’’احسانی‘‘ اعترافات اور استحکام پاکستان

پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے آج تک ظاہری اور پوشیدہ دشمنوں کی ہر ممکن کوشش رہی کہ اسے عدم استحکام کا شکار کیا جائے۔ لاالہ الا اﷲ کی بنیاد پر حاصل ہونے والے اس ملک میں لادینیت، بدامنی اور انتشار پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا۔ وطن عزیز کے کچھ ازلی دشمن اور بدخواہ اب بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ یہ زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکے گا۔ کبھی تو اس کے ٹوٹنے اور تقسیم در تقسیم کی تاریخیں بھی دے دی جاتی ہیں۔ اپنے اس فرسودہ خیال کو سچ ثابت کرنے کیلئے ہرسطح پر ان کا کام جاری ہے۔نئی نسل کے اخلاق کو تباہ کرنے کیلئے فحاشی اور عریانی پھیلانے کیلئے کافی حد تک کامیاب کوششیں کی جاتی ہیں ہیں اور کبھی فرقہ واریت کو ہوا دینے کیلئے سازشوں کے جال بنے جاتے ہیں۔ اسلامیان پاکستان کے عقائد و اعمال کی جڑیں کھوکھلی کرنے کیلئے سوشل میڈیا کے ذریعے الحادی فتنے پیداکیے جا رہے ہیں۔ ا مریکی انڈے سے نکلنے والے نومولود بچے’’افغانستان‘‘ کی دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت کے چمن بارڈر پر بزدلانہ کاروائی اور ایرانی جنرل کی دھمکیاں بھی اسی عالمی سازش کا حصہ ہیں۔ بظاہریہ تمام کاروائیاں غیر اعلانیہ طور پر اور خفیہ انداز میں کی جاتی ہیں۔ نائین الیون کے بعد جب امریکہ نے افغانستان کے خلاف جنگ شروع کی تو جنرل حمید گل مرحوم نے ایک ٹی و پروگرام میں مختصر مگر دلچسب تبصرہ کیا تھا کہ ’’نائین الیون بہانہ، افغانستان ٹھکانہ اور پاکستان نشانہ ہے‘‘۔گزشتہ دنوں دہشت گردوں کے سابق ترجمان احسان اﷲ احسان کے اعترافات سے بھی اسی حقیقت کا پتہ ملتا ہے۔ اس نے اپنے وڈیو اعترافی بیان میں کہا کہ ’’ ٹی ٹی پی نے اسلام کے نام پرنوجوانوں کو گمراہ کیا اور اپنے ساتھ ملایا حالانکہ یہ لوگ خود بھی اسلامی تعلیمات پر پورا نہیں اترتے۔ بقول اس کے اسلام کے یہ ٹھیکیدار لوگوں سے بھتہ لیتے، دھماکے کرواکے بے گناہ لوگوں کو قتل کرتے اور اس کی قیمت بھارتی ایجنسیوں سے وصول کرتے۔ اس نے بتایا کہ باہر کی ایجنسیاں ہی پاکستان میں خون خرابے کی کاروائیوں کے اہداف بھی مقرر کرتیں ۔ قرعہ اندازی کے ذریعے ایسے شخص کو امیر مقرر کیاگیا جو زبردستی اپنے استاد کی بیٹی کو ساتھ لے گیا اور اس سے شادی رچالی۔ اس کے بقول جب ظالمان کے کمانڈر خالد عمر خراسانی کو اس بات کا احساس دلایا کہ ہم افغانستان میں بیٹھ کر ، بھارت سے فنڈز لیکر اپنے ہم وطنوں کا خون کر رہے ہیں جو کہ اسلامی نکتہ نظر سے انتہائی غلط ہے۔ تو خراسانی نے جوابا کہا کہ پاکستان میں تباہی پھیلانے کیلئے مجھے اسرائیل سے بھی مدد لینی پڑی تو لے لوں گا‘‘ اس اعترافی بیان سے ان تمام خدشات اور شکوک و شبہات کی تصدیق ہوگئی جو عرصہ دراز سے ہر محب وطن پاکستانی کے ذہن میں گردش کر رہے تھے۔ وہ مذہبی طبقات جو ان طالبان سے مسلکی ہم آہنگی یا کسی غلط فہمی کی وجہ سے نرم گوشہ رکھتے تھے، انہیں بھی اب خاموشی توڑ کر بر ملا ان ظالمان کی مذمت کرنی چاہیے۔ کیوں کہ جس دین اسلام کو ہمارے پیارے نبی ﷺ نے ہم تک پہنچایا اس میں ایسی دہشت گردانہ کاروائیوں کی ہر گز گنجائش نہیں ۔ ہماری حکومتوں کی بزدلانہ ہومیوپیتھک پالیسیوں نے بھی دہشت گردی کو پنپنے میں مدد دی۔ اچھے اور برے طالبان کی تقسیم کرکے ان سے نرم رویے رکھے جس سے انہیں مزید کاروائیوں کیلئے تیار ہونے کے مواقع مل گئے۔جب طالبان نے ملک میں بے گناہ لوگوں کو قتل کرکے تباہی مچائی ہوئی تھی تو اس وقت کچھ سیاسی عمائدین اور میڈیا کے لوگ طالبان کو بچا کر سارا ملبہ’’ بلیک واٹر ‘‘پر ڈال رہے تھے۔ان کے پیچھے ماسٹر مائینڈ کو ئی بھی ہو، بظاہر استعمال ہوکر کاروائیاں کرنے والے تو یہی غدار وطن اور دشمن عوام ہی تھے ۔ انہوں نے دغابازی کے ذریعے حکومت کے ساتھ کئی معاہدے کیے۔ حکومتی نمائندوں نے ان کے گلے میں ہار تک ڈالے۔ اس طرح موقع پا کر انہوں نے اپنے آپ کو مضبوط کیا ۔ ان میں سے شکئی معاہدہ، سوات معاہدہ، شمالی وزیرستان معاہدہ اور سراروغہ معاہدے وہ ہیں جو کہ میڈیا کی آنکھوں کے سامنے ہوئے۔ 2014 کے شروع میں جب حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا اعلان کیا تھا تو اس وقت راقم الحروف نے ایک کالم بعنوان ’’ طالبان کیساتھ مذاکرات۔۔ تحفظات‘‘ لکھاتھا جو روزنامہ جنگ لندن میں بروز جمعۃ المبارک مورخہ7 مارچ 2014 کو شائع ہواتھا۔جن خدشات کا اظہار ہم نے اس وقت کیاتھا،احسان اﷲ احسان کے اعترافات نے انہیں سچ ثابت کردیا۔ چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں۔

’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ معاملات مذاکرات سے حل ہوں تو ملک و ملت کی بہتری اسی میں ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس کے مذاکرات کس سے؟ جب گن شپ ہیلی کاپٹر، سرجیکل سٹرائیک کرتے ہوئے ان قاتلوں کے ٹھکانوں پر حملہ آور ہوتے ہیں تو ISPR یا حکومت کی طر ف سے بیان جاری ہوتا ہے کہ ہم نے دہشت گردوں کے اتنے ٹھکانے تباہ کردئیے لیکن جب مذاکرات کا باب کھلتا ہے تو انہیں کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ’’ طالبان‘‘ سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ قوم کو کیوں دھوکا دیا جا رہا ہے، یہ کیوں نہیں کہا جاتا کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کیے جارہے ہیں اگر ان کے ٹھکانے تباہ کریں تو’’ دہشت گرد‘‘ اور بات مذاکرات کی چھڑے تو’’ طالبان‘‘۔ عجب منطق ہے سمجھنے کی نہ سمجھانے کی‘‘۔’’سامراجی قوتوں کے تسلط کے خلاف برسرپیکار ہونا تو حب الوطنی کی علامت ہے لیکن جس ملک کے پروردہ اور باسی ہوں اسی کے معصوم اور بے گناہ شہریوں کے لئے خود کش حملوں اور دیگر دہشت گردی کے ذرائع استعمال کر کے قتل و غارت کا بازار گرم کرنا اور پھر اتنی دیدہ دلیری کہ میڈیا پر آکر بڑے فخر سے اعلان کرنا کہ آج ہم نے اتنے ہم وطنوں کا خون کیا ہے، یقینا یہ لمحہ فکر یہ ہے۔تعجب خیز بات یہ ہے کہ بظاہر کوئی باہر کی سامراجی اور حملہ آور قوت نہیں بلکہ خود اسی ملک کے نمک خوار باشندے اور پاسپورٹ ہولڈر ہی اپنے ہم وطنوں کا خون بہار ہے ہیں ۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ان انسان نما بھیڑیوں کے دل پتھر ہوچکے ہیں جو کہ احترام مسلم تو کجا، انسانی اقدار کو سمجھنے سے بھی بے حس ہیں۔ یہ تو اسلام کے نام پر ایک بدنما دھبہ ہیں۔ ان کے اوصاف اور کرتوت حدیث ’’خوارج‘‘ میں حضور اکرم ﷺ نے تفصیل سے بیان فرمائے ہیں‘‘۔ ’ ’علاوہ ازیں ان بزعم خویش طالبان نے واضح طور پر کہا تھا کہ یہ آئین پاکستان غیر اسلامی ہے اور اس کی کسی ایک شق کو بھی ہم اسلامی نہیں سمجھتے۔ حکومت وقت سے ہمارا سوال ہے کہ کیا اب انہوں نے اپنے الفاظ واپس لے لئے ہیں اور آئین پاکستان کو ماننے پر تیار ہیں یا یہ کہ آپ ذاتی مصلحتوں کا شکار ہو کر قوم کو دھوکہ دے رہے ہو ۔ یقینا جنگ وجدل اور خون خرابہ سے چھٹکارہ کسی بھی صورت ممکن ہو، وقت کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن یاد رکھیں آئین پاکستان کی حرمت ریاست پاکستان کی سا لمیت اور پاک آرمی کے وقار کو داؤ پر لگا کہ آپ نے کوئی بھی قدم اٹھایا تو اس کے دو رس اور بھیانک نتائج برآمد ہوں گے‘‘۔ ( اقتباس از۔ روزنامہ جنگ لندن مورخہ7 مارچ 2014 بروز جمعۃ المبارک)
 

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 218621 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More