دنیا کا کوئی قانون ، کوئی اخلاقیات اور کوئی مذہب اس بات
کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ دہشت گرد جو معصوم اور بے گناہ لوگوں کی جان لیتے
ہیں انہیں قوم کی بیٹی بنا کر پیش کیا جائے اور احسان اﷲ جیسے بدمعاش، ظالم
، بربریت پسند دہشت گرد جس نے نہ جانے کتنی ماؤں کی گودیں اجاڑ یں اور کتنی
بہنوں سے انکے بھائی جدا کئے اور کتنی سہاگنوں کے سہاگ اجاڑئے ہوں انہیں ہر
روز میڈیا پر لا کر ان لوگوں کی دل شکنی کی جائے جنکے د ل ا ٓج بھی اپنے
پیاروں کیلئے تڑپ رہے ہوں ، وہ ہر روز انکے لیے خون کے آنسو روتے ہوں اور
انکے ساتھ ایک بھیانک مذاق کرکے ان دہشت گردوں کیلئے انہیں آزاد کرنے کی
گھناؤنی سازش کی جا رہی ہو ۔ یہ ملک اور قوم کے ساتھ انتہائی جابرانہ اور
ظالمانہ مذاق ہوگا کہ ہماری عسکری اور سول قیادت جس میں رانا ثنا ء اﷲ جیسے
لوگ کالعدم تنظیموں کیساتھ گٹھ جوڑ کرکے اپنے عرصہ حکومت کو دوام دینا
چاہتے ہوں اور ان سے اندرون خانہ اور ببانگ دہل اپنے مفادات کی آڑ میں
ملاقاتیں کرتے پھر رہے ہوں اور ملک اورقوم کو داؤ پر لگا کر اپنی مرضی سے
ستر ہزار سول اور عسکری شہادتوں اور لاکھوں اپاہج ان لوگوں کے قاتلوں کو جب
چاہا معاف کر دیا جائے۔ وہ دہشت گرد جنہیں باقائدہ ٹریننگ دیکر معصوم اور
بے گناہ لوگوں کو مارنے کیلئے تیار کیا جاتا ہے اور وہ اپنی مرضی سے اسلام
کی اس غلط تشریح کے نتیجے میں ان دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہو کر بے گناہ
او ر معصوم لوگوں کا قتل عام کرتے پھریں ہرگز ہرگز اس قابل نہیں ہیں کہ
انہیں معاف کردیا جائے۔ اسلام نے کہیں بھی اس بات کی اجازت نہیں دی کہ ایسے
مجرمین کو انکے جرائم کے بدلے میں معاف کر دیا جائے او ر انہیں سزائیں نہ
دی جائیں۔ اگر دیکھا جائے تو کوئی بھی پیدائشی طور پر قاتل، ڈاکو، دہشتگرد
یا پھر بدمعاش نہیں ہوتا وہ سب کچھ اس معاشرے سے ہی سیکھتا ہے اور اگر وہ
لوگوں کو قتل کرتا پھرے اور اسے یہ کہہ کر چھوڑدیا جائے کہ وہ اس معاشرے کے
بچے ہیں اور غلط راستے پر چل نکلے تھے انہیں معاف کردیا جائے تو یہ ان
لوگوں کیساتھ جنکے پیارے اس دنیا سے انکی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ کر عمر
بھر کیلئے ان سے چھین لئے گئے ایک بہت بڑی نا انصافی ہوگی اور جرائم کی
پردہ پوشی کے علاوہ جرائم پیشہ اور دہشت گرد عناصر کے عزائم اور انکے اصل
مقاصد کو تقویت دینے کے مترادف ہوگا۔ اگر ایساہی ہے تو پھر سب قاتلوں، دہشت
گردوں اور ڈاکوؤں کو چھوڑ دیا جائے اور تربیت گاہوں میں انکی تربیت کرکے
معاشرے کا اچھا انسان بنا یا جائے۔اس خود ساختہ قانون کو ہر مجرمانہ ذہنیت
رکھنے والے پر اپلائی کیا جائے تاکہ معاشرہ جنت نظیر بن جائے۔ دہشت گردوں
کو معصوم ظاہر کرکے انکے لئے معافی کی راہ ہموار کرنا بذات خود ایک بہت بڑا
جرم ہے جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جائیگا جو قانون کیساتھ ایک بھیانک
کھلواڑ اور بہت بڑا مذاق ہے۔ ہم انہیں دہشت گردوں کا سہولت کار سمجھتے ہیں
جو انہیں میڈیا پر پیش کرکے لوگوں کواپنی چکنی چپڑی باتوں کا لولی پاپ دیکر
خاموش کروانا چاہتے ہیں ۔ پوری قوم چند ہاتھوں میں یرغمال ہو کر اپنے
پیاروں کا قصاص کبھی بھی معاف نہیں کریگی۔ہمیں اپنی غلطیوں سے سیکھنا چاہئے
نہ کہ ہم ان غلطیوں کو بار با دہرا کو دہشت گردوں کے حو صلے بڑھاتے رہیں جو
نا قابل برداشت ہوگا۔
نورین جبار لغاری جسکا باپ جبار لغاری کیمیسٹری کا پروفیسر ہے اسکے بارے
میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ بھی انتہاء پسندی کی طرف راغب ہے اور اور وہ مسلسل
غلط بیانی سے کام لیتا رہا کہ اسکی بیٹی اغوا ہو چکی ہے حالانکہ وہ یہ
جانتا تھا مگر نہ جانے اسنے یہ بات کیوں چھپائے رکھی اسکی تحقیق ہونا بھی
بہت ضروری ہے۔ نورین کے والد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ وہ بھی خلافت
کے حامی ہیں اور اپنے گاؤں میں دوسرے لوگوں کیساتھ اس بات کا رجحان رکھتے
ہیں اسکے والد کو سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود اسنے کسی پر یہ با ت
اشکارنہیں کی کہ اسکی بیٹی نورین دہشت گرد تنظیم داعش میں شامل ہو چکی ہے
اور اسطرح وہ پولیس کو برابر دھوکہ دیتا رہا اسلئے کہ اسے اس تنظیم سے
ہمدردی تھی اور اسے پیسے ملنے کی بھی توقع تھی۔ 10فروری کو لا پتہ ہونے
والی نورین اپنے بیان میں ٹی وی پر خود آ کر اس بات کا اقرار کرتی ہے کہ
اسنے سوشل میڈیا سے متاثر ہو کر دہشت گرد تنظیم میں اپنی آزاد مرضی سے حصہ
لیا اس بات کو تصدیق محکمہ انسداد دہشت گردی نے بھی کی ہے کہ وہ گرفتار
ہونے سے 6 روز پہلے شام میں داعش کے کیمپ میں ٹریننگ حاصل کرکے آ ئی تھی۔
اور وہ شام میں دو ماہ تک رہی ہے اس بات میں کتنی سچائی ہے یہ ان اداروں پر
منحصر ہے۔ نورین اپنے بیان میں کہتی ہے کہ مجھے کسی نہ اغو انہیں کیا تھا ۔
جبکہ اسکے بھائی کا بیان ہے کہ اسے اغوا کیا گیا تھا جو شکوک و شبہات پیدا
کرتا ہے۔ ایک میڈیکل کی طالبہ اتنی معصوم نہیں ہوتی جتنا ہماری عسکری اور
سول قیادت اسے معصوم بنا کر میڈیا پر ہر روز پیش کر کے دہشت گردی میں مارے
جانے والے شہداء کے لواحقین کی چھاتی پر مونگ دل رہی ہے۔ ہمارے آئی ایس پی
آر کے ڈی جی فرماتے ہیں کہ میں میڈیا کے توسط سے یہ پیغام دینا چاہوں گا کہ
یہ ہمارے بچے ہیں جو یوتھ ورلڈ ہے یہ ہماری طاقت ہے ہم ہمیشہ یہ بات کرتے
ہیں کہ جب ان دہشت گردوں کا ٹارگٹ یہ یوتھ بن جائیگی تو آپ اندازہ کر سکتے
ہیں کہ اسکا کیا اثر پاکستان پر ہو سکتا ہے۔ یہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری
ہے کہ ہم اپنے بچوں پر اس خیال سے نظر رکھیں کہ انکی کیا مصروفیات ہیں ۔
بچے ہماری قوم کی ملکیت ہیں انکا خیال کرنا ہماری ذمہ داری ہے ۔ اسکو (
نورین لغاری) کو ہم نے انکے (دہشت گردوں) کے چنگل سے چھڑایا ہے اور انشاء
اﷲ اسکو Rehabilitateکرینگے اور ہم خواہش کرینگے کہ جو ہماری یوتھ ہے وہ اس
قسم کی حرکات پر نظر رکھے۔ ہم ڈی جی آئی ایس پی آر کے اس بیان سے اتفاق
نہیں کرتے اور انکے بیان کو رد کرتے ہوئے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر نورین
جیسی دہشت گرد خاتون جس نے علی طارق نامی، اور محمد علی نامی داعش کے دہشت
گرد سے شادی بھی رچا رکھی تھی نہ صرف یہ بلکہ دہشت گردوں نے اسے لاہور کے
ایک مکان میں رکھ کر ہر رات اسکے ساتھ کوئی نہ کوئی دہشت گرد نکاح رچاتا
اور اس کے جوان جسم سے کھیلتا رہا ۔نورین نے نہ صرف جنسی خواہش کی تکمیل کی
بلکہ اسنے ان دہشت گردوں سے مل کر ایسٹر کے موقع پر چرچ پر خود کش حملہ
کرنے کا پروگرام بھی بنا رکھا تھا جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ نورین
مکمل طور پر سب کچھ اپنی رضا مندی سے کر رہی تھے ۔ اگر بر وقت کارروائی عمل
میں نہ لائی جاتی تو ایک بہت بڑا خونی حاد ثہ ہونے کا قوی امکان تھا۔ اسے
اس جرم کی پادا ش میں پھانسی دی جائے کیونکہ وہ اپنے کالج میں بھی دوسری
لڑکیوں کو تبلیغ کرکے انہیں دہشت گردی کیلئے اکساتی رہی اور انہیں دعوت
دیتی رہی جو ہمارے آئین کی رو سے ایک بہت بڑا نا قابل معافی جرم ہے۔ نورین
جسے ہر روز معصوم بنا کر لوگوں کی توجہ ہٹانے کی اور انکے اذہان کو تبدیل
کرنے کی کوشش کی جارہی ہے شاید یہ لوگ بھول چکے ہیں کہ نورین ایک انتہائی
چالاک اور شاطر خاتون ہے جسنے ہر طرح کی دہشت گردی کی ٹریننگ حاصل کی اگر
یہ اتنی ہی معصوم تھی تو اسنے اپنے ساتھ ہونے والی اس تمام کارروائی کا ذکر
اپنے گھر والوں کیساتھ کیوں نہ کیاجبکہ وہ اپنے بھائی کو میسج بھی کرتی ہے
کہ وہ خوش ہے کہ وہ خلافت کی سر زمین پر قدم رکھ چکی ہے۔ ہماری عسکری اور
سول قیادت اس سے نظریں کیوں چرا رہی ہے؟ وہ کونسے حالات ہیں کہ اسے معاف
کرکے آزاد چھوڑا جا رہاہے؟؟ قوم ایسے دہشت گردوں کو ہرگز ہرگز معاف کرنے کو
تیار نہیں ہے جنہوں نے ہمارے لاکھوں لوگوں کو اپاہج اور ہزاروں لوگوں کو
شہید کر دیا۔ پوری قوم اسکی پھانسی کی منتظر ہے ۔قوم نے دہشت گردی کی اس
جنگ میں بہت کچھ کھویا ہے اور اب وہ ہر اس سازش کیخلاف سینہ سپر ہو کر کھڑی
ہوگی جس میں قانون نافذ کرنے والے ادارے قوم کو دھوکہ دینے کی کوشش کرینگے۔
اس طرح نہ صرف قوم اپنے اداروں پر اعتماد ختم ہو جائیگا بلکہ دہشت گردی کو
اور ہوا ملے گی اور دہشت گرد مذید مضبوط ہونگے۔ ہمیں حقیقت کی عینک لگا کر
سب کچھ انتہائی عقلمندی اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بر وئے کار لا کر
تمام درپیش خطرات کے بارے میں دیکھنا ہوگا۔ ورنہ ہم دہشت گردی سے جان نہیں
چھڑوا سکینگے کیونکہ کسی بھی قسم کی رعایت ہمارے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی
ہے۔لہٰذا ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان دہشت گردوں کو جتنی جلد ہو کسے انکے
خلاف مقدمات چلا کر انہیں انکے انجام تک پہنچایا جائے تاکہ قوم میں قانون
نافذ کرنے والے اداروں کے بارے میں پائے جانے والے شک و شبہات کو مذید
تقویت نہ ملے۔ |