ترکی ریفرنڈم کے خوشگوارنتائج ؟

عوام شادمان مغرب پریشان

پچھلے چندماہ سے دنیامیں ایک اورابھرتی ہوئی معیشت کاحامل برادرمسلم ملک ترکی ان دنوں امریکی اورمغربی میڈیاکی توپوں کامرکز بناہواہے لیکن ترکی کے عوام نے جس دلیری کے ساتھ اپنے ہردلعزیزرہنماء رجب اردگان کاساتھ دیاہے وہ بھی ایک فقیدالمثال تاریخ کا حصہ ہے۔ اردگاان نے بیمارترکی کی معیشت کوشب وروزکی محنت سے دنیاکی سولہویں بڑی معیشت کے مقام پرلاکھڑاکیاہے اورآج ریفرنڈم کے ذریعے فیصلہ کن طاقت ملنے کے بعد ترکی کے نظام حکومت سے سیکولرازم کوانتہائی دانش مندی سے رخصت کرکے اس کو اسلام کے ساتھ مزید مضبوطی کے ساتھ جوڑنے کاواضح پیغام دیاہے۔ریفرنڈم جیتنے کے بعدانہوں نے سابقہ ترک روایات کومسترد کرتے ہوئے جدیدترکی کے خودساختہ بانی کمال اتاترک کی قبرپر جانے کی بجائے صحابی رسولۖ حضرت ابوایوب انصاری اور عثمانی خلیفہ سلیم اوّل کے مقبروں سے متصل مساجدمیں شکرانے کے نوافل اوربعد ازاں فاتحہ خوانی کی۔ واضح رہے کہ کہ حضرت ایوب انصاری کامقبرہ استنبول میں ہے ۔عثمانی خلیفہ سلیم اوّل سلطان سلمان کے والدتھے اوریورپ میں فتوحات کاآغازان کے دورمیں ہواتھا، جنہیں بعدمیں ان کے بیٹے نے مکمل کیا۔

سلطان سلمان کے ساتھ ان کے والدسلیم بھی صدیوں تک یورپ میں خوف کی علامت سمجھے جاتے رہے۔مبصرین نے اتاترک کی بجائے صحابی رسولۖ اور عثمانی خلیفہ کے مقبروں پر صدراردگان کی حاضری کوخاصااہم قراردیاہے اور کہاہے کہ مکمل اختیارات ملنے کے بعداب صدراردگان ترکی کوتیزی کے ساتھ اسلام کی طرف لیجانے کاپروگرام رکھتے ہیں اور اتاترک کی قبرپرحاضری کی روایت کونظراندازکرکے انہوں نے یہ پیغام دے دیاہے۔صدراردگان نے سیکولر فوج کے ہاتھوں ١٩٦٠ء کی دہائی میں پھانسی چڑھنے والے ترک وزیراعظم عدنان میندرس اوران کے دوساتھی وزاراء کی قبروں پربھی فاتحہ خوانی کی جسے سیکولرحلقوں کیلئے پیغام قراردیاجارہاہے۔اردگان اپنے مرشداورسیاسی استادسابق وزیر اعظم نجم الدین اربکان کی قبرپربھی گئے جنہیں ۱۸فروری ۱۹۹۷ء کوسیکولرفوج نے بغاوت کرکے اقتدارسے محروم کر دیاتھا۔انہوں نے ایک اورترک رہنماء اور سابق صدرترگت اوزال کی قبرپربھی فاتحہ خوانی کی۔اس موقع پرعوام کی بڑی تعدادان کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے جمع ہوگئی ۔

جیت کے بعداردگان کاکہناتھاکہ ان کاموجودہ پارلیمنٹ کوتحلیل کرنے کاکوئی ارادہ نہیں ہے۔ترک نائب وزیراعظم کا کہناہے کہ صدراردگان نے واضح کیاہے کہ وہ پارلیمنٹ تحلیل نہیں کریں گے اورنہ ہی قبل ازوقت انتخابات کرائے جائیں گے۔ادہرترک اپوزیشن جماعتوں نے صدارتی نظام کے نفاذکی منظوری کیلئے ہونے والے ریفرنڈم کے نتائج منسوخ کرنے کامطالبہ کرتے ہوئے الیکشن اتھارٹی پربغاوت کاالزام عائدکیاہے۔اپوزیشن کاکہناتھاکہ الیکشن کمیشن نے ایسے ووٹوں کوبھی شمارکیاجن پرمہریں نہیں لگی ہوئی تھیں۔پیپلز ڈیمو کریٹ پارٹی کے ترجمان عثمان باضمیرکاکہناہے کہ انتخابی نتائج کے فراڈ کااس سے بڑاثبوت اور کیاہوسکتاہے کہ ریفرنڈم میں الیکشن اتھارٹی نے بغیرمہرلگے تیس لاکھ ووٹوں کوآخری لمحات میں درست تسلیم کرلیا۔انہوں نے دعویٰ کیاکہ الیکشن کمیشن کے جاری ڈیٹااورہماری جانب سے ملک کے تمام بیلٹ باکسزکے جمع کردہ نتائج کے اعدادوشمارمیں بھی بہت زیادہ فرق ہے۔ہاں اورنہ میں ووٹوں کے نتائج میں زیادہ فرق نہیں،اس لئے نتائج کومنسوخ کیاجائے۔نتائج کے مطابق اردگان کیمپ کو''ہاں'' کے حق میں ساڑھے بارہ لاکھ ووٹوں سے کامیاب ظاہرکیاگیا جبکہ متاثرہ ووٹوں کی تعداد٣٠لاکھ ہے ۔پیپلزری پبلکن پارٹی کے چیئرمین بلند تزکان کاکہناتھاکہ ریفرنڈم نتائج کی منسوخی کے سواکوئی چارۂ نہیں۔بلندتزکان نے٦٠فیصدووٹوں کی دوبارہ گنتی کامطالبہ بھی کیاہے۔

صدارتی نظام کے نفاذکیلئے ریفرنڈم میں معمولی اکثریت سے کامیابی پراردگان کے حامیوں کاجشن جاری جبکہ مخالفین پر سکتہ طاری رہا۔مخالفین نے خود کو گھروں میں بندرکھااوربطوراحتجاج برتن بجاتے رہے۔ترک الیکشن کمیشن کا کہناہے کہ صدارتی ریفرنڈم کے ''ہاں''کے حق میں ساڑھے بارہ لاکھ زیادہ ڈالے گئے ۔نتائج نے امریکااوریورپی ممالک کوبے چین کرکے رکھ دیاہے اوراسے ترک رائے عامہ کی تقسیم کاآئینہ دارقراردیاہے۔طیب اردوگان کے حامیوں نے صدارتی نظام کے نفاذکیلئے ہونے والے ریفرنڈم میں کامیابی پر مسلسل دودن ملک کے طول وعرض کی سڑکوں پرگاڑیوں کے ہارن بجاتے ہوئے اپنے رہنماء کی تصاویراورترکی کے جھنڈے لہراتے رہے۔حامیوں کاکہناہے کہ صرف ایک شخص نے لاکھوں غریب خاندانوں کی زندگیاں تبدیل کرکے رکھ دی ہیں جبکہ سیکولرحکمرانوں کے دورمیں توجہ صرف اشرافیہ پر مبذول رکھی گئی۔رجب طیب اردگان کے ناقدین کی اکثریت سیکولراشرافیہ پرمشتمل ہے۔

سیکولرافراداورامیروں کے بعض علاقوں میں لوگ اپنے گھروں میں ہی رہے، چندمقامات پراحتجاج بھی کیاگیاجس میں مٹھی بھرافرادشریک ہوئے۔ ریفرنڈم کے نتائج نے جہاں امریکااورمغرب کوانتہائی بے چین کردیاہے وہاں اردگان کے مخالفین کی نیندیں بھی حرام ہوگئیں ہیں۔امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونزکاکہناہے کہ امریکاکوترکی میں جمہوریت کے طریقہ کارپرسخت تشویش لاحق ہے ،ہم اصلاحات کے جاری عمل پرنظر رکھے ہوئے ہیں۔ترکی ہمارا اتحادی ملک ہے اورہم جمہوریت کے سلسلے میں ترکی سے بات کرتے رہتے ہیں۔فرانس کے صدرفرانسس اولاند کاکہنا ہے کہ ترکوں کواپنے سیاسی اداروں کی تشکیل کیسے کرنی ہے ،اس کافیصلہ بھی وہی کر سکتے ہیں۔ریفرنڈم کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ ترک سماج میں اصلاحات کے معاملے پر اختلافات بہت گہرے ہیں۔جرمنی کی چانسلراینجلامرکیل اور وزیر خارجہ گیبرائیل سگمار نے مشترکہ بیان میں کہاہے کہ ترک حکام کویورپی یونین کے پینل آف ایکسپرٹس کی جانب سے ریفرنڈم کے حوالے سے اٹھائے گئے سوالات کی وضاحت کرنی چاہئے۔جرمنی ترکوں کی جانب سے مرضی کے آئین کے انتخاب کے حق کا احترام کرتا ہے۔حامیوں اورمخالفین کے نتائج اس بات کوظاہرکرتے ہیں کہ ترک سماج میں تفریق کتنی بڑھ چکی ہے،ہمیں امیدہے کہ انقرہ حکومت ترک سماج کے اندراحترام پرمبنی مکالمے کوبڑھاوادے گی۔یورپی کمیشن کا کہناتھاکہ آئینی ترامیم کے معاملے پرترکی کوبہت وسیع اتفاق رائے پیداکرناہوگا۔آسٹریاکے وزیر خارجہ سبیسٹن کرز کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم کے انعقادکے بعدہم دوبارہ معمول کے تعلقات کی جانب نہیں لوٹ سکتے،ہمیں یورپی یونین اورترکی کے تعلقات میں کسی حدتک ایمانداری نبھاناہی ہوگی۔

عوامی ریفرنڈم میں اردگان کی صدارتی نظام میں کامیابی کے بعدانہیں فیصلہ کن قوت حاصل ہوگئی ہے۔ترک عوام کی اکثریت نے صدارتی نظام حکومت کے نفاذ کیلئے ہونے والے ریفرنڈم کے دوران''ہاں''کے حق میں ووٹ دیکراسلام پسند اردگان کوفیصلہ کن طاقت دے دی ہے۔لادین مصطفیٰ کمال اتاترک کی حامی اور کردجماعتوں کے اتحاد کوشکست ہوئی ترکی کے الیکشن کمیشن نے صدارتی ریفرنڈم میں''ہاں''کیمپ کی جیت کاباضابطہ اعلان کیا۔اردگان کواب وزراء کے تقرر،ڈگری جاری کرنے،سنیئرججوں کے چناؤ،پارلیمان کو برخواست کرنے کے وسیع اختیارات مل جائیں گے۔ ریفرنڈم کے دوران ''ہاں''اور ''نہ'' کے حق میں ووٹ دینے والے کیمپوں کامقابلہ انتہائی سخت تھا۔دارلحکومت انقرہ سمیت ملک کے بڑے شہروں استنبول وازمیرکے علاوہ کرداکثریتی صوبے دیاربکر میں''نہ''کے حق میں زیادہ ووٹ ڈالے گئے جبکہ قونیاسمیت دیگرکئی شہروں اوردیہی علاقوں میں عوام نے صدراردگان کواختیارات دینے کے حق میں ووٹ دیئے۔
وزیراعظم علی بن یلدرم نے ریفرنڈم میں ''ہاں''کیمپ کی فتح کااعلان کرتے ہوئے اسے ملکی جمہورہت کانیاباب قرار دیاہے۔ریفرنڈم کے نتائج نے ثابت کردیا کہ مغرب کے بدترین پروپیگنڈے سے ترک عوام قطعاًمتاثرنہیں ہوئے۔ اردگان نے صدارتی نظام کے ملک میں نفاذکیلئے ہونے والے ریفرنڈم نتائج کوملک وقوم کیلئے خیروبرکت کاوسیلہ قرار دیا ہے ۔ ریفرنڈم کے نتائج آنے پراردگان نے حکمران جماعت انصاف وترقی پارٹی کے سربراہ وزیراعظم علی یلدرم، اتحادی جماعتوں،قوم پرست تحریک پارٹی کے دولت باچیلی اورعظیم اتحادی پارٹی کے قائدمصطفیٰ دوستہ جی کوٹیلیفون پر مبارکباد دی۔یورپی ممالک اور اردگان کے مخالفین کادعویٰ ہے کہ اب ترکی بدترین آمریت کی طرف تیزی سے بڑھے گااوراردگان ٢٠٢٩ءتک صدررہیں گے۔ریفرنڈم کے تحت بااختیار وزیراعظم کاعہدہ باقی نہیں رہے گااوراس کی جگہ نائب صدرکاعہدہ وجودمیں آئے گا۔

اردگان کی مہم کواختتامی لمحات میں اس وقت نقصان پہنچاجب ان کی ایک اتحادی جماعت نیشلسٹ موومنٹ پارٹی نے ایک صدارتی مشیرکی جانب سے وفاقی نظام ریاست پرشدیداعتراضات کئے جس پرفوری طورپراردگان نے واضح کردیاکہ ایساکوئی منصوبہ زیرغورنہیں۔ریفرنڈم کے پولنگ کیلئے ترکی بھر میں ایک لاکھ ۶۷ہزارپولنگ اسٹیشن قائم کئے گئے ۔ ساڑھے پانچ کروڑووٹرزنے حق رائے دہی استعمال کیا۔پولنگ کے دوران ووٹرزمیں زبردست جوش وخروش دیکھاگیا۔ دنیابھرسے میڈیاکے افرادکوبھی ہرجگہ جانے کی آزادی تھی تاکہ وہ ترک عوام کے اس عمل کاقریب سے جائزہ لیں۔ بیرونی ممالک میں رہائش پذیر ٢٩لاکھ ترک پہلے ہی ووٹ کااستعمال کرچکے تھے۔ساڑھے پانچ کروڑ ووٹرز میں سے دس لاکھ اسی سال ۱۸برس کی عمرتک پہنچنے پراسی سال ووٹ ڈالنے کے اہل ہوئے۔قیدیوں کوبھی ریفرنڈم میں رائے کاحق استعمال کرنے کیلئے جیلوں میں بھی ۴۶۳ مراکز قائم کئے گئے۔وزارتِ داخلہ کے مطابق ۷۸ہزار۴۹۴قیدی اور زیرحراست ملزمان نے ووٹ ڈالا۔ریفرنڈم کے موقع پرسخت حفاظتی سیکورٹی انتظامات کئے گئے،صرف استنبول میں۳۳ ہزارپانچ سوسے زائدپولیس افسران نے ڈیوٹی انجام دی۔

ریفرنڈم کاانعقادسخت سیکورٹی خدشات کے باوجودکیاگیا۔ریفرنڈم سے صرف ایک دن پہلے استنبول سے پولنگ کے دوران دہشتگردی کا منصوبہ بنانے کے شبہ میں پانچ جبکہ ١٩عسکریت پسندوں کورنگے ہاتھوں گرفتارکیاگیا۔ ریفرنڈم سے قبل اردگان نے آخری ریلی میں اپنی قوم سے وعدہ کیاکہ اگریورپی یونین میں شامل نہیں کیاجاتاتوریفرنڈم کے فوری بعداراکین کااجلاس بلاکریورہی یونین سے تعلقات پرنظرثانی کی جائے گی۔ ترکی کوکسی بھی طاقت کیلئے قربانی کا بکرابنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی،ملک کودرپیش سیکورٹی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے کئی ہنگامی تبدیلیوں کی اشد ضرورت ہے۔نئے آئین سے ملک میں استحکام واعتمادآئے گاجوملکی ترقی کیلئے ازحدضروری ہے۔جرمن اخبارڈائی ویلٹ کے مطابق ریفرنڈم میں کامیابی کے بعداردگان حکومت کیلئے مختلف معاملات پرپارلیمان سے اجازت کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔
روسی اخبار''ریانووستی''کے مطابق اردگان مستقبل میں ترکی کے طاقتورترین حکمران ثابت ہوں گے جن کوبجٹ مسودات اورسفارشات کی تیاری کے ساتھ ساتھ حکومتی کابینہ کی تقرری ،وزرائے کرام کی تعیناتی اورسبکدوشی سمیت اعلیٰ عدلیہ کے جج حضرات کی تعیناتی اورکسی بھی وقت برطرفی کے اختیارات حاصل ہوں گے۔جولائی ٢٠١٦ء کی ناکام فوجی بغاوت نے ترک صدر کوپارلیمانی طرزحکومت کی بجائے صدارتی نظام کی جانب راغب کیا۔ مشہور ترک تجزیہ نگار ارسلان بیراق کے مطابق کامیابی کے بعدترک صدر سپریم کورٹ کے ١٣ میں سے پانچ اعلیٰ ججوں کے تقررکرنے کا اختیارخودرکھیں گے جبکہ باقی ٨جج ترک پارلیمنٹ مقررکرے گی۔سی این این کی رپورٹ کے مطابق اردگان عدلیہ میں بہترین اورایماندار، خدا ترس جج مقررکرناچاہتے اوربتدریج تمام فوجی عدالتوں کاخاتمہ چاہتے ہیں۔پارلیمنٹ کی سیٹوں کی تعداد٥٥٠سے بڑھاکر٦٠٠ہوجائے گی۔ ہر پانچ برس بعد صدراوراراکین پارلیمنٹ کاچناؤایک ہی دن ہوگا۔ پہلا مشترکہ الیکشن ٢٠١٩ء میں ہوگا۔

یہ بات کسی سے بعیدنہیں کہ ریفرنڈم سے قبل یورپ اورامریکانے میڈیاکے توسط سے کھلبلی مچائے رکھی اوراردگان کو شکست سے دوچارکرنے اوران کی ساکھ کونقصان پہنچانے کیلئے جرمنی،ہالینڈ، آسٹریا،ڈنمارک،فرانس اورسربیا نے کھل کرترک ریفرنڈم کے خلاف تحریک چلائی ۔ترکوں کوگمراہ کرکے''نہ''پرووٹ ڈالنے کیلئے اکسایاجاتارہا۔جرمنی اور ہالینڈ نے ترک وزاراء کواپنی سرزمین پرترک نژادشہریوں سے خطاب کی اجازت دینے اورترک وزراء کے طیاروں کواترنے کی اجازت دینے سے انکار کیاجبکہ ترک اپوزیشن کوہر قسم کی سہولت فراہم کی گئی۔مختلف ممالک کے میڈیانے ریفرنڈم کے دوران بھی اردگان کے خلاف پروپیگنڈہ جاری رکھا۔ترکی کا موجودہ سیکولرآئین ١٩٨٠ء میں ترک سیکولر فوجی سربرہ کنعان ایورن نے جمہوری حکومت کوبرطرف کرکے منظورکروایاتھا لیکن اب اس آئین کی جلدہی قصہ پارینہ بننے کی توقعات ہیں۔امریکاکے عالمی آن لائن جریدے فارن پالیسی کے مطابق اردگان کوصداتی نظام کے نفاذکیلئے ریفرنڈم میں کامیابی ملی تووہ ترکی میں کئی دہائیوں سے سیکولربیوریوکریسی،عدلیہ اورافواج کااثرونفوذہمیشہ کیلئے ختم کردیں گے اوریہی وہ عظیم خطرہ ہے جس سے امریکااورمغرب گھبرارہاہے۔
برطانوی اخبار''اکنامسٹ''نے اپنی اسی کوشش میں ایک رپورٹ بناکردعویٰ کیاکہ ترکی میں پارلیمانی نظام حکومت کی بجائے صدارتی نظام نافذہوا تو یورپ اور امریکاکواردگان کی صورت میں دور جدید کے ''سلطان''کاسامناکرناپڑے گا۔ واضح رہے کہ خلافت عثمانیہ کے ١٠ویں خلیفہ سلطان سلیمان عالیشان کے دورمیں کئی یورپی ممالک بھی ان کی سلطنت میں شامل ہوئے۔یہ سلطان سلیمان عالیشان ہی تھے جنہوں نے فرانس پرحملہ اور پیرس کامحاصرہ کیاتھا۔ سلطان سلیمان کی وجہ سے یورپ ہمیشہ لرزہ براندام رہا۔اب اردگان کاریفرنڈم میں واضح برتری کے بعد یورپ اورامریکاکے خوف کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اردگان اپنی بیشتر تقریروں میں ٢٠٢٣ء کا حوالہ دیتے ہیں اوریورپ خصوصا ًجرمنی ٢٠٢٣ء سے اتنے خوفزدہ کیوں ہے ؟اس کی ایک خاص وجہ ہے!

جدید جمہوری ترکی کے بانی مغرب سے مرعوب بلکہ اس کے لے پالک کمال اتاترک نے مغربی طاقتوں سے مل کر ۱۹۲۳ ء میں ایک معاہدہ لوزان پر دستخط کیے تھے۔اس معاہدے کی رو سے خلافت عثمانیہ ختم کردی گئی تھی اور تینوں براعظموں میں موجود خلافت کے اثاثوں اوراملاک سے بھی دستبرداری اختیار کرلی گئی تھی ۔ ٢٠٢٣ء میں یہ معاہدہ خود بخود اپنی مدت پوری ہونے پر ختم ہو رہا ہے ۔یہ معاہدہ لوزان جنگ عظیم اوّل کی فاتح قوتوں کے درمیان طے پایاتھا۔ اس وقت صورت حال یہ تھی کہ فاتح قوتیں ترکی کے بڑے حصوں پرقابض تھیں۔ ان قوتوں میں سے برطانیہ نے وہ خطرناک اورظالمانہ شرائط معاہدہ لوزان میں شامل کروائی تھیں جن کی روسے ترکی کے ہاتھ پاؤں باندھ دئیے گئے تھے اور ترکی اگلے سو برس تک اس معاہدہ کونبھاہنے کاپابندقرارپایاتھا۔اس معاہدہ کی رو سے:
۱۔خلافت عثمانیہ ختم کردی گئی تھی اورسلطان کوسارے خاندان سمیت ترکی سے جلاوطن کردیاگیاتھا ۔
۲۔خلافت کے تمام مملوکات ضبط کرلی گئی تھیں جن میں سلطان کی ذاتی املاک بھی شامل تھیں۔
۳۔ریاست ترکیہ ایک سیکولر سٹیٹ ہوگی اس کا دین،خلافت اوراسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوگااس کا باقاعدہ اعلان کیا گیا تھا۔
۴۔ترکی پٹرول کیلئے نہ اپنی سرزمین پراورنہ ہی کہیں اورڈرلنگ کرسکے گااوراپنی ضرورت کاساراپٹرول امپورٹ ہی کرے گا۔
۵۔ باسفورس عالمی سمندرشمارہوگااورترکی یہاں سے گذرنے والے کسی بحری جہاز سے کسی قسم کاکوئی ٹیکس وصول نہیں کرسکے گا(یادرہے کہ باسفورس کی سمندری کھاڑی لنک ہے بحراسود،بحرمرمرہ اوربحرمتوسط کااوراس کی بھی عالمی تجارت میں وہی اہمیت ہے جو نہر سویز کی ہے)
اردوگان ایک سے زیادہ بار واضح کرچکے ہیں کہ ٢٠٢٣ء کے بعد ترکی وہ ترکی نہیں رہے گاکمزوراورمردبیمار۔ہم اپنی زمین سے پٹرول بھی نکالیں گے اورایک نئی نہر بھی کھودیں گے جوبحراسوداورمرمرہ کوباہم ملاکرمربوط کر دے گی اوراس کے بعدترکی یہاں سے گذرنے والے ہربحری جہازسے ٹیکس وصول کرے گا۔

اس صورت حال سے ساری کہانی واضح ہوجاتی ہے کہ مغرب کیوں اردگان کا اتناسخت دشمن ہے اوراس کے اپنے مفادات کس طرف ہیں اوراردگان کیوں ترکی کیلئے ایک پاورفل منتظم اورصدرچاہتاہے۔ترکی کااپنامفاداسی میں ہے کہ امریکی طرزپرصدارتی اختیارات سے لیس ترک فوج کاکمانڈرانچیف اورقوم کااعتماد رکھنے والاصدرہوجوترکی کواس کاآبرومندانہ مقام دلاسکے ۔
 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 349283 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.