صدیوں سے اسلام جیسے عظیم، مضبوط اور لازوال ترین رشتے
میں بندھے اور سماجی و ثقافتی لحاظ سے ہمارے ساتھ جڑے افغانستان کی جانب سے
گزشتہ ہفتے چمن کے سرحدی علاقے میں اچانک گولہ باری کر دی گئی جس کی زد میں
آ کر 10پاکستانی شہری شہید جبکہ متعدد زخمی ہو گئے۔ پاکستانی فوج کی جوابی
کارروائی میں بڑی تعداد میں افغان فوجی مارے گئے اور ان کی شرارت کی بنیاد
ان چوکیوں کو تباہ کر دیا گیا جہاں سے پاکستان پر گولہ باری ہوئی تھی۔واقعہ
کے ساتھ ہی پاکستان نے چمن سرحد بند کر دی اور اپنے علاقے سے کئی دیہات کے
لوگوں کو پیچھے ہٹنے کا کہہ دیا گیا۔ واقعہ کی تفصیلات جب سامنے آئیں تو
پتہ چلا کہ یہ علاقہ پاکستان میں تھا جس کے بارے افغانستان کا دعویٰ تھا کہ
یہ ان کی ملکیت ہے جہاں پاکستانی حکام مردم شماری کرنے پر مصر تھے۔
پاکستانی حکام نے افغان فوج کو اطلاع کر رکھی تھی کہ وہ یہاں مردم شماری
کیلئے آ رہے ہیں لیکن اس کے باوجودحملہ کر دیا گیا۔
ساری پاک افغانی سرحد کے آر پار رہنے والے لوگ ایک جیسی زبان بولتے، ایک ہی
مذہب پر عمل پیرا اور ایک ہی رنگ و روپ کے حامل ہیں۔ ان کی باہم رشتہ
داریاں سرحد کی تقسیم کے بغیر صدیوں سے چلی آ رہی ہیں۔ اسی لئے پاکستان نے
کبھی دراڑ ڈالنے یا انہیں علیحدہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔پاکستان نے
افغانستان کے لوگوں کو اپنے ہاں آنے، رہنے، کاروبار کرنے اور ہر طرح کی نقل
و حرکت کی آزادی دے رکھی ہے، ایسادنیا میں شاید ہی کوئی ملک ہو گا ۔یہاں
کبھی پاسپورٹ کی پابندی عائد ہوئی اور نہ ویزا کی لیکن جب سے امریکہ
افغانستان سے ذلیل و رسوا ہو کر نکلنا شروع ہوا تو اس نے اپنی اور اپنے
اتحادیوں کی شکست کا باعث پاکستان کی دوغلی پالیسی اور ڈبل گیم کو قرار دے
کر پاکستان سے انتقاماً اس کے بدترین دشمن بھارت کے ذریعے بدلہ لینے کی
ٹھانی۔ اس کیلئے امریکہ نے پہلے کٹھ پتلی افغان حکومت کو بہکایا، انہیں
ڈالروں میں امداد دی تو بھارت کو تعمیر نو کے کام کے بڑے ٹھیکے دیئے۔ طے یہ
تھا کہ امریکہ جب یہاں سے مکمل نکلے گا تو افغانستان کا سارا انتظام
وانصرام بھارت کے پاس ہو گا لیکن بھلا ہو افغان مجاہدین کا جنہوں نے بھارت
کے کبھی پاؤں ٹکنے ہی نہیں دیئے اوریہاں آنے والی افواج پر مسلسل حملوں کے
ذریعے بھارت کو الٹے پاؤں بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ یہ امریکہ کی ہی شرارت
ہے جو موجودہ افغا ن حکمرانوں کو یہ باور کرانے میں مصروف ہے کہ ان کے ملک
میں ہونے والے تمام تر حملوں اور کارروائیوں میں پاکستان ملوث ہے جس نے اسے
اور اس کے اتحادیوں بشمول بھارت کو یہاں چین نہیں لینے دیا تھا۔اسی بہکاوے
میں آ کر اشرف غنی اینڈ کمپنی یہ سمجھ بیٹھی ہے کہ وہ امریکہ اور بھارت کے
مشن میں پاکستان کو دباؤ میں لانے اور اپنی چالوں کو بڑھانے میں کامیاب ہو
جائیں گے۔ ادھر بھارت پاکستان کے خلاف سندھ کے بعد بلوچستان میں اپنی مذموم
مہم میں مسلسل منہ کی کھانے کے بعد جب یہ سمجھ چکا ہے کہ یہاں اس کی دال
نہیں گل سکتی تو اس نے افغانستان کو سبز باغ دکھانے اور لولی پاپ دینے شروع
کر رکھے ہیں۔ اسی شہ سے پاکستان کے بغیر ایک پل نہ گزار پانے والے
افغانستان کا صدر اشرف غنی پاکستان کا خیر سگالی کا پیغام ٹھکرا دیتا اور
دورے کی دعوت کو مسترد کر دیتا ہے۔ افغانستان کے حکمرانوں کو یہ بات یاد
رکھنی چاہئے کہ ان کی سرحد اگر کسی دوست، مخلص اور اول تا آخر ہمدردی رکھنے
والے ملک سے ملتی ہے تو صرف پاکستان ہے ۔ اس وقت بھی 50لاکھ سے زائد افغان
مہاجرین پاکستان بھر میں مقیم اور بھاری کاروبار کر رہے ہیں۔ افغانستان
کیلئے تمام تر غذائی اجناس پاکستان سے ہی جاتی ہیں کیونکہ وسط ایشیا ہو یا
ایران،ان میں کوئی زرعی ملک نہیں جو انہیں سامان خوراک مہیا کر سکیں۔ اگر
آج بھارت ایران کے راستے پاکستان کو زک اور تکلیف پہنچانے کے لئے افغانستان
کو لچھ رسد پہنچانا شروع ہوا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ ان کا دوست بن
گیا ہے۔ اس کی وجہ صرف پاکستان دشمنی ہے۔سی پیک کی تکمیل کے بعد جب بحیرۂ
عرب میں بحری جہازوں کی آمدورفت کے نئے ضابطے اور روٹ بنیں گے اور پاک
بحریہ حرکت میں آئے گی تو ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کی بھی رہی سہی حیثیت
ختم ہو جائے گی۔ ایران کی بار بار پیش کش کے باوجود بھارت اس لئے چاہ بہار
کی بندرگاہ کا انتظام سنبھالنے کو تیار نہیں کہ اس کا مستقبل مخدوش ہے، اسی
لئے تو نریندر مودی نے دورہ ایران میں چاہ بہارکیلئے بمشکل 50کروڑ ڈالر کی
سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا جواتنے بڑے منصوبے کیلئے کچھ بھی حیثیت نہیں
رکھتا۔ یعنی ساری دنیا کی طرح بھارت بھی یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ
وہ بحیرۂ عرب میں پاکستانی سپرمیسی کا ہی مرہون منت ہو گا۔ اشرف غنی جان لے
کہ اگر پاکستان سرحد پر خاردار تار لگا دے تو افغانستان تو پنجرے کی شکل
اختیار کر لے گا اور اگر پاکستان افغان مہاجرین اور عوام کی اپنے ہاں تجارت
بند کر دے تو افغانستان کا چند ہفتے گزارا ناممکن ہو جائے گا ۔ افغانستان
کے عاقبت نااندیش حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور عقل رکھنے والوں
کو بھی چاہئے کہ وہ اشرف غنی اینڈ کمپنی کو یہ سب سمجھائیں۔ پاکستان کیلئے
اس وقت انتہائی پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کا موقع ہے کہ دشمن ہمیں ایک نئے
محاذ پر الجھانے کی کوشش میں ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی جس نہج پر
پہنچ چکی ہے ،اس سے بھارت کے حواس گم ہیں۔کشمیریوں نے خون، عزت، کاروبار،
اولاد سب کچھ کو قربان کر کے بھارت کو الٹا لٹکا کر رکھ دیا ہے۔ بھارت کے
اندر آزادی پسند دیگر تحریکیں سرگرمیاں بڑھا رہی ہیں۔ بھارت کے مسلمان اب
اس راستے کے قریب پہنچ رہے ہیں کہ وہ عزت کے ساتھ رہنے کے لئے آزادی اور
جہاد کا رستہ اپنائیں۔ بھارت جانتا ہے کہ اس کے تمام تر مذموم مقاصد کے
حصول کے لئے اگر کوئی رکاوٹ حائل ہے تو صرف پاکستان ہے۔ کیونکہ باقی سارے
ہمسایہ ممالک تواس کے زیرنگین آ چکے ہیں۔ اب پاکستانیوں کی یہ ذمہ داری ہے
کہ وہ اصل دشمن بھارت کو پہچانیں اور اس کی سازشوں کا توڑ کرنے کے لئے
افغانستان کے ساتھ وہی رویہ اور پالیسی لے کر چلیں جو ہمارے مفاد میں ہے۔
افغانستان کے ان لوگوں کو سمجھانے کے لئے بھی کوشش ہونی چاہئے جو امریکہ و
بھارت کے بہکاوے میں آئے ہوئے ہیں اور ہمیں افغانستان کے ساتھ کسی بھی سطح
پر محاذ کھولنے کی غلطی نہیں کرنی چاہئے۔ ہمارے مقابلے کی قوت بھارت ہے نہ
کہ افغانستان۔ گولہ باری اور فائرنگ میں دونوں طرف نشانہ بننے والے ہمارے
اپنے ہی مسلمان لوگ تھے اور دونوں طرف ہونے والا نقصان ہمارا اپنا ہی نقصان
ہے جس کا اعتراف پاک فوج نے بھی کیا۔ دشمن کی کامیابی یہ ہوگی کہ وہ لڑا کر
ہمیں کمزور کرے، کشمیری تحریک آزادی کو نقصان پہنچائے۔ ہماری کامیابی یہ ہو
گی کہ ہم افغانستان کے لوگوں کو آئندہ حقیقت سمجھا کر اپنے ساتھ ملا کر
چلنے اور چلانے والے بن جائیں۔ اگر ہم اپنا ہدف بھارت اور بھارت کی سازشوں
کو بنائے رکھیں گے تو ہم نقصان نہیں اٹھائیں گے۔ ہم کشمیریوں کے ساتھ سکھوں
کی تحریک آزادی مضبوط و توانا کر کے لیں گے تو بھارت ہمیں نقصان نہیں پہنچا
سکے گا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ خطے میں ہمارا اصل اور اول تا آخر دشمن
بھارت ہے جس نے تقسیم ہند سے پہلے، تقسیم کے بعد اور آج تک ہمیں ایک دن کے
لئے قبول و تسلیم نہیں کیا اور ہر لمحہ ہر لحظہ ہمیں مٹانے کے لئے دن رات
زور لگا چکا اور لگا رہا ہے۔ ہم نے اس کا مقابلہ کیا تو ہم ملک کا دفاع
صحیح معنوں میں کر سکیں گے لیکن اگر ہم نے مخالفتیں بڑھانے کی دشمن کی سازش
کو نہ سمجھا تو اس میں نقصان ہمارا ہی ہو گا۔ ہمیں ٹھنڈے دل و دماغ سے
افغانستان کو زمینی حقیقت سے آگاہ کرنا ہو گا۔آج جب افغان منظرنامے میں ایک
زمانہ پاکستان سے فائدہ اٹھانے والی شخصیت انجینئر گلبدین حکمت یار کا
اضافہ ہو چکا ہے تو افغان پالیسی ازسرنو مرتب کرنا ہوگی۔ افغانستان میں
سوائے چند عناصر کے سبھی لوگ پاکستان کے حوالے سے زمینی حقیقت سے ہر طرح سے
بخوبی آگاہ ہیں، بس معمولی سوجھ بوجھ اور عقل مندی سے قدم اٹھانے کی ضرورت
ہے۔ چمن کا واقعہ آئندہ کی پالیسی میں ممدومعاون ثابت ہو سکتا ہے اور ہم
اپنے اصل دشمن بھارت کی جانب ہی اپنی توپوں کا رخ پھیر سکتے ہیں جوموجودہ
شورش کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ |