء میں چند مخلص دوستوں کے کہنے پر کالم نگاری
بھی شروع کردی۔
نوجوان نسل کی ایک بڑی تعداد آج کل تحریر کی دنیا سے وابستہ ہوچکی ہے اور
ان کی درست راہ نمائی کی ضرورت ہے۔میرے پاس بھی وقتاًفوقتاًایسے درجنوں
طلبہ آتے رہے ،جن کی خواہش ہے کہ وہ اچھے اور کام یاب کھاری بنیں اور اس کے
لیے جس جہد مسلسل کی ضرورت ہے وہ اس کے لیے بھی آمادہ وتیار ہیں ،البتہ ان
کی درست تربیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے مقصد کے حصول میں ناکام بھی ہو
سکتے ہیں۔
ایک عام ذہن یہ بھی پایا جاتاہے کہ تحریر کا شایع ہونا کام یاب لکھاری ہونے
کی علامت ہے۔آپ کے نام سے دو چار اخبارات اور پانچ سات ویب سائٹس میں کوئی
تحریر شایع ہوگئی تو بس،سمجھ لیجیے!کہ آپ کام یاب لکھاری ہیں۔یہ سوچ درست
نہیں ،اس سے خطرہ ہے کہ لکھنے کا جذبہ جمود کی نظر نہ ہوجائے۔بد قسمتی سے
اس وقت ویب سائٹس اور اخبارات برساتی کھمبیوں اور خود رو پودوں کی طرح روز
افزوں ہیں اور ان کو اپنے صفحات کا پیٹ بھرنے کے لیے مواد کی ضرورت ہوتی
ہے۔ان کے لیے کسی کمپوز شدہ تحریر کا مل جانانعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں
ہوتا ،سو الاماشاء اﷲ!اب یہ فضا بن چکی ہے کہ بس تحریر ہونی چاہیے،چاہے اس
میں کوئی مواد اور خوبی ہو یا نہ ہو،وہ قابل اشاعت ہے۔ایسے درجنوں لکھاری
میرے علم میں ہیں جنھوں نے اپنی تحریروں کی اشاعت کو اپنی کام یابی کی دلیل
سمجھ لیا اور اب وہ محنت کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے،بس،گوگل وکی
پیڈیا اور دیگر ویب سائٹس سے موادحاصل کرتے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر
تحریر سازی میں مصروف ہیں اور اپنی تحریروں کی اشاعت پر پھولے نہیں
سماتے!ایسے بھی لکھاری دیکھے جو اپنی تحریرکے لیے اتنی محنت کی ضرورت بھی
محسوس نہیں کرتے،بل کہ کسی بھی منجھے ہوئے لکھاری کی تحریر کو شیر مادر کی
طرح اپنے ساتھ منسوب کرکے کہیں شایع کرادیتے ہیں۔بلاشبہ یہ خود فریبی ہے
اور اس سے اپنا ہی نقصان ہے۔اس لیے نوآمو ز لکھاری یہ بات یاد رکھیں کہ ان
کا کام محنت کرنا ہے ،اشاعت عدم اشاعت ان کا مسئلہ ہی نہیں،تحریر شایع
ہوگئی تو بہت اچھا،ورنہ کوئی بات نہیں،آپ کا کام تھا محنت کرنا،سو آپ نے
کرلی،نتیجے کے آپ مکلف نہیں۔
اپنے تجربات کی روشنی میں ذیل میں کسی بھی تحریرکے ردہونے کی بنیادی
اورعمومی وجوہات درج کی جارہی ہیں نوآموزلکھاری اس تحریرکے مطالعے کے ذریعے
اپنی تحریرکے ردہونے کی وجہ تلاش کرکے اس کاتدارک کرسکتے ہیں:
کسی کتاب کااقتباس تھا حوالہ نہیں دیا۔یہ خیانت ہے،جس کتاب سے کوئی تحریر
لیں،اس کا حوالہ ،کم از کم کتاب کا نام ضرور آخر میں ذکر کیا کریں۔
کسی اورکی تحریراپنے نام سے بھیج دی۔یہ علمی سرقہ اور بد دیانتی اور جھوٹ
بھی ہے کہ ایک چیز آپ کی نہیں،اور آپ کا دعویٰ ہے کہ وہ میر ی ہے۔ایسے
لکھاری کا پول کھلتا ہے تو بدنامی تو ہوتی ہی ہے ،اس کے ساتھ ساتھ اکثر
ادارے ایسے لوگوں کو بلیک لسٹ بھی کردیتے ہیں،جو ایک مستقل محرومی ہے۔
جس اخباریارسالے اورویب سائٹ کوتحریربھیجی اس کی پالیسی جاننے کی کوشش کی
اورنہ ہی شایع ہونے والی تحریروں سے اس کااندازہ لگایا۔کئی لکھاری دوست
میلنگ لسٹیں بناتے اور ہر تحریر لسٹ میں درج ہر ادارے کو بھیجتے ہیں ،ایسی
تحریروں کے ضایع ہونے کے چانس شایع ہونے سے زیادہ ہوتے ہیں۔اسی زمرے میں یہ
بھی آتا ہے کہ :مثلاً:مدارس کے اخبارمیں نمازروزے کی ابتداء معلومات بھیح
دیں یاسیاسی اخبارکواصلاحی مضمون بھیح دیا یاکرکٹ اورصحت کے حوالے سے کالم
جمعہ ایڈیشن کوبھیج دیا۔موقع محل کے خلاف لکھامثلا:رجب کے مہینے میں رمضان
کاذکروغیرہ۔۔۔!
تحریر کے ضایع ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ جس سیکشن یاپیج کے لیے
تحریرلکھی میل میں اس کاحوالہ دیااورنہ ہی تحریرکے شروع میں اس کی صراحت کی
مثلا:ادارتی صفحہ۔اسلامی صفحہ وغیرہ۔
لکھنے اورٹائپ کرنے کے بعدخودتصحیح کی اورنہ ہی کسی ماہرکودکھائی۔یہ بے
احتیاطی ہے۔اپنی تحریر کو کئی کئی مرتبہ اصلاح کی نیت سے خود بھی پڑھیے اور
کسی ماہر لکھاری سے بھی اصلاح لینے کی کوشش کیجیے۔اس کی نشان دہی کردہ امور
کو سمجھ کر ان کم زوریوں کو دور کرنے کی کوشش آ کی تحریر میں مزید نکھار
پیدا کرنے کاباعث بن سکتی ہے۔
لکھتے وقت لغت دیکھی اورنہ ہی تصحیح کے وقت۔لغت دیکھنا خامی نہیں خوبی
ہے،یہ آپ کی علمی وقلمی مہارت کے بھی خلاف نہیں ،بڑے بڑے لکھاریوں کی میزیں
لغات سے بھری رہتی ہیں،اس لیے لغت کو ہمیشہ ساتھ رکھا کیجیے۔اسی طرح یہ بھی
تحریر کے رد ہونے کی وجہ بن سکتی ہے کہ :تحریرکسی اجنبی فارمیٹ میں ٹائپ
کی،جو عام طور پر مستعمل نہیں ۔میرے پاس کئی ایسی تحریریں آتی ہیں ،جو
کھلتی ہی نہیں،ان کا ضایع ہونا یقینی ہے۔یہ بھی ایک خامی ہے کہ:لکھنے سے
پہلے مطالعہ کیااورنہ ہی غوروفکربس جی میں جوآیالکھنے بیٹھ گئے۔تحریرمیں
درج اشخاص۔مقامات۔سنین وتواریخ کی درستی کے لیے متعلقہ کتب یاویب سائٹس کی
مراجعت نہیں کی بس اپنے حافظے پرتکیہ کیااورلکھ مارا۔یا درکھیے!اچھا لکھنے
کے لیے اچھا ذوق مطالعہ ضروری ہے،ہمیشہ پڑھیے اورخوب پڑھیے،اس سے خیالات
میں ندرت اور مواد میں قوت پید اہوتی ہے۔
رموزاوقاف کی رعایت نہیں کی،یاپیراگرافنگ کے اصول وضوابط کے خلاف پیراگراف
بنادیے۔۔رموز اوقاف اور پیراگراف سے معنی ومفہوم کہیں کا کہیں پہنچ جاتا
ہے،اس کا عدم استعمال بھی جرم ہے اور غلط وبے موقع استعمال بھی،یہ ایک
مستقل فن ہے ،جس کو اردو ادب کی کتابوں سے سیکھا جاسکتا ہے۔
کامیاب لکھاری وہ ہے جو:
کبھی اپنی تحریرسے مطمئن نہ ہو۔خودکوسب کچھ نہ سمجھ بیٹھے۔ہرتحریرکامطالعہ
اس نیت سے کرے کہ مجھے اس سے سیکھناہے۔ہرچیزکامشاہدہ ایک ناقداورمبصرکی
حیثیت سے کرے۔اردوزبان کے تحریری اسلوب میں آنے والی تبدیلیوں اوراجنبی
الفاظ سے باخبررہنے کے لیے ادبی رسائل وجرائد جرنلزاورکتب کامطالعہ کرتارہے۔
کافی عرصہ پہلے کی بات ہے ماہرلسانیات ونفسیات سیدعرفان احمدکے انٹرویوکی
ایڈیٹنگ کررہاتھا،ایک سوال کے جواب میں ان کایہ جملہ بڑاپسندآیا:اخبارات کی
زبان الگ ہوتی ہے تحریرکی الگ۔اگراپنی اردوتحریربگاڑنی ہوتواخبارات سے
اردوسیکھیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اورصحافت کے ایک بزنس کی شکل اختیارکرنے
کے بعداس جملے کی اہمیت بڑھ رہی ہے کیوں کہ اخباری دنیامیں ایسے رپورٹرزکی
کمی نہیں جنھیں اردوتحریرکی ہوابھی نہیں لگی اورسارازوررپورٹنگ یعنی
خبرسازی پرہوتاہے۔اس کے مقابل ادبی کتب نے اب بھی اردوکابھرم قائم
رکھاہواہے اوران کے مطالعے سے تحریرمیں روانی شائستگی اورمقصدیت بھی پیداکی
جاسکتی ہے اوراغلاط سے بھی محفوظ رہاجاسکتاہے۔
آخری بات یہ کہ تحریرآہستہ تیارہونے والی ڈش ہے جلدبازی سے جس کامزہ
کرکراہوجاتاہے۔مرحوم مشفق خواجہ کے الفاظ میں سبک رفتارلکھاریوں
کوہمارامشورہ ہے:مقدارکے بجائے معیارکومدنظررکھاکریں۔کم لکھیں
مگراچھااوربامقصدلکھیں۔ٹیپوسلطان شہیدؒ نے کہاتھا:شیرکی ایک دن کی زندگی
گیدڑکی سوسالہ زندگی سے بہترہے بعینہ محنت شاقہ سے ہفتوں میں تیارہونے والی
ایک اچھی اورمعیاری تحریر دنوں اورگھنٹوں میں وجودمیں آنے والی سیکڑوں
تحریروں سے بہترہے۔\ |