چین میں دراز زلفوں والی خواتین کا گاؤں

یہاں لمبی بالوں والی خواتین رہتی ہیں

گھنے اور لمبے بال مشرقی خواتین کا حسن سمجھے جاتے ہیں۔ وہ اپنی زلفوں کو دراز کرنے کے لیے مہنگے سے مہنگے شیمپو استعمال کرتی ہیں،مختلف النوع قسم کی جڑی بوٹیوں سے کشید کیے ہوئے تیل سے بالوں کی مالش کرتی ہیں، غرض وہ بالوں کی نشو ونمامیں کوئی کسر نہیں چھوڑتیں۔ کمر سے لمبی چوٹی کی انہیں خواہش ہوتی ہے، لیکن یہ خواہش بہت کم خواتین کی ہی پوری ہو پاتی ہے۔وہ پوٹی ٹیل باندھتی ہیں یا پھر وگ لگا کر مصنوعی بالوں کو کمر سے نیچے تک بکھیر کراپنی لمبی چوٹی یا دراز زلفوں کی خواہش پوری کرتی ہیں۔ ان کے برعکس فیشن زدہ خواتین مغربی فیشن سے مرعوب ہوکر لڑکوں کی طرح بال ترشواتی ہیں جب کہ ان کی گھنی زلفیں دیکھنے کے متمنی، ان کے گھرانوں کے مرد ،اپنی حسرت ناتمام رہنے کے بعد ، یہ فریضہ خود انجام دیتے ہیں اور لمبے بال رکھ کر باقاعدہ چوٹی تک باندھتے ہیں۔

چین کے صوبے ہوانگ لومیں گولین نامی گاؤںہے، جہاں، یاؤ نسل کےلوگ رہتے ہیں۔ اس گاؤں میں 82گھر ہیں، جو روایتی سرخ لباس زیب تن کرتے ہیں اور خود کو ’’ریڈ یاؤ‘‘ نسل کا فرد قراردیتے ہیں۔ ویسے تو زیادہ تر چینی دیہات میں سرخ پیراہن ہی مروّج ہے ،لیکن مذکورہ رنگ کا لباس اس گاؤں کی انفرادیت ہے۔ گولین کے قصبے میں ہر سو قدرت کی رعنائیاں بکھری ہوئی ہیں، اور قدیم آثار سیاحوں کے لیے باعث کشش ہیں لیکن ان کے لیے سب سے زیادہ دل چسپ چیز ،یہاں کی نسوانی کشش کی حامل، خوب صورت خواتین ہیں جن کے بال اتنے لمبے ہیں کہ کمر سے ٹخنے تک آتے ہیں۔اس قصبے میں ہر طرف لمبے بالوں والی خواتین نظر آتی ہیں۔یہاںمقیم خواتین کی اکثریت اپنے قد سے کچھ کم، لمبے بالوں کی حامل ہیں۔ 120عورتوں کے بالوں کی لمبائی اوسطاً 1.7میٹر ہے جب کہ یہاںجس وقت خواتین کے بالوں کی پیمائش کی گئی تو اکثر عورتوں کے بال 2.1میٹر سے زیادہ لمبے پائے گئے۔ اس خصوصیت کی وجہ سے اسے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں ’’سب سے لمبے بالوں والے قصبے ‘‘ کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ چین سے باہر کی دنیا میں بھی یہ علاقہ خواتین کے لمبے بالوں کی وجہ سے معروف ہوگیا ہے۔مذکورہ قصبے کی خواتین کی زندگی میں ان کے بالوں کو افسانوی درجہ حاصل ہے۔ چند سال قبل تک یہ کھلے ہوئے بالوں کے ساتھ سوائے اپنے بچوں، شوہر، بھائی یا باپ ، کسی کے سامنے نہیں آتی تھیں،ان کی دراز زلفیں دیکھنے کے حقوق صرف انہی رشتوں کو حاصل تھے۔

موسم گرما اور خزاں میں مذکورہ خواتین، قصبے کے قریب ہی بہنے والی ندی کی طرف جاتی ہیں، وہاں اپنے بالوں کو ،خوب اچھی طرح دھوتی ہیں، پھر انہیں ایک نیلے اسکارف میں لپیٹ کر، لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ کرلیتی ہیں۔ ہوانگ لو یاؤکی عورتوں کے خوب صورت اور گھنے بال،تمام تررعنائیوں کے ساتھ دیکھنے کے حقوق صرف انہی مردوں کو حاصل ہوتے ہیں جو ان سے ازدواجی بندھن میں بندھتے ہیں، اور ان کے بال دیکھنے کاموقع انہیں شادی کے بعد ہی نصیب ہوتا ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی غیر ملکی سیاح یا اس قصبے کی سیر کے لیے آنے والا مقامی شخص انہیں، ان کے بکھرے ہوئے بالوں کے ساتھ دیکھتا ہوا پکڑا جاتا ہے تو اسے قصبے کے قوانین کے مطابق بہ طور سزا، مذکورہ خاندان کے ساتھ تین سال تک جبراً رہنا پڑتا۔

1987میں ان خواتین کے بالوں سے متعلق ، تمام قدیم روایات اور فرسودہ پابندیوں کا خاتمہ کردیا گیا۔ اب ریڈیاؤ خواتین اپنے ریشم جیسےسیاہ اور گھنے بال فخریہ انداز میں لوگوں کے سامنے لہراتی ہوئی چلتی ہیں اور پبلک مقامات پر غیر مردوں کے سامنے اپنے بالوں میں کنگھا کرکے سلجھاتی ہیں۔ قصبے کی خواتین صرف زندگی میں ایک مرتبہ اس وقت اپنے بال ترشواتی ہیں، جب وہ 16سال کی عمر کو پہنچتی ہیں جس کےبعد وہ اپنے محبوب کی تلاش کرنا شروع کرتی ہیں۔ لیکن بالوں کو کاٹنے کے بعد انہیں کوڑے دان میں کچرے کے ساتھ نہیں پھینکا جاتا بلکہ کٹے ہوئے بالوں کا گچھا لڑکی کی دادی کو دے دیا جاتا ہے ،جو اسے سر پر پہننے کے لیے ایک نفیس زیور کی صورت میں تیار کرتی ہےا ور جب مذکورہ لڑکی کی شادی کی رسومات ہوتی ہیں تو اس موقع پر یہ زیور دولہا کو تحفے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جو بعد میں دلہن کو دے دیا جاتا ہے۔ دلہن، اس زیور کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیتی ہے۔ روزانہ کنگھی، چوٹی کرنے کے بعد وہ اپنے ہی بالوں سے بنے زیور کو سر کی زیبائش و آرائش کے لیے استعمال کرتی ہے۔

چین میں، یہ بات مشہور ہے کہ ریڈیاؤخواتین اپنے لمبے بالوںکی حفاظت کرتی ہیں، انہیں کسی صورت میں بھی ضائع نہیں ہونے دیتیں۔انہیں محفوظ کرنے کے تین ادوار آتے ہیں، پہلا دور وہ ہوتا ہے جب ان کے بال نشوونما کے مراحل میں ہوتے ہیں اور روزانہ سنوارنے کی صورت میں کنگھی کے ساتھ الجھنے والے بالوں کے گچھے کو یہ پھینکنے کی بجائے محفوظ کرکے رکھ لیتی ہیں، دوسری صورت وہ ہوتی ہے جب لڑکی جوانی کی حدود میں پہنچ کر پہلی مرتبہ بالوں کو ترشواتی ہے، ان بالوں کو اس کی دادی سنبھال کر رکھ لیتی ہیں، جب کہ تیسرا دور وہ ہوتا ہے جب عمر بڑھنے کی صورت میں عورتوں کے بال گرنا شروع ہوتے ہیں،اس وقت، وہ انہیں بھی جمع کرکے،محفوظ کرلیتی ہیں۔ کچھ عرصے بعد جب بڑی تعداد میں بالوں کے گچھے جمع ہوجاتے ہیں تو قصبے کی تمام خواتین ایک ساتھ بیٹھ کر انہیں سر پر سجانے کے لیے مختلف انداز کےخوب صورت ہیئر اسٹائل بناتی ہیں تاکہ انہیں پہننے کے بعد وہ سماجی تقریبات میں منفرد اور نمایاں نظر آئیں۔
ان تقریبات میں ریڈ یاؤ خواتین کے بالوں کے مختلف اسٹائل ان کی زندگی کے حالات کو عیاں کرتے ہیں۔ اگر انہوں نے بال سادہ انداز میں گوندھے ہوئے ہوں تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ مذکورہ خاتون شادی شدہ تو ہے لیکن صاحب اولاد نہیں ہے، اگر سر پر سامنے کی جانب چھوٹا سا جوڑا بنایا گیا ہو تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ مذکورہ عورت نہ صرف شادی شدہ ہے بلکہ بچوں کی ماں بھی ہے۔ اگر کسی لڑکی نے اپنے بالوں کو رومال میں لپیٹا ہوا ہے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف ازدواجی بندھن میں نہیں بندھی ہے بلکہ کسی جیون ساتھی کی تلاش میں ہے۔ کچھ لوگ ان کے لمبے، گھنے اور سیاہ بالوں کا راز چاولوں کو ابالنے کے بعد ان سے نتھارے ہوئے پانی کو شیمپو کی صورت میں سر دھونے کے لیے استعمال کرنے کو بتاتے ہیں۔بعض لوگ یہ معلوم کرنے کی جستجو میں بھی رہتے ہیں کہ مذکورہ قصبے کی خواتین بال بڑھانے میں اتنی دل چسپی کیوں لیتی ہیں۔ اس بارے میں ریڈیاؤ خواتین کا عقیدہ ہے کہ لمبے بال نسوانی حسن میں تو اضافہ کرتے ہی ہیں لیکن اس کے علاوہ یہ طویل العمری، دولت مندی اور خوش بختی کی علامت بھی ہوتے ہیں اور جس عورت کے جتنے بڑے بال ہوں گے وہ اتنی ہی زیادہ خوش قسمت ہوگی ، اس لحاظ سے ہوانگ لو کے گولین کے قصبے کو لمبے والی عورتوں کے گاؤں کے علاوہ خوش بخت خواتین کا قصبہ بھی کہا جاتا ہے۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 13 Articles with 18362 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.