پچھلی سات دہائیوں سے ہندوجنتانے صدیوں سے پکاراجانے
والاخطہ کشمیرجنت نظیرکے باسیوں کیلئے جہنم زاربناکررکھ دیاہے۔ سب سے بڑی
بدقسمتی یہ ہے کہ کشمیری بچے، بوڑھے ، نوجوان اورخواتین سب ہی ہندومتعصب کے
بدترین ظلم وستم کے شکارہیں مگر حضرت انسان کے پاس ان کی حالت زار
دیکھنے،جاننے اورجانچنے کاوقت ہی نہیں۔سیاست معاشرت اور معیشت کے موضوع
زیربحث آرہے ہیں مگران میں سب سے زیادہ توجہ طلب موضوع کشمیربری طرح
نظراندازہے۔نوجوان برہان وانی کی شہادت کے بعدتوشائد ہی کوئی ایسادن ہو جب
مقبوضہ کشمیرکے کسی شہریاکسی گاؤں سے شہادتوں کی خبرنے ملول نہ
کردیاہو۔پچھلے دنوں بھارتی قابض فورسز نے بڈگام کے علاقے چاہ دورہ کے گاؤں
زوین کا محاصرہ کرکے ایک مکان کومحض اس شک میں بارودسے اڑادیاکہ اس کے اندر
کوئی مجاہدچھپاہواہے۔آئی جی پولیس سیدجاویدمجتبیٰ گیلانی نے میڈیاکو
بتایاکہ پولیس اورفوجی اہلکاروں نے مبینہ شدت پسندکی موجودگی کی اطلاع پر
جموں وکشمیرکے جنوبی قصبے چاہ دورہ کے گاؤں زوین کامحاصرہ کیا۔ایک مکان کو
گھیرنے پرجھڑپ شروع ہوگئی،اس دوران سینکڑوں افرادبھارت مخالف نعرے بلندکرتے
ہوئے اس علاقے میں جمع ہوگئے جہاں فائرنگ کاتبادلہ ہورہاتھا۔
لوگوں نے احتجاج کاسہارالیکرپھنسے ہوئے آزادی کے مجاہدین کوفرارکرانے کی
کوشش کی۔مظاہرین نے فورسزپرپتھراؤشروع کیاجس کے بعدپولیس نے مظاہرین
پرفائرنگ کی اورتین شہری شہیدکردیئے اورایک مجاہدبھی شہیدہوگیا۔ پولیس اور
فوج کے ساٹھ اہلکارزخمی ہوئے۔عینی شاہدین نے بتایاکہ فائرنگ کے دوران چار
کشمیری نوجوان شہیداور۲۸ زخمی ہوئے ۔ایک اوراطلاع کے مطابق ضلع پلوامہ میں
چندروزقبل بھارتی فوجیوں کی جانب سے دونوجوانوں کی شہادت کے دوسرے روزبھی
مکمل ہڑتال رہی۔حریت رہنماؤں نے چارکشمیریوں کی شہادت پرپوری وادی میں
ہڑتال کی کال دی توکشمیری عوام کی جانب سے اس کال کی معمول کے مطابق
بھرپورپذیرائی ہوئی۔پاکستان کے دفترخارجہ کے ترجمان نفیس ذکریانے
کہا:بھارتی فورسزکے ہاتھوں مزیدچار نہتے کشمیری نوجوانوں کی شہادت کی
شدیدمذمت کرتے ہیں۔ بھارتی فوج مسلسل انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مرتکب
ہورہی ہے۔کشمیرمیں بدترین ریاستی دہشتگردی جاری ہے۔
امورخارجہ کے مشیرسرتاج عزیزنے بھی ایک انٹرویومیں اس واقعے پرگہرے رنج
والم کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ مقبوضہ کشمیرمیں فی الوقت جو آزادی کی تحریک
جاری ہے یہ ٢٠١٠ء کی انتفاضہ کی تحریک سے یکسرمختلف ہے۔٨ جولائی کوبرہان
مظفروانی کی شہادت کے بعدسے اب تک شاذہی کوئی دن ایسا گزرتاہے جب بھارتی
فوج کے ہاتھوں نہتے نوجوان کشمیری شہیدنہ کئے جائیں۔ مقبوضہ وادی میں
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی دنیامیں کہیں مثال نہیں ملتی۔بھارت طاقت
اورقوت کے استعمال کی بجائے نوشتہ دیوارپڑھے اور کشمیریوں کے خون سے مسلسل
ہاتھ رنگنے سے بازآجائے ۔ کشمیرجنوبی ایشیا کانیوکلیرفلیش پوائنٹ ہے۔تنازعہ
کشمیرحل کرنے کی جانب اقوام عالم نے فوری توجہ نہ دی تونتائج ناقابل بیان
حد تک سنگین ہوں گے۔
امریکی مصنف یونیورسٹی آف کیلیفورنیاکے پروفیسرسٹینلے والبرٹ نے اپنی
کتاب''انڈیااینڈپاکستان''میں مسئلہ کشمیرکے حوالے سے ایک باب میں لکھاہے:
مسئلہ کشمیرکے پرامن حل کیلئے پاکستان اوربھارت کے درمیان باوقار،سنجیدہ
اورباضابطہ سفارتی وہ سمجھوتے ناگزیرہیں جن کومقبوضہ کشمیرکے انتہائی مقبول
رہنماؤں کی مکمل تائیدوحمائت حاصل ہو۔مسئلہ کشمیرکے حل کیلئے سلامتی کونسل
کی قراردادمیں بھارت ہٹ دھرمی کے نتیجے میں اب قابل ترجیح یاقابل عمل حل سے
خارج کردی گئی ہیں۔۲۰۰۴ء میں مشرف واجپائی سے لائن آف کنٹرول کوبین
الاقوامی سرحدکے طورپر قبول کرنے کے بعداپنے وعدے سے مکرگئے
تھے۔پروفیسروالبرٹ مزیدلکھتے ہیں:تنازع کشمیرکاانتہائی حقیقی حل موجودہ
لائن آف کنٹرول کو تسلیم کرنے کی جانب مائل دکھائی دیتی ہے۔تنازع کا
انتہائی قابل عمل حل وادیٔ کشمیرکی علاقائی تقسیم کاجوں کاتوں قبول کرناہے۔
جب تک پاکستان کے منتخب نمائندے دہشتگردوں کی ''خود کش بمباری''کوختم نہیں
کرلیتے جو امریکیوں بھارتیوں اورسری لنکاکے عوام سمیت دنیابھرکے بے گناہ
افرادکوقتل کرنے پرتلے بیٹھے ہیں۔اس وقت تنازع کشمیرکے حوالے سے ان کے
مطالبے میں مطلوبہ توانائی پیدانہیں ہوسکے گی۔کشمیرکے لوگوں کوخود اپنے
رہنماؤں کے انتخاب کی اجازت ہونی چاہئے۔ تنازع کشمیرکے حل میں متوقع رکاوٹ
بھارت میں بی جے پی کی قیادت میں ایک بارپھرمرکزی حکومت پر
انتہاءپسندعناصرکامنہ زورتسلط ہے۔نریندرمودی جیسے مسلم دشمن انتہاء پسندوں
کااقتدارتنازع کشمیرکے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
کشمیرمیں آزادی کی آوازاب چاروانگ عالم میں پوری شدت کے ساتھ گونج رہی
ہے۔بہت سے اہل دانش نے برسوں قبل کہاتھاکہ دہلی چاہے طاقت کے ذریعے جتنی
بھی کوشش کر لے اب بھارت میں آزادیٔ کشمیرکی صدائے حق کودبا نہیں سکے گی۔آج
کشمیرکی آوازکانعرۂ نئی دہلی میں براجمان مقتدرین کی راتوں کی نیندحرام
کیے ہوئے ہے۔ جواہرلعل یونیورسٹی کے بعددلی یونیورسٹی میں آزادی کی گونج
سنائی دینے پربھارتی میڈیا ہیجان پیداکررہاہے کہ بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں
آزادیٔ کشمیرکے نعروں کادباناہوگا۔آخرکب تک بھارتی میڈیافضامیں
زہرگھولتارہے گا،کب تک کشمیریوں کے مرمٹنے کاسامان بناتارہے گا؟؟
نئی دلی میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکن گوتم نولکھاکاکہناہے کہ نئی دلی
سرکارکشمیریوںکے مطالبے کوکچلناچاہتی ہے لیکن اب یہ نعرے بھارت کے مرکزسے
بلندہورہے ہیں۔اس آوازکوطاقت سے خاموش نہیں کرایاجاسکتا،نئی دلی کواس مسئلے
کاجلدازجلدسیاسی حل کرناچاہئے۔یہ نیک شگون ہے کہ سنگھ پریوارکوچھوڑکربھارت
کی نوجوان نسل کشمیرکے حوالے سے مثبت سوچ کی طرف مائل نظرآرہی ہے۔بھارتی
طلبامیں نہ صرف کشمیریوں پرڈھائے جانے والے مظالم پرفکر مندی پائی جارہی ہے
بلکہ وہ بھارت کی بانی قیادت کے کشمیریوں سے کئے گئے وعدوں
کاجلدازجلدایفاچاہتی ہے۔ کشمیریوں پرڈھائے جانے والے مظالم پربھارتی طلباء
نے ۲۲اور۲۳فروری۲۰۱۷ء کودلی یونیورسٹی کے ''رام جس کالج'' میں ایک
سیمینارکااہتمام کیا جس میں شرکت کیلئے منتظمین نے دلی کی نہرویونیورسٹی کے
سٹوڈنٹ لیڈرخالداورشہلا رشید کو مدعوکیاتھا۔
عمرخالدان پانچ طلباء میں سے ایک ہیں جن پربغاوت کاالزام عائدکیاگیاتھا۔ان
پر الزام تھاکہ انہوں نے ایک پروگرام میں کشمیرکی آزادی کے نعرے لگائے تھے۔
عمرخالداورشہلا رشیدکوبلانے کی بی جے پی کے اسٹوڈنٹ ونگ اکھل بھارتیہ ود
یارٹھی پریشد(اے بی وی پی)نے شدیدمخالفت کی اوراسے سبوتاژ کرنے کی
بھرپورکوشش کی۔اس پراکھل بھارتیہ اور آل اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے ارکان کے
درمیان ۲۲فروری کوپرتشدد جھڑپیں ہوئیں۔پہلی جھڑپ یونیورسٹی کے رام جس کیمپس
اورکالج گزٹ کے باہرہوئی جبکہ کالج کے قریب تھانے کے باہر تصادم ہوا۔ان
واقعات پررام جی کالج کے پرنسپل نے دونوں کادعوت نامہ منسوخ کردیا۔پرنسپل
کے اس اقدام اوراے بی وی پی کے خلاف آل اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے ارکان
اورکالج کے تدریسی عملے نے احتجاجی مظاہرہ کیااوراپنی ریلی مورس نگرپولیس
اسٹیشن تک لیجانے کی کوشش کی لیکن راستے میں اے بی وی پی کے مسلح کارکن ان
سے الجھ پڑے اورپولیس کی ب ھاری نفری کے باوجود مظاہرین پرپتھراؤ کیاجس کے
نتیجے میںدونوں تنظیموں کے کئی ارکان کو شدیدچوٹیں بھی آئیں اورکئی صحافی
بھی زخمی ہوئے جن میں سے ایک ترونی کمارکاکہناتھاکہ پولیس کے مطابق اے آئی
ایس اے کے پاس یہ پروگرام کرنے کی اجازت ہے۔اے بی وی پی والے ہٹ جائیں ،اس
پرپولیس اور اکھل بھارتیہ کے کارکنوں میں کچھ کشمکش ہوئی تاہم پولیس ی
موجودگی کے باوجود دونوں گروپوں کے درمیان تصادم کاسلسلہ جاری
رہااورنظرآرہاتھاکہ پولیس والے کسی بڑے کے کہنے پراکھل بھارتیہ سے رعائت
برت رہے ہیں۔
ادھرطلباء کے دوگروپوں کے درمیان اس رسہ کشی کولیکردلی کے وزیراعلیٰ
اروندکیچروال نے مودی پرکڑی تنقیدکی۔ کیچروال کاکہناتھاکہ مودی کوسمجھنا
چاہئے کہ بی جے پی کے کارکن ہی نہیں ملک کے وزیراعظم بھی ہیں،اس لئے انہیں
بی جے پی کے کارکن کی طرح نہیں بلکہ وزیراعظم کی طرح طرزِ عمل
اپناناچاہئے۔دلی پولیس کی پہلی ذمہ داری شہریوں کو تحفظ فراہم کرناہے لیکن
وہ بی جے پی اوراکھل بھارتیہ کے ایجنٹ کا کردارادا کر رہی ہے کیونکہ دلی
پولیس براہِ راست وزیر اعظم کورپورٹ کرتی ہے،اس میں مودی کی ذمہ داری بنتی
ہے کہ وہ پولیس کوشہریوں کی حفاظت کرنے کی ہدائت دیں نہ کہ بی جے پی اور
اکھل بھارتیہ کیلئے کام کرنے کی۔
ادھراے بی وی پی کے غنڈے کشمیریوں اورپاکستان کے متعلق نرم رویہ اختیارکرنے
پررام جس کالج کی طالبہ کوقتل اورزیادتی کی دہمکیاں دینے لگے۔بھارتی
میڈیاکے مطابق کارگل جنگ میں مارے جانے والے بھارتی کیپٹن مندیپ سنگھ کی
بیٹی گورومہرکورنے کچھ عرصہ قبل یو ٹیوب پرایک ویڈیوجاری کیاجس میں اس نے
ایک پلے کارڈ اٹھارکھاتھا جس پر لکھاتھا:میرے پاپ کوپاکستان نے نہیں جنگ نے
ماراہے اس لئے دونوں ملکوں کوچاہئے کہ آئندہ جنگ سے گریزکریں۔اس پرہندوغنڈے
مشتعل ہوگئے اوراپنے ہی ملک کے فوجی افسرکی بیٹی کوقتل اوراجتماعی زیادتی (گینگ
ریپ)کانشانہ بنانے کی کھلی دہمکیاں دینے لگے۔
اب اے بی وی پی کے دباؤمیں آکریونیورسٹی انتظامیہ نے اجازت نامہ منسوخ
کردیاتاہم طلباء نے اسے خاطرمیں نہ لاتے ہوئے تقریب کااہتمام کر ہی لیا۔
طلباء کے احتجاجی پروگرام نے بھارت کی راجدھانی دلی میں ہلچل مچادی بہرکیف
طلباء نے کوئی تشددیاتخریبی کاروائی قطعاً نہیں کی۔انہوں نے محض آزادیٔ
اظہاررائے کاحق استعمال کیاالبتہ ان کے خلاف اے بی وی پی،بی جے پی اور
بھارتی میڈیامافیانے جویکطرفہ ہڑبونگ مچایاوہ نہ صرف بھارتی جمہوریت کے منہ
پربھرپورطمانچہ ہے بلکہ صاف نظرآرہاہے کہ مودی سرکار کازرخرید بن چکاہے۔
زہرناک اے بی وی پی اورمتعصب بھارتی میڈیا کویہ بات سمجھنے کی ضررت ہے کہ
کشمیریوں کے حق میں آوازاٹھانادراصل نئی دلی کی قیادت کو بھارت کے بانی
وزیراعظم جواہرلال نہروکی طرف سے کشمیریوں سے کئے گئے وعدے یاددلاناہے
اوراس طرح کے رویے کوئی غداری نہیں۔واضح رہے کہ متعصب بھارتی میڈیاانسان
دوست ہندوستانی دانشوروں اورطلباء(جوکشمیریوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک پرآواز
بلندکررہے ہیں)کوغدارکہہ کرحقیقت پرپردہ نہیں ڈال سکتے۔
آئے روزکشمیری نوجوانوں کی شہادت پرمشیرخارجہ سرتاج عزیزنے ایک نجی ٹی وی
پرگفتگوکرتے ہوئے کہاکہ پاکستان نہتے کشمیریوں کی شہادت کے معاملے پرخاموش
نہیں رہ سکتا ،بھارت کشمیریوں کی آوازدبانے کیلئے بدترین دہشتگردی پر
اترآیاہے۔مذاکرات کامشورہ دینے والی عالمی طاقتیں مقبوضہ کشمیرمیں فوری
طورپرنسل کشی کایہ ظالمانہ عمل بندکروائیں۔ بھارت کشمیریوں کی
جائزآوازکودبانے میں ہمیشہ ناکام رہاہے،کشمیرجنوبی ایشیاکا نیوکلیر فلیش
پوائنٹ ہے،اس کے حل کیلئے عالمی برادری اپناکرداراداکرے۔
بھارت کی سازش مسلمانوں کی نسل کشی ہے تاکہ مقبوضہ کشمیرمیں آبادی کا تناسب
بدل دیاجائے اوروہاں مسلم اکثریت کواقلیت میں بدل دیاجائےتاکہ اگر رائے
شماری ہوتو ہندو اکثریت بھارت کے حق میں رائے دے،لہندااب وقت آگیا ہے کہ
عالمی برادری مزیدوقت ضائع کئے بغیراورمزیدانسانی خون بہائے بغیراپنا فرض
اداکرے تاکہ یہ خطہ خوفناک جنگ کے شعلوں سے محفوظ رہ سکے۔عالمی برادری
یادرکھے اس وقت پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی قوتیں ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں
جاری ظلم وستم اورپاکستان میں ''را''کے ایجنٹوں کے ذریعے تخریب کاری سے
کہیں صبرکاپیمانہ لبریزہوگیاتوان کے درمیان خدانخواستہ ایٹمی جنگ کے بھڑکنے
سے چندلمحوں میں نہ صرف یہ خطہ بلکہ دنیابھرکی تباہی کاتصور بھی محال ہے۔
اس لئے ضرورت اس امرکی ہے کہ وہ قوتیں جنہوں نے اقوام متحدہ میں بھارت کی
درخواست پراس شرط پرجنگ بندی کے معاہدہ پربطور ضامن دستخط کئے تھے اب اقوام
متحدہ کی قرار دادوں پر بھارت سے عملددر آمد کرانے کیلئے دباؤبڑھائیں ۔ |