بسم اﷲ الرحمن الرحیم
پاکستان کے سیاسی و عسکری حکام کے مابین طویل ملاقات کے بعد نیوز لیکس کا
معاملہ ختم کر دیا گیا ہے اور پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا
ہے کہ فوج اور حکومت کو آمنے سامنے کھڑا کرنا افسوسناک ہے۔چند دن قبل کیا
گیا ان کا ٹویٹ کسی حکومتی ادارے یا شخصیت کیخلاف نہیں تھا۔ حکومت کی طرف
سے سفارشات پر عمل درآمد سے معاملہ حل ہو چکا اور انہوں نے اپنا ٹویٹ واپس
لے لیا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے یہ اعلان وزیر اعظم نواز شریف،
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید
مختارکے مابین ہونے والی تفصیلی ملاقات کے بعد کیاگیا ہے۔ اس اجلاس کے
دوران سیاسی و عسکری قیادت کی طرف سے ایران کی پاکستان کو حالیہ دھمکیوں،
چمن بارڈر پر پیدا کی گئی کشیدہ صورتحال،مردم شماری میں پیش آنے والی
مشکلات اور پاک بھارت سرحد وں کی تازہ صورتحال پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا
گیا۔ اس دوران سیاسی و عسکری قیادت نے اس امر پر اتفاق کیا کہ ملکی سرحدوں
کے دفاع اور بھارت، افغانستان و ایران کی طرف سے جو حالات پیداکئے جارہے
ہیں اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے ڈان لیکس کے معاملہ پر تناؤ کی یہ
کیفیت نقصان دہ ہے‘ یعنی اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ خارجہ امور
کے بیک وقت تین محاذوں پر چیلنجز نے سیاسی و عسکری قیادت کو ایک پیج پر
لانے اور مشترکہ موقف اپنانے پر مجبور کر دیا تو یہ غلط نہیں ہو گا۔
پاکستان کو اس وقت جس خوفناک صورتحال میں الجھایا جارہا ہے‘ ان حالات میں
کسی قسم کا باہمی اختلاف ہونا ملکی سلامتی و استحکام کیلئے انتہائی نقصان
دہ ہے۔بعض لوگوں کی طرف سے سوشل میڈیا پر پاک فوج کے اعلیٰ حکام کیخلاف
مذموم پروپیگنڈا مہم چلائی جارہی ہے کہ انہیں ڈان لیکس کے معاملہ میں نرم
رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن یہ سوچ درست نہیں ہے۔ ہر معاملہ پر
سیاست کرنے کی بجائے ملکی دفاعی صورتحال کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ اس
معاملہ پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے تاہم میرا آج کا موضوع بھارت، ایران اور
افغانستان کے ساتھ ملنے والی سرحدوں پر پیدا ہونے والی صورتحال سے متعلق ہے۔
پاکستان کی سرحدیں جوڑ کر رکھنے والے ہمسایہ ملک چار ہیں۔ ہماری مشرقی سرحد
بھارت سے ملتی ہے جو 2912کلومیٹر طویل سرحد ہمارے ساتھ رکھتا ہے۔ شمال اور
مغرب کی سمت افغانستان ہے جس کے ساتھ ہماری مشترکہ سرحد 2430کلومیٹر ہے اور
مغرب کی سمت ہی ہمارا تیسرا پڑوسی ایران ہے جس کے ساتھ ہماری 909کلومیٹر
طویل سرحد ہے۔ ہماری چوتھی سرحدچین کے ساتھ ملتی ہے جو ‘کہ ان تینوں
ہمسایوں سے کم ہے تاہم وہ پاکستان کا دوست ملک ہے اور اب تک ہر مشکل وقت
میں دوستی نبھاتا آیا ہے۔اس وقت پاکستان کیلئے مشکل یہ ہے کہ چار ہمسایوں
میں سے تین نے اس کیخلاف غیر اعلانیہ اتحاد کر لیا ہے اوراسے ٹف ٹائم دینے
کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ چند دن قبل بھارت نے کنٹرول لائن پر دو ہندوستانی
فوجیوں کے گلے کاٹنے کا دعویٰ کیا اور پاکستانی فوج کیخلاف غلیظ پروپیگنڈا
کرتے ہوئے دنیا بھر میں اس کیخلاف سفارتی مہم شروع کر دی گئی۔ مودی سرکار
اور اس کی فوج نے اپنی توپوں کے دہانے کھول لئے اور کہا گیا کہ پاکستان سے
اپنی مرضی کے مقام اور وقت پر بدلہ لیا جائے گا ۔ہندوستان کی سیاسی و عسکری
قیادت کی جانب سے کھلی دھمکیاں دی گئیں اور چمن بارڈ ر سے پاکستانی چوکیوں
اور عام شہریوں پر فائرنگ کر کے کئی افراد کو شہید و زخمی کر دیا گیا۔
افغان حکام اپنی مرضی سے پاکستان کیخلاف ایسی کوئی کاروائی نہیں کر سکتے
لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ وہاں امریکہ کی زیر اثر اس کی بنائی گئی کٹھ
پتلی حکومت ہے‘ جس کے ساتھ انڈیا نے بھی گہرے روابط بنالئے ہیں۔بھارت سرکار
نے تعمیر و ترقی کے نام پر ہندوستانی فوجی ماہرین اور کمانڈوز کی بڑی تعداد
وہاں بھیج رکھی ہے جو طورخم اور چمن بارڈ کے پار ڈیرے ڈالے بیٹھے ہیں۔ اس
وقت بھی جب چمن بارڈ ر پر حملہ کے سبب صورتحال سخت کشیدہ ہے۔ ہندوستانی
وزارت دفاع، فوجی ماہرین اور ان کی خفیہ ایجنسی را کے108رکن وفدنے
افغانستان کے دورہ کیا ہے جس کا مقصدافغانستان کو چمن بارڈ پر حملہ کے بعد
پیدا ہونے والی گھمبیر صورتحال سے نکالنا اورآئندہ پاکستان کیلئے کس طرح
مشکلات کھڑی کی جاسکتی ہیں‘کی منصوبہ بندی ترتیب دینا ہے۔باخبر تجزیہ
نگاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں قائم بھارتی قونصل خانوں میں دہشت
گردوں کو ٹریننگ دینے کا عمل بھی تیز کر دیا گیا ہے جنہیں تخریب کاری و
دہشت گردی کیلئے پاکستا ن بھیجا جائے گا۔افغانستان کی طرف سے پاکستان کی
سرحدوں پر حملوں کی سازشوں میں انڈیا کے ساتھ ساتھ اتحادی ملک بھی پیش پیش
ہیں یہی وجہ ہے کہ چمن بارڈ ر پر حالیہ واقعہ کے بعد امریکی حکام نے اس
معاملہ پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے ۔اتحادی ممالک افغانستان میں اپنی
شکست کا ذمہ دار پاکستان کو سمجھتے ہیں اس لئے امریکہ، بھارت ودیگر اتحادی
ملکوں کی پوری کوشش ہے کہ پاکستان کو افغان بارڈ رپر الجھا کر رکھا جائے
اور یہاں ایک مستقل جنگ کی کیفیت پیدا کر دی جائے تاکہ مشرقی بارڈر کی طرح
مغربی بارڈر بھی مکمل طو ر پر غیر محفوظ ہو جائے اور وطن عزیز پاکستان
کودونوں سرحدوں پر شدید نقصانات سے دوچار کیا جائے۔ چمن بارڈ رپرحملہ کا
معاملہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا ‘ پاکستانی اور افغان حکام کے مابین رابطوں
کا سلسلہ جاری تھا کہ ایران کی طرف سے پاکستان اور سعودی عرب پر حملوں کی
دھمکی دے دی گئی۔ ایرانی پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری
نے سنی العقیدہ ایرانی صوبہ سیستان بلوچستان میں سرگرم تنظیم جیش العدل کے
خلاف کاروائیوں میں ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالتے ہوئے کہاکہ پاکستان نے
مبینہ شدت پسندوں کیخلاف کاروائی نہ کی تو اس کی فوج پاکستانی سرحد عبور کر
کے جیش العدل کے ٹھکانوں کو خود نشانہ بنائے گی۔ اسی طرح ایرانی وزیر دفاع
جنرل حسین دہقان نے لبنانی تنظیم حزب اﷲ کے عربی ٹی وی چینل المینار کو دیے
گئے انٹرویو میں سعودی عرب کو کھلی دھمکی دی اور کہا کہ اگر اس نے کوئی
اشتعال انگیزی کی تو جواب میں ایران حرمین شریفین کے سوا باقی سعودی شہروں
کو تباہ کر کے رکھ دے گا۔ ایران کی ان دھمکیوں پر پاکستان، سعودی عرب اور
دیگر اسلامی ملکوں نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ
پاکستان کیخلاف دھمکی آمیز بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ایرانی وزیر
خارجہ جواد ظریف دو دن قبل ہی پاکستان کا دورہ کر کے کابل پہنچے اور پھر
ایرانی وزیر دفاع نے یہ بیان داغ دیا۔پاکستانی دفتر خارجہ نے ایرانی سفیر
مہدی ہنر دوست کو طلب کر کے احتجاج کیا تواگلے دن ہی ڈپٹی آرمی چیف
بریگیڈیئر جنرل احمد رضا نے کہا ہے کہ پاکستان پر حملہ ایران کا قانونی حق
ہے جس پر حالات میں بہتری کی کوششوں کو مزید نقصان پہنچا ہے۔ پاکستان کی
ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ ایران کے ساتھ برادرانہ تعلقات قائم رہیں۔ اب بھی
پاکستانی حکام اسی سلسلہ میں کاوشیں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ ایران کو بھی
چاہیے کہ وہ ایسے بیانات سے گریز کرے جس سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں
خرابی پیدا ہوتی ہو۔ سعودی عرب کو دی گئی ایران کی دھمکیاں بھی تشویشناک
ہیں۔ حرمین شریفین کے سوا باقی شہروں کو تباہ کرنے کی باتوں سے پوری امت
مسلمہ کی دلآزاری ہوئی اور ان کے جذبات کو سخت ٹھیس پہنچی ہے۔ صرف مکہ اور
مدینہ ہی نہیں پوری سرزمین حرمین شریفین کا تحفظ کرنا ہر مسلمان اپنے ایمان
کا حصہ سمجھتا ہے۔ سعودی عرب میں امن و امان کی خرابی کو کسی صورت برداشت
نہیں کیا جاسکتا۔ حالیہ دھمکی آمیز رویہ سے یہ بات درست ثابت ہو گئی ہے کہ
سعودی عرب کی قیادت میں اسلامی فوجی اتحاد کا قیام اور جنرل (ر) راحیل شریف
کا اس اتحاد کی قیادت سنبھالنا درست اقدام تھا۔ میڈیا میں موجود بعض لوگ
جنہوں نے بلاوجہ اسلامی فوجی اتحاد کیخلاف پروپیگنڈا شروع کر رکھاہے انہیں
بھی چاہیے کہ وہ اپنے رویہ پر نظرثانی کریں اور بلاوجہ کی مخالفت اور
پروپیگنڈا بند کریں۔ حرمین شریفین کے امن کو برباد کرنے کی باتیں کی جائیں
گی تو امت مسلمہ اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتی۔ حرمین کی سرزمین سعودی عرب جس
قدر مضبوط ومستحکم ہو گا اسی قدرمسلمان ملک محفوظ ہوں گے ،معا شروں میں
وحدت و اتحادویکجہتی کی فضا پیدا ہو گی اور دنیا کو اچھا پیغام جائے
گا۔ضرورت ا س بات کی ہے کہ پاکستان سمیت دیگر مسلمان ملک سعودی عرب کے ساتھ
کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں اور اپنا مشترکہ دفاعی نظام ومعاشی
پالیسیاں تشکیل دی جائیں۔اسی طرح اپنی عالمی عدالت انصاف بنائیں اور مسلم
ملکوں کے آپس کے معاملات بھی قرآن و سنت کی بنیا دپرمل بیٹھ کر حل کئے
جائیں۔ اس سے بیرونی مداخلت کے سلسلے ختم ہونگے اور مسلمان ملک امن و امان
کے گہوارے بن جائیں گے۔ |