قلم کا تقدس مسلم الثبوت ہے اور اسی وجہ سے ہل دانش
اہل قلم سے محبت کرتے ہیں مگر اب قلم بکتا ہے،خریدا جا سکتا ہے ،جھوٹ لکھتا
ہے،کذب و افتراء گڑھتا ہے،بہتان تراشی سے کام لیتا ہے ،سچ کو جھوٹ اور جھوٹ
کو سچ کے قالب میں ڈھالتا ہے ،لائق کو نالائق اور نالائق کو لائق کا روپ
بخشتا ہے،اہل کو نااہل اور نااہل کو اہل قرار دیتا ہے اور تو اور دن کو رات
اور رات کو دن بنا کر پیش کرتا ہے اور یہ قلم نہیں قلمکار کرتا ہے ۔ قلمکار
اور دانشور یہ ناقابل معافی جرم نہ صرف تحریراََ انجام دیتا ہے بلکہ یہ اب
’’نوکِ قلم ‘‘کے ساتھ ساتھ اپنی ’’زہریلی زبان‘‘ بھی کارپوریٹ ورلڈ کو سستے
داموں بیچ کر تاریخ انسانیت کو رسوا کرنے پر کمر بستہ نظر آتا ہے ۔ہندوستان
میں چند سال قبل تک سرکاری ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے علاوہ پرائیویٹ میڈیا
صرف اخبارات تک محدود تھا ۔سینکڑوں نیوزچینلز کے دفاتر میں بیٹھے نیوز
ریڈروں،تجزیہ نگاروں اور پینلسٹوں اور ہزاروں اخبارات میں لکھنے والے
ہزاروں قلمکاروں کی کشمیرکے لوگوں کے حوالے سے ذہنیت میں کوئی بڑا اور
بنیادی فرق نہیں ہے ۔دونوں اس قدر جھوٹ بولتے ہیں کہ سچ کا گمان گذرتا ہے
اور المیہ یہ کہ یہ سب ’’ملکی سالمیت اورقومی مفاد‘‘کے نام پر کیا جاتا ہے
۔گویا ملکی سالمیت اورقومی مفاد میں جھوٹ لکھنا اور بولنا نہ صرف جائز ہے
بلکہ یہ نہ گناہ ہے نا ہی کوئی عار یا عیب ۔
دورِ حاضرکے بعض قلمکاروں اور صحافیوں کے مقابلے میں گوبلز خواہ مخواہ
بدنام ہے ِان کی حالت دیکھ کر یقین ہوتا ہے کہ یہ گوبلز کے بچے نہیں بلکہ
خود گوبلز کا ہی خون ان کی رگوں میں دوڑتا ہے ۔ 1947ء میں بھارت کی
جغرافیائی سرحدیں بے شک انگریزوں کے تسلط سے آزاد ہو گئی مگر ’’غلامانہ سوچ
و تہذیب ‘‘کے اثرات ان پر پون صدی گذر جانے کے باوجود بھی ابھی تک موجود
ہیں ۔یہ نہ صرف اپنے متعلق جھوٹ بولتے ہیں بلکہ نچلی ذات کے ہندؤں،
مسلمانوں ،سکھوں ،عیسائیوں اور تمام غیر برہمنوں سے متعلق سچ نا بولنے کی
گویا انھوں نے قسم کھا رکھی ہے ۔کشمیراور کشمیری مسلمانوں کے متعلق
ہندوستانی میڈیا نا صرف بدترین جھوٹ بولتا ہے بلکہ یہ لوگ اب ایک طرح کے
چڑچڑا پن اور فرسٹیشن کے بھی شکار نظر آتے ہیں ۔یہ بے شرم تاریخ بھی جھوٹ
لکھتے اور بولتے ہیں۔پوری دنیا جانتی ہے کہ تقسیم برصغیر کے وقت جموں و
کشمیر مع آزاد کشمیر بشمول گلگت بلتستان ایک آزاد اور خود مختار ریاست تھی
۔جس کا حاکم مہاراجہ ہری سنگھ تھا ۔جس کی اپنی کرنسی تھی اورجس کی اپنی فوج
اور پولیس تھی ۔دوقومی نظریہ کا اطلاق ان ریاستوں پر تھونپ دیا گیا اس لئے
کہ بعض ریاستیں سنتالیس سے قبل ہندوستان کا حصہ نہیں تھیں ۔ہری سنگھ کو
لاکھوں انسانوں کی مرضی کے خلاف فیصلہ لینے کا منڈیٹ نہیں تھا اور شاید یہی
وجہ ہے کہ مہاراجہ کے وزیر اعظم رام چند کاک الحاق کے خلاف تھا ۔باوجود اس
کے کہ مہاراجہ نے فیصلہ لیکر پورے خطے کو تباہ و برباد کر دیا ۔نہرو ،ہری
سنگھ اور شیخ عبداﷲ نے اپنی پسند اور انا کے لئے نہ صرف کشمیری قوم کو بلی
کا بکرا بنا دیا بلکہ پورے برصغیر کے امن و سکون کو داؤپر لگا کر کئی مرتبہ
’’جنونی لیڈروں‘‘کے ذریعہ تاراج کرادیا۔
لکھا پڑھایہ بے شرم طبقہ ان تین خاندانوں کی ملی بھگت اور غلط فیصلے کا
تجزیہ کرتے ہو ئے کشمیریوں اور ہندوستانیوں کو اس کے تباہ کن اثرات سے
باخبر کرتے ہو ئے عوام کو انہیں اپنے ووٹ کے ذریعہ رد کرکے سبق دینے کے
بجائے اس جدید دور میں بھی اس کی لیپا پوتی کرتے ہو ئے اس کو حق بجانب ثابت
کرتا ہے ایسے صحافی اور دانشورانسانیت کے ماتھے کا جھومر نہیں بلکہ کلنک
ہوتے ہیں ۔المیہ یہ کہ سن سنتالیس سے لیکر اب تک بھارت کا عقل مند انسان
پوری ایک آزاد مگرکمزور قوم کو اسی طرح اپنا غلام سمجھتا ہے جس طرح انگریز
وں نے انہیں اپنا غلام مان لیا تھا۔اسے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ سن
سنتالیس کے ان پڑھ اور 2017ء کے لکھے پڑھے کے فہم و ادراک میں کوئی خاص فرق
نہیں آیا ہے بلکہ جدت و ندرت کے نام پریہ اگلوں سے بھی گیا گذرا ہے ۔اس
جھوٹ اور فریب کا نظارہ آپ دن رات کے پورے چوبیس گھنٹوں میں ہندوستان کی
سینکڑوں نیوز چینلز پر ملاحظہ کر سکتے ہیں اور ہزاروں اخبارات میں پڑھ سکتے
ہیں ۔الحاق کے تاریخی فراڈ کے بعد اب آپ 1990ء کے بعد سے لیکر اب تک کے
حالات وواقعات کی رپورٹنگ دیکھ لیں تو آپ کے پاس سوائے ماتم کے اور کوئی
صورت باقی نہیں بچتی ہے ۔انھوں نے 1987ء کے فراڈ الیکشنوں پر صرف اس لئے
جھوٹ لکھااور بولا کہ ان نزدیک یہی قومی مفاد تھا اور اب گذشتہ اٹھائیس برس
سے یہ لوگ مکمل جھوٹ بول بول اور لکھ لکھ کر اپنی قوم کی خد مت میں پوری
مہارت کا مظاہرہ کرتے ہو ئے نہیں تھکتے ہیں ۔
جھوٹ بولنا ،تحریف کرنا اور کشمیریوں پرتہمتیں دھرنابھارت کے جمہوری ستون
کا فرض عین قرار پا چکا ہے ۔ہر رات شام ڈھلتے ہی کشمیر کے حالات اور عوامی
جذبات سے نا آشنا خود ساختہ دانشور درجنوں ٹیلی ویژن چینلز پر بیٹھ کر
چیخنے کا آغاز یہ سوچ کر کرتے ہیں کہ آج کشمیریوں کی خوب خبر لینی ہے ۔چند
ایک انتہائی نرم لہجے میں گفتگو کرتے ہو ئے نصیحت آموز باشنوں میں مغز ماری
کرتے ہیں ۔این ڈی ٹی وی ہو یا ٹائمز نو، زی نیوز ہو یا انڈیا ٹوڈے ،ہندوستان
ٹائمز ہو یا ٹائمز آف انڈیا یا کوئی اور چینل یا اخبار تاریخ اور تحریک
کشمیر سے متعلق جھوٹ بولنا ان کی طبیعت بن چکی ہے ۔کبھی تحریک آزادی کشمیر
کو پاکستانی اُکساوا قرار دیتے ہیں اور کبھی پیسے کا کھیل ۔کبھی چین اس کے
کھیل میں شامل نظر آتا ہے اور کبھی عرب ممالک کے درہم و دیناردکھائے جاتے
ہیں ۔المیہ یہ کہ ایک سیاسی مسئلے کو خود بھارت کے وزیر اعظم اقوام متحدہ
میں لے گیا اور دنیا کو گواہ بنا کر کشمیریوں کو سیاسی اور پیدائشی حق دینے
کا اعلان کیااسی وعدے کے ایفاء کا جب کشمیری لوگ مطالبہ کرتے ہیں تو بھارت
کے نزدیک ’’مطالبہ‘‘کرنا پاکستانی اکساوا قرار پاتا ہے ۔
بھارت بھر کے عوام کے دماغوں میں ’’جھوٹے صحافیوں‘‘نے نہ صرف یہ بات بٹھا
دی ہے کہ کشمیربھارت کا اٹوٹ انگ ہے بلکہ بھارت ہی کی بات کشمیریوں کی زبان
سے دہرانا اتنا بڑا جرم بن چکا ہے کہ افسپا کی تلوار کے بل پر انہیں قتل
کرنا بھی جمہوری ہندوستان کی خدمت ہے ۔یہ جرم بھارت کی سیکولر کتاب میں
اتنا بڑا ہے کہ ٹاڈا اور پوٹاکے ذریعے بھارت کی ایجنسیاں جس سے چاہیے دہشت
گرد قرار دیکر موت کے گھاٹ اتار سکتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اب میڈیا نے
بھارتی عوام اور دانشور طبقے کا بھی ذہن اس قدر متاثر کردیا ہے کہ وہ ’’سنگ
بازوں‘‘کو بھی’’ عسکریت پسندوں‘‘کے طریقے پر نپٹنے کی وکالت کرتے ہو ئے صاف
صاف ’’قتلِ عام‘‘ کاروادار نظر آتاہے ۔یہ نام نہاد دانشور اور صحافی اس قدر
سنگدل واقع ہو ئے ہیں کہ ایک لاکھ انسانوں کے قتل عام کے بعد بھی ان کا پیٹ
نہیں بھرا ہے نا ہی ان کے نزدیک دس ہزار لا پتہ انسان کوئی مسئلہ ہے ،نا ہی
ہزاروں ماؤں بہنوں کی عصمتیں تارتار ہونا کوئی شرمندگی کی بات ہے حتیٰ کہ
ان کے نزدیک طلباء و طالبات کو پیلٹ شوٹنگ کی زد میں لاکر آنکھیں چھین لینا
قابل گرفت تو درکنار قابل بحث بھی نہیں ہے ۔
بھارت کے ان صحافیوں اور ٹیلی ویژن اینکروں کو شیخ عبداﷲ کے اپنے دور میں’’
مطالبہ آزادی‘‘ سے لیکر سید علی گیلانی کے مسئلہ کشمیر کے حل کی مانگ تک ہر
جگہ صرف اور صرف پاکستانی پیسہ نظر آتا ہے ۔عسکری نوجوان تو ان کے نزدیک
’’بھاڑے کے ٹٹو ‘‘ہیں ہی ۔سنگباز تو سنگباز پر امن احتجاج اور جلوس کی بھی
اجازت نہیں ہے اور جب لوگ امتنائی احکامات نظرانداز کرتے ہو ئے سڑکوں پر
نکل آتے ہیں تو اس پر بھی پاکستانی بہکاوے کی مہر ثبت کر دی جاتی ہے ۔سید
صلاح الدین اور شبیر احمد شاہ نہیں بھارتی آئین کے عین مطابق اگر ایم
،ایل،اے انجینئر عبدالرشید بھی مسئلہ کشمیر کے حل کا مطالبہ کرے تو ٹیلی
ویژن چینل پر نالائق اور نااہل اینکر علمی جواب دینے کے بجائے فرسٹیشن کا
شکار ہو کر آن ائر پروگرام میں ہی ان کی گرفتاری کا مطالبہ کرتا ہے ۔اسی
طرح کشمیر کے معروف صحافی اور قلمکار سید شجاعت حسین بخاری بھارت کے مریض
ذہنیت کے حامل صحافیوں کو یہ بات سمجھاتے سمجھاتے مایوس ہو جاتے ہیں کہ
کشمیر میں بھارتی سرکار کو بات چیت حریت سے کرنی چاہیے نہ کہ مین اسٹریم
سے، جبکہ وہ مین اسٹریم کے ساتھ مصروف رہنے پر بچوں کی طرح ضد کرتے ہو ئے
نظر آتے ہیں جس پر شجاعت صاحب یہ سوال پوچھتے ہیں کہ دہلی کو مین سٹریم کے
ساتھ سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے تو ان سے مذاکرات چہ معنی دارد؟اب اگر
یہی صحیح ہے تو مسئلہ حل کیوں نہیں ہوتا ہے ؟جبکہ سچائی یہ ہے کہ دہلی اور
مین اسٹریم کو مذاکرات کیا کرنے ہیں مین اسٹریم دلی ہی کے صدقے کشمیرمیں
کھڑی ہے !ویسے بھی دلی میں مقیم اینکروں اور ایڈیٹروں سے کیا شکوہ خود
کشمیری لیڈران بھی جھوٹ بولتے ہوئے اسی میدان کے ماہر کھلاڑی نظر آتے ہیں
۔کوئی کشمیر میں آزادی مانگنے والوں کو پانچ فیصد قرار دیتا ہے ۔کوئی انہیں
پاکستان کا ایجنٹ قرار دیتا ہے ۔کوئی مفادات کے حصول کا مارا ہوا جبکہ
کشمیری مین اسٹریم والے تحریک کی حقیقت اور عوامی خواہشات سے بخوبی واقف
ہیں مگر سچائی زبان پر لانے سے انھیں اپنے ہی پیٹ پر لات مارنا اسی طرح نظر
آتا ہے جس طرح بھارت کے میڈیا والوں کو اور یہی وجہ ہے کہ پیٹ کے پجاری
جھوٹ بولنا بھی عبادت سمجھتے ہیں ۔ |