رضا حیدر کی شہادت کے نتیجے میں خالی ہونے
والی صوبائی نشست پی ایس ٩٤ پر کل بلکہ آج یعنی سترہ اکتوبر ٢٠١٠ کو ضمنی
انتخاب ہونے جارہا ہے جس میں کچھ گھنٹے پہلے ہی زور شور سے فتح اور کامیابی
کے دعوے کرنے والی اے این پی نے کوئی راہ نا پاتے ہوئے اس نشست کے انتخابات
کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ حلقہ بھی ایم کیو ایم کا ووٹ بینک رکھنے
والا حلقہ ہے اور گزشتہ انتخابات میں ایم کیو ایم کے امیدواران نے ہی اس
حلقے سے شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ جیسے گزشتہ انتخابات یعنی ٢٠٠٨ کے
انتخابات میں شہید رضا حیدر نے اس حلقے سے ٨٩ ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے
تھے اور ان کے مقابلے میں پی پی پی کے امیدوار پانچ ہزار سے بھی کم ووٹ
لینے میں کامیاب ہوئے تھے۔
رضا حیدر کی شہادت کے بعد خالی ہونے والی اس نشست پر گزشتہ مہینے انتخاب
ہونا تھا مگر لندن میں شہید انقلاب ڈاکٹر عمران فاروق کی شہادت کے بعد
الیکشن کمیشن نے اس حلقے کے انتخابات کی تاریخ میں توسیع کرتے ہوئے انتخاب
کی تاریخ ١٧ اکتوبر ٢٠١٠ مقرر کی جس پر اے این پی نے اپنی کمپنی کی مشہوری
کے لیے بڑے بیانات وغیرہ دیے جیسے انتخابی تاریخ کی توسیع سے اس کی فتح
شکست میں تبدیل ہوجائے گی۔
کافی دعوے کرنے والی اے این پی اس ضمنی انتخاب سے پہلے پورے حلقے میں کہیں
چند ہزار کے انتخابی جلسے بھی منعقد نا کرسکی جبکہ ١٥ اکتوبر کو ایم کیو
ایم نے انخابی جلسے کا انعقاد کیا جس میں ہزارہا لوگوں نے شرکت کی۔ جس سے
اس حلقے میں الیکشن کی فاتح جماعت کا تعین کرنے میں ہر ایک کو بڑی آسانی
ہوگئی۔
جیسا کہ مصطفیٰ کمال نے بڑی درست بات کہی کہ ہماری سیاسی غیرت کا کیا کہنا،
کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ رضا حیدر کی اپنے مدمقابل حریف پر ٨٥ ہزار
ووٹوں کی برتری کے بعد اور ان کی شہادت کے اس حلقے میں ہونے والے ضمنی
انتخاب میں کسی سیاسی جماعت کو ایم کیو ایم کے خلاف اپنا امیدوار نہیں کھڑا
کرنا چاہیے تھا کہ جیسے غالباً پی پی پی اور دوسری سیاسی جماعتوں نے اپنا
کوئی امیدوار اس حلقے سے کھڑا نہیں کیا۔ مگر غیرت کے دعوے کرنے والے اے این
پی کی تھنک ٹینک کے ٹینکرز کی تو بات ہی نرالی نکلی۔
پہلے تو ایم کیو ایم کے خلاف انتخابات میں کامیابی کے بوگس اور بونگے دعوے
اس حلقے کے حوالے سے کیے گئے اور جب اندازہ ہوگیا کہ چند گھنٹوں کے بعد
الیکشن ہونے جارہے ہیں تو انتخاب کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔
انتخاب میں حصہ لینا یا بائیکاٹ کرنا ہر جماعت یا امیدوار کا حق ہے مگر
انتخابات سے بائیکاٹ کرنے کے اپنے زیر اثر علاقوں سے گزرنے والے دوسرے
لوگوں کو نا گزرنے دینا یا بسوں پر فائرنگ کردینا کونسی سیاست ہے۔
رات کے اس پہر ہماری ویب کے مندرجہ ذیل لنک کے مطابق
https://hamariweb.com/news/newsdetailimage.aspx?id=331423
کراچی کے مختلف علاقوں میں فائرنگ کے واقعات میں آٹھ افراد جاں بحق جبکہ دس
شدید زخمی ہوگئے۔ پولیس کے مطابق گارڈن کے علاقے دھوبی گھاٹ میں نامعلوم
افراد کی فائرنگ سے تین افراد ہلاک ہوگئے۔ بلدیہ ٹائون میں نامعلوم افراد
کی فائرنگ سے تین افراد شدید زخمی ہوئے۔ جن میں سے ایک شخص زخموں کی تاب نہ
لاتے ہوئے اسپتال میں چل بسا۔ قصبہ موڑ پر فائرنگ سے ایک شخص جاں بحق جبکہ
گھاس منڈی کے قریھب موٹر سائیکل سواروں کی فائرنگ کے نتیجے میں بچے سمیت دو
افراد زخمی ہوگئے۔ مسکن چورنگ اور کٹی پہاڑی پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے
دو افراد جاں بحق ہوگئے۔ بلدیہ ٹائون، بنارس، کٹی پہاڑی، گھاس منڈی، سہراب
گوٹھ، میٹروویل، ابو الصفہانی روڈ اور پہلوان گوٹھ اور دیگر علاقوں میں
وقفے وقفے سے فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے شہر بھر میں خوف و ہرس
کی فضا قائم ہے۔
مندرجہ بالا خبر کے علاوہ ٹی وی خبروں میں ہلاک شدگان کی تعداد ١٣ سے تجاوز
کرچکی ہے۔ ایک حلقے میں ہونے والے ضمنی انتخاب کسی کو اتنے ناگوار معلوم
ہورہے ہیں کہ بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے اور یہ تاثر دیا
جارہا ہے کہ کراچی بدامنی کا شکار ہے۔
کاش اس انتخاب کا بائیکاٹ کرنے والے کھلے دل سے اس ضمنی انتخاب میں حصہ
لیتے اور ہارنے والا کھلے دل سے اپنی ہار کو تسلیم کرتا۔ اور اللہ کرے کہ
اس ضمنی انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے والا اللہ کا شکر ادا کرے اور ہارنے
والا اپنی ہار تسلیم کرتے ہوئے عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کرے ناکہ شہر قائد کو
ٹارگٹ کلنگ کا شکار بنا کر پیش کرے۔
یہ کھیل اب ختم ہونا چاہیے کہ نا کھیلیں گے اور نا کھیلنے دیں گے کیونکہ اے
این پی کو یہ بات اچھی طرح سے یاد رکھنی چاہیے کہ گزشتہ انتخابات میں چند
پارٹیوں کے انتخابی بائیکاٹ کے نتیجے میں ہی اے این پی کراچی میں دو نشستیں
اور خیبر میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوپائی ہے باقی آنے والے انتخابات میں
اے این پی اپنے ووٹ بینک کو اچھی طرح جان اور پہچان جائے گی۔
شہر میں ہونے والی بے گناہ ہلاکتوں پر دل افسردہ بھی ہے اور اللہ سے امید
ہے کہ کہ کل ہونے والے الیکشن پرامن طریقے سے انجام پزیر ہوں اور اس کے بعد
بھی شہر قائد کی فضا کو مزید ہلاکتوں سے بچایا جاسکے جسکے لیے قانون نافذ
کرنے والے اداروں کا کردار بہت اہم ہے اور خصوصا رینجرز کو جو غیر معمولی
اختیارات دیے گئے ہیں تاکہ شہر میں امن و امان کو یقینی بنایا جاسکے۔
کل ہونے والے انتخاب میں جیتنے والوں کو پیشگی مبارک باد اور ہارنے والوں
سے التماس ہے کہ براہ مہربانی شہر میں اپنی انتخابی ہار کے نتیجے میں کسی
قسم کی خونریزی اور شر پسندی سے باز رہا جائے۔ |