چور کھائیں چُوریاں٬ ان کے پیٹ میں پیڑ

90کی دہائی میں ایک فلم آئی جو مشہور ہوئی تب بہت سے لوگوں کو اس کی معنویت کا اندازہ نہیں تھا گو کہ ان دنوں میں بھی مسٹر ڈیزل، مسٹر 10%جیسے کریکٹر موجود تھے ۔ فلم کا نام تھا ’’چور مچائے شور‘‘ یعنی ایک ایسا شخص جو خود چور ہو اور دوسروں کی چوری پر شور مچائے ۔مثال کے طور پر عام آدمی کی سمجھ کیلئے یہ کہا جاسکتاہے کہ اپنی نیازی سروسز آف شور کمپنی رکھنے والے پانامہ پہ شور مچائیں سرِ محل رکھنے والے رائے ونڈ محل پہ شور مچائیں یا جہانگیر ترین ، شاہ محمود جیسے زمیندار غریب حاریوں کی بات کریں ۔ تو اسے کہا جائے گا’’ چور مچائے شور ‘‘لیکن سیاست کے Canvesپہ موجود چہرے درحقیقت اپنا ایک دوسرا رُخ بھی رکھتے ہیں جسے 2018کے انتخابات سے پہلے سمجھنا اور سمجھانا ضروری ہے۔ ہماری تاریخ تضادات کا ایک ایسا مجموعہ ہے جس میں حقیقت نامی شے کہیں نظر نہیں آتی ۔ بھٹو قاتل تھا یا شہید ، ضیاء الحق امیر المومنین تھے یا بدترین آمر ، الطاف حسین ، ولی خان اچکزئی ، غفار خان باغی تھے یا قومی رہنما۔ اکبر بگٹی محب وطن پاکستانی تھا یا غدار ۔ ایوب خان فاطمہ جناح کے مجرم ہیں یا فاطمہ جناح مقدس گائے کے آگے سر اُٹھا نے والی خاتون ان سارے سوالوں کا جواب کسی مصور کی اس ادھوری تصویر کی طرح ہے جو وہ مکمل کرنے سے پہلے ہی وفات پا چکا ہو۔ اسی تاریخ کا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے آج بھی ہر رہنما اپنے مفاد کا کھیل کھیل رہا ہے ۔ ان میں سے چند چیدہ شخصیات کے قوم کے ساتھ کھیلے گئے کھیل کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر انہیں آرٹیکل62,63کے ترازو میں رکھ کر تولتے ہیں کہ یہ کس قدر مجرم ور معصوم ہیں ۔

شریف برادران
میاں محمد شریف کے صاحبزادگان نواز شریف اور شہباز شریف خاندانی رئیس اور نفع بخش کاروباری شخصیت کے چشم و چراغ ہیں ۔ مرحوم ضیاء الحق نے انہیں سیاست کے میدان میں اُتارا یعنی یہ بھی ذوالفقار علی بھٹو کی طرح گیٹ نمبر4سے آئے اور چھا گئے ۔ فوج کی نرسری میں جمہوریت کے عہدے کسطرح پروان چڑھتے ہیں یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن شریف برادران 80سے 99تک اسلام کے لبادے میں لپٹے نظریاتی مسلم لیگی رہنما تھے جویہاں قرآن و سنت کا نظام چاہتے تھے لیکن پھر جب روشن خیالی کی ہوا چلی تو ان کایہ منافقانہ لبادہ اُتر گیا ۔ آج ان کی حکومت میں ممتاز قادری کے جنازے کا بلیک آؤٹ کیا جانا ڈان لیک تبلیغی جماعت پر کالجوں میں پابندی، قرآن و سنت کے منافی اقدامات، روشن خیال مافیا کی سرپرستی، مذہبی رجحانات رکھنے والوں سے عداوت، بھارت نوازی، قول وفعل میں تضاد ، کچن کیبنٹ ، عوام سے دوری، مشیروں کے چنگل میں مقید ان کی سیاسی زندگی ، معذوروں مجبوروں ، لاچاروں ، بیماروں پر عدم توجہ، سرمایہ داروں پہ پوری پوری توجہ، غریب کا پانی بجلی ، گیس ، سکول ، ہسپتال مشکل امیر کیلئے سب اچھا یہ ان کے کارہائے نمایاں ہیں ۔ جنہیں دیکھنے کے بعد بھی اگر کوئی انہیں صادق اور امین سمجھتا ہے تو پھر اس کی عقل پہ پڑے پردے کو ہٹانا ہمارے بس کا کام نہیں یعنی یہ کہ آپکی اصل شناخت کچھ نہیں آپ قوم کو بے وقوف بنانے کیلئے ضرورت، وقت اور حالات کے مطابق کوئی بھی روپ اختیار کر سکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ تاریخ آپکو امیر المومنین بادشاہ سلامت روشن خیال، لبرل آزاد خیال لکھنے کا سوچے گی ۔ مگر آپ کے بدلتے رُخ دیکھ کر یا تو مؤرخ مرضی کا نام دے دے گا یا جگہ خالی چھوڑ دے گا کیونکہ گرگٹ کا اپنا کوئی روپ نہیں ہوتا موقع پرست ہوتا ہے رنگ بدلتا رہتا ہے ۔

آصف علی زرداری:ـ-
لوگوں کی عمدہ کارکردگی تعلیم ، ویژن ان کی نمایاں خصوصیت ہوتی ہے مگر موصوف کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ 11سال جیل میں رہے آصف زرداری کی بھٹو خاندان میں بطور داماد انٹری کوئی فلمی کہانی سے کم نہیں بھائیوں کی مخالفت کے باوجود بی بی کا آصف علی زرداری سے نکاح کرنا اور پھر بد ترین مخالفت کرنے والے سالے کا بے نظیر کے دور میں قتل ہونا سوال تو جنم لیتے ہیں پھر اچانک بے نظیر کا قتل ہونا راتوں رات وصیت کا آنا ، بلاول کا زرداری کے بجائے بھٹو بننا ، نصرت بھٹو کی پراسرار وفات محض پاکستان کھپے کا نعرہ دے کر بے نظیر کی وفات کے بعد تاریخی لوٹ مار کہ جس کا آج تک کسی نے نہ حساب لیا نہ مانگا پھر اقتدار اور اس کے پانچ سال مسٹر 10%سے شروع ہونے والا یہ سفر کہ جس میں ہمیں دکھایا جاتا تھا کہ کس طرح زرداری کے گھوڑے مربے کھاتے ہیں میمو گیٹ سمیت بے شمار سکینڈلز لئے مکمل ہوا۔ عزیر بلوچ کے انکشافات کے نتیجے میں اور ڈاکٹر عاصم پر کی جانے والی تفتیش کے بعد اگر آج آصف زرداری جرم ،کرپشن ،قتل و غارت، غربت، افلاس پر شور مچاتے ہیں تو یہ قیامت کی نشانی ہے۔ آصف زرداری کے ایماندار ی کے لیکچرز ایسے ہی ہیں جیسے ہلاکو ، چنگیزیا ہٹلر امن کی بات کریں لیکن یہ ذہین فطین سیاسی رہنما یہ جانتے ہیں کہ ہماری قوم نہایت بھولی اور بے وقوف ہے ہم اتنے لئی لک ہیں ایک کینیڈین شہری جب یہاں چند مہینے کیلئے آکر سیاست کے سٹیج پر ڈرامہ کرتا ہے تو ہم اس کا چورن بھی بکوا دیتے ہیں تو یہ موصوف تو بڑی تعداد میں اپنے حاری اور مزارع رکھتا ہے جنہیں تربیت ہی یہی دی گئی کہ سائیں کاحکم بھی سائیں خود بھی سائیں اور سائیں کے آگے نہیں کوئی سائیں ۔ لیکن اس قوم کے اہل عقل کو آصف زرداری کے مجموعی قومی کردار کا جائزہ لے کر تیر پر مہر لگا تے ہوئے سوچنا ہوگا کہ کہیں پھر چوروں کے ہاتھ میں چوکیداری دے کر ہم اپنے وطن کی گلیوں کو آوارہ غنڈوں کے حولے تو نہیں کر رہے ۔ روٹی کپڑا اورمکان کے جھوٹے نعرے دینے والے ان رہنماؤں کے پاس ہمارے لیے بابا لاڈلہ ، عزیر بلوچ، پپو، کے ٹو، لنگڑا، ماما، چاچا، دادا توہے مگر کوئی فلاحی منصوبہ نہیں ۔ اس لیے انہوں نے اپنے ذاتی مفاد، سوئز بینک بھرنے کیلئے لچھے دار تقریروں کے ذریعے پھر ہمیں بے وقوف بنا کر پرانی بوتل میں نئی شراب بیچنی ہے ۔ خدارا! ہوشیار رہنا پھر نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی ۔

عمران خان یا الزام خان کسی زمانے میں یہ ایک کرکٹر تھا جس پر پاکستان سمیت دنیا بھر کی لڑکیاں مرتی تھیں 1992کے ورلڈ کپ میں وسیم ، انضمام،معین اورمیانداد کی کارکردگی سے ہم نے ورلڈ کپ جیتا اور موصوف ہیر وبن گئے ۔ یہ قومی ہیرو ورلڈ کپ سے پہلے نیازی سروسز لمیٹڈ نامی آف شور کمپنی قائم کرکے کالے دھن کو سفید کرنے کاکام شروع کرنے کے ساتھ ساتھ شریف برادران سے پلاٹ بھی ہتھیا چکے تھے جبکہ ایک رفاہی منصوبہ جو موصوف چلارہے ہیں اس کا ابتدائی چندہ جو اچھی خاصی رقم ہے شریف برادارن نے دیا۔ گولڈ سمتھ ایک یہودی تاجر تھے جنہوں نے اپنی بیٹی جمائمہ عمران خان کو دی ۔ جمائمہ کے بھائی آج بھی فرینڈز آف اسرائیل کے نام سے ایک ادارہ چلا رہے ہیں جس کے بینر تلے موصوف لندن کے میئر صادق خان کے مقابلے میں اپنے سالے کی سپورٹ میں کھڑے تقریر کرتے دیکھے جاسکتے تھے۔ شادی ناکام ہوئی جوا ن کا ذاتی معاملہ ہے ۔پھر چند مخلص اور محب وطن افراد کے ساتھ مل کر انہوں نے PTIکے نام سے ایک جماعت بنائی اس جماعت کے تمام بانیان اب یا منحرف ہیں یا خاموش ہیں ۔ اس جماعت کے غبارے میں اچانک کسی نادیدہ قوت نے ہوا بھری او رپھر یہ اچانک بڑھنے لگے ان کے بڑھنے کے ساتھ ہی گالم گلوچ، بدتہذیبی ،بداخلاقی، بے حیائی اور الزم تراشی کی روایات تیزی سے عام ہونے لگیں ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک بال پر کئی وکٹیں اُڑائیں گے لیکن ان کی اپنی گیم کایہ حال ہے کہ جمائمہ کے بعد ریحام خان کے ہاتھوں بھی کلین بولڈ ہوگئے ۔ چشمِ تصور سے ملاحظہ کیجئے عمران خان کی آئیڈیل ٹیم کے کھلاڑی علیم خان، جہانگیر خان، شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک ، راجہ ریاض، نعیم الحق ، لیاقت جتوئی وغیرہ وغیرہ ۔آخر خان صاحب کے پاس وہ کون سا فلٹریشن پلانٹ ہے جہاں یہ آزمائے ہوئے کھلاڑی آکر ریفریش ہوجاتے ہیں اور کہاں ہیں وہ جو اس جماعت کے بانیان تھے مجیب الدین احمد کہاں اور کیوں گئے؟ ان کی شکست کی وجہ نااہل لوگوں کو ٹکٹس دینا تھا ۔ کیانواب ظہیر الدین صاحب نے 4سال جو اس حلقے میں کیا اب وہ جیت سکیں گے ؟ پھر ہمیشہ دھاندلی پانامہ وغیرہ وغیرہ محض شور مچانا عدالتوں اداروں افراد سب کو برا بھلا کہنا خود کو اچھا جاننا جو رہنما اپنی جماعت کی سمت سیدھی نہیں کر سکا اپنے کارکنوں کو ٹرینڈ نہیں کر سکا وہ پاکستان کے ساتھ کیا کرے گا؟ 20کروڑ لوگوں کو انصاف دینے سے پہلے امریکی عدالت کے فیصلے کے مطابق سیتا وائٹ کو انصاف دے باقی اہل عقل کی مرضی کہ وہ انہیں یہ سوچ کر آزما لیں کہ چلو چیک کرتے ہیں ۔ نظام حکومت و سلطنت کوئی گڈی گڈے کا کھیل نہیں کہ محض چیک کرنے کیلئے کسی کو دے دیا جائے۔ بلے کو پسند کرنے والے بلے پرمہر لگا کر اگلے 5سال برباد کرنے کے بجائے کسی سپورٹس شاپ سے بلا خرید کر عمران عمران لکھ کر اپنا جنون پورا کر لیں یا پھر اگلے پانچ سال اپنی تمام تر اقدار و روایات کا جنازہ پڑھنے کیلئے تیار رہیں ۔ عمران خان کی سیاسی تصویر کا یہ دوسرا رُخ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو صادق اور امین کہلانے کے قابل نہیں چھوڑتا لیکن پھر بھی وہ اڑے ہیں اس ضد پہ کہ جو ہمارے ساتھ وہ ہی صرف صاف باقی جتنے انڈے سارے گندے۔

جنرل (ر)پرویز مشرف : -
کئی سینئر جنرلزکو سُپر سیڈ کرکے جنرل مشرف کو آرمی چیف بنانے والے میاں نواز شریف انہی کے ہاتھ سے جلا وطن ہوئے اور مخمل سے جیل تک کا سفر طے کیا۔ 10سال تک سیاہ و سفید کے مالک اس فوجی آمر نے جہاں انگنت ٹی وی ریڈیو کے لائسنس جاری کئے ٹیلی کام سیکٹر میں نئی کمپنیاں متعارف کراوائیں آٹو موبائل انڈسٹری IT.میں ترقی کی ہوئی اور ملک مالی طور پر مستحکم ہوا وہیں مشرف ہی تھا جس کے دور میں اکبر بگٹی کا قتل عدلیہ کے ججز کی گرفتاری چیف جسٹس کی معزولی ، سانحہ لال مسجد، بینظیر کا قتل سمیت ایسے بد ترین تاریخی کام ہوئے جو آج بھی لوگوں کو یا دہیں ۔ کراچی کے وکلاء پر MQMکے تشدد پر مُکا لہراکر وکٹری نشان بنانے والا یہ سابق حکمران جو کارگل کی بہادری اور انڈیا کو آنکھیں دکھانے کی وجہ سے ظاہر۱ًمشہور ہے لیکن درحقیقت ایک دن عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوا۔ بیماری کا بہانہ بنا کر بیرون ملک مقیم ہے اور ا س وہم میں مبتلا ہے کہ قوم کی خاموش اکثریت میرے ساتھ ہے جو پھر خاموشی سے مجھے حکمران بنا دے گی۔ جنرل مشرف مصنف تجزیہ نگار اور لیکچرار بھی بن چکے ہیں یعنی ان کا ہر چورن صحیح بک رہا ہے اور ویسے بھی ایک سول حکومت کی کیا جرأت اور اوقات کہ وہ کسی ڈکٹیٹر کا محاسبہ تو دور اسے آنکھیں بھی دکھا سکے اس حکومت نے یہ حماقت کرنے کی کوشش جب کی تو سیاسی اداکاروں کے ذریعے 126قیمتی دن برباد کردئیے گئے ۔ آج بھی ان کے خلاف عدالتوں میں مقدمات زیر التوا ہیں امید ہے کہ کسی NROیا مفاہمت کے ذریعے کلین چٹ پاکر 2018کی اسمبلی میں ان کا کوئی نہ کوئی رول ضرور رکھا جائے گا۔

چوہدری برادران:-
مرحوم چوہدری ظہور الہٰی کا خاندان صحیح معنوں میں نظریاتی مسلم لیگی خاندان ہے جس کے سپوت چوہدری شجاعت حسین مسلم لیگ ق کی بنیاد رکھی جو 5سال تک پاکستان میں حکمران رہی اس دوران پرویز الہٰی کی پنجاب میں کارکردگی بھی وزیر اعلیٰ سے بہتر قراردی جاسکتی ہے ، 1122، امراض قلب کے ہاسپٹلز، اسپیشل ایجوکیشن کے سنٹر کا تحصیل لیول پہ قیام ، تعلیم کے مفت مواقع، مفت کتابیں، زرعی اقدامات ، بہترین مقامی حکومتی نظام اس کی چندمثالیں ہیں اگر کسی حکمران نے نچلی سطح پر عوام کیلئے کوئی عملی کام کیا تو وہ بلاشبہ پرویز الہٰی تھے لیکن چوہدری برادران کا ایک دوسرا رخ بھی ہے کہ یہ اپنا ووٹ بینک صرف اسٹیبلشمنٹ کو سمجھتے ہیں اور نہیں کے کندھوں پہ ایوانوں تک پہنچنا چاہتے ہیں ۔ق لیگ کا جو صفایا 2008کے انتخابات میں ہوا وہ نہایت عبرتناک تھا اور شاید 2013میں بھی اس جماعت کو شمالی پنجاب میں ہی پذیرائی ملے لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ اچھا اتحادی یا کسی کی نظرِ کرم ان کے سیاسی حالات بہتر کردے اور چوہدری برادران کو اس امور سلطنت کے فریم میں کہیں فٹ کر لیا جائے حالانکہ مؤنس الہٰی بھی کئی کیسز میں عدالتوں کو مطلوب ہے ۔ مصطفیٰ کمال، ڈاکٹر عبدالقدیر خان ، افتخار محمد چوہدری وہ شخصیات ہیں جنہوں نے موقع ملنے پر قوم کو ڈلیور کیا اور اگر انہیں موقع ملا تو شاید یہ پھر بھی ایسا ہی کریں گے لیکن مفادات سے عاری شہداء کے لہو کے وارث پاکستان کے قابل فخرسابق سپہ سالار اور اسلامی افواج کے پہلے سپہ سالار جنرل راحیل شریف وہ شخصیت ہیں جو قول و فعل کے تضاد سے آزاد شخصیت کے مالک ہیں اور شاید قومی نجات دہندہ بھی ۔ اس تحریر کا قطعاً مقصد اپنی پسند یا ناپسند کا اظہار کرنا سیاسی شخصیات کی کردار کُشی یا ان کے چاہنے والوں کا دل دکھانا نہیں محض اپنی ا س رائے کا اظہار ہے جس سے کیا جانے والا اختلاف سر آنکھوں پر مگر مؤرخین بھی ان شخصیات کی تعریف لکھتے ہوئے اگر غیر جانبداری کا مظاہرہ کرے گا تو یہ سب سوال ضرور اٹھائے گا جو موجودہ تحریر میں زیر بحث آئے کیونکہ ہر تصویر کا ایک دوسرا رُخ ہوتاہے سو اسی طرح ہمارے سیاست کے سٹیج پہ پرفارم کرنے والے ان سیاست دانوں کا بھی ایک دوسرا رُخ ہے جس پر یقینا سوا ل اٹھایا جاسکتاہے اور یہی میں نے کیا کیونکہ مجھ پر لازم ہے کہ میں ہر رُخ کا تحریر کروں دوسرا رُخ۔

Qazi Naveed Mumtaz
About the Author: Qazi Naveed Mumtaz Read More Articles by Qazi Naveed Mumtaz: 28 Articles with 21408 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.