دوسری جنگ عظیم(1945……1939) کے خاتمہ کے بعد غالب ا ور
فاتح اقوام نے مل کر جنگی زبوں حالی کا شکار ہستی بستی انسانی آبادیوں کو
ویرانیوں اور کھنڈرات میں تبدیل کرکے اُن پر تعمیر و ترقی کے محلات تعمیرات
کرنے کا جو منفرد اور مخصوص پلان تیار کیاتھا ، اُس میں اس بات کا خاص طور
پر خیال رکھا گیا تھاکہ عالمی سیاست و معیشت کو اس طرح پروان چڑھایا جائے
کہ اس کے فوائد و ثمرات سے صرف چند بڑے اور مال دار ممالک ہی مستفید ہوسکیں
، اورچھوٹے اور غریب ممالک صرف آہوں اور سسکیوں پر ہی گزارہ کرسکیں ۔
اس مقصد کے لئے انہوں نے عالمی بنک اور I.M.F ( انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ)
یعنی ’’بین الاقوامی مالیاتی فنڈ‘‘قائم کئے، جس کا مقصد ملکی معیشتوں اور
اُن کی باہمی کار کردگی بالخصوص زرمبادلہ وبیرونی قرضہ جات پر نظر رکھنا
اور اُن کی معاشی فلاح و مالی خسارے سے نبٹنے کے لئے قرضہ جات اور تیکنیکی
معاونت فراہم کرنا ہے۔ اسی طرح دُنیا کی سیاست پر اپنا اثر و رسوخ بحال
رکھنے کے لئے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کو بھی انہوں نے اپنے مفاد کے
لئے استعمال کیا ۔
امریکہ اس نظام میں سب سے زیادہ منافع سمیٹنے اور تجوریاں بھرنے میں کامیاب
رہا ۔ اُس نے سب سے پہلے ’’سرمایہ دارانہ‘‘ نظام کی بنیاد ایسی عیاری و
چالاکی سے رکھی کہ جس سے غریب اور کمزور ممالک اپنے وسائل بڑی طاقتوں پر
نچھاور کرنے لگے اور چھوٹے ممالک منصوبہ جات کی ترقی اور بجٹ کا خسارہ پورا
کرنے کے لئے قرضوں پر قرضے لیتے رہے ، جس کے نتیجہ میں انہیں بسا اوقات
قومی خود مختاری پر بھی سمجھوتے کرنے پڑتے ، جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ
مغلوب اور مفتوح اقوام عالم کے سروں پر غربت و افلاس نے ڈیرے ڈالنے شروع
کردیئے ، مہنگائی اور بے روزگاری بڑھنے لگی ،بھوک اور تنگی سے بچے ، نوجوان
اور بوڑھے تلملا اُٹھے اور عالمی سیاست و معیشت اپنا دم توڑنے لگی تو اُس
وقت امریکہ اس عالمی معاشی بحران کو ٹالنے کے لئے ’’جلتی پر تیل ڈالنے ‘‘
کے بموجب دُنیائے انسانیت کو خانہ جنگی و بدامنی جیسی جھلسادینے والی آگ
میں جھونک دینے کے لئے پل پڑا، لوگ مرتے گئے ، آبادیاں مٹتی گئیں ، صنعتیں
تباہوتی گئیں ، اور یہ سارے مناظر فاتح اقوام کے تمام اتحادی ممالک گھروں
میں بیٹھ کر اپنی ٹی وی اسکرین پر دیکھتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ طاقت
و قوت اور خوش حالی و فراوانی فاتح اتحادی اقوام کے قدم چومنے لگی اور اس
طرح یہ اتحادی ممالک اپنے مذموم عزائم و مقاصد میں کام یاب ہوگئے اور عالمی
سیاست و معیشت پر سانپ کی طرح کنڈل مار کر7 6 سال یعنی تقریباً پون صدی تک
دیگر کمزور و ناتواں اقوام عالم پر اپنا اثر و رسوخ جماتے رہے ۔
لیکن ایک عرصہ سے عوامی جمہوریہ چائنہ فاتح اقوام کے ان امتیازی سلوکوں کا
بچشم خود مشاہدہ کرتا رہا اور اس کے تدارک کی ہر ممکنہ کوشش کرتا رہا جس
میں وہ بالآخرسو فی صد کامیاب ہوتا نظر آرہا ہے ۔چنانچہ O.B.O.R (ون بیلٹ ،
ون روڈ) یعنی’’ ایک خطہ ، ایک روڈ‘‘ کے نام سے چائنہ نے 2013ء میں عالمی
معاشی ترقی کا ایک منصوبہ تیار کیا جو نیوزی لینڈ ، برطانیہ اور آرکٹک تک
پھیلا ہوا ہے اور اس منصوبہ میں 70 کے لگ بھگ ممالک اور تنظیمیں حصہ لے چکی
ہیں ، جب کہ اس پلان سے متعلقہ اس کے ابتدائے قیام یعنی 2013 ء لے کر اب تک
تقریباً 1700 منصوبہ جات پر چائنہ کی 50 بڑی کمپنیاں سرمایہ کاری کرچکی ہیں
، جن میں بڑے بڑے تعمیراتی ، رابطہ جاتی اور مالیاتی منصوبہ جات ٗ مختلف
قسم کی شاہراہوں اور پلوں کی تعمیرات ، توانائی اور پاور پلانٹس کی بحالی ،اور
گیس پائپ لائن کے جال بچھانے جیسے منصوبے شامل ہیں ۔ اس پلان کا سب سے اہم
اور بڑا حصہ سی پیک یعنی ’’پاک چائنہ اقتصادی راہ داری‘‘ کی تعمیر ہے ، جس
پر اب تک ایک محتاط اندازے کے مطابق 46 ارب ڈالر جیسی خطیر رقم خرچ ہوچکی
ہے ۔ دوسرے نمبر پر چائنہ اور سنگاپور کو آپس میں ملانے والی تقریباً تین
ہزار کلو میٹر ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ ہے ۔ اور تیسرے نمبر پر وسط
ایشیاء میں گیس پائپ لائن کے جال بچھانے کا منصوبہ ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے
کہ اس پورے منصوبے پر تقریباً 5 کھرب ڈالر کی خطیر رقم خرچ ہوگی ۔
ون بیلٹ ، ون روڈ (ایک خطہ ، ایک روڈ) عالمی معاشی ترقی منصوبہ سے چائنہ کا
مقصد پس ماندہ اور دُور اُفتادہ ممالک کی معیشت کو مستحکم کرنا ، غربت و
افلاس کے عفریت سے اُن کی جان چھڑوانا ، اور دُنیا کی تمام اقوام اور تمام
ریاستوں کو معاشی رابطوں کے ذریعے ایک دوسرے کے قریب کرکے انہیں باہم ملانا
ہے تاکہ دیگر خوش حال و ترقی یافتہ ممالک کی طرح وہ بھی اپنی معاشی خستہ
حالی کے بحران سے باہر آسکیں اور ان ترقی یافتہ ممالک کے شانہ بشانہ کھڑے
ہوسکیں ۔
فاتح اقوام عالم اور اتحادی ممالک بالخصوص امریکہ کے مذموم عزائم کی گردن
پر چائنہ کا یہ منصوبہ چوں کہ ایک تیز دھار چھری بن کر واقع ہوا ہے اس لئے
ظاہر ہے کہ امریکہ اس فورم میں اپنی شرکت کو کیسے یقینی بناسکتا ہے ؟ لیکن
دوسری طرف اگر آپ ہمسایہ دُشمن ملک بھارت کو دیکھیں تو اُس نے بھی اس چائنی
منصوبہ میں شرکت کرنے سے صاف انکار کردیا ہے اور اپنا عذرِ لنگ یہ پیش کیا
ہے کہ چوں کہ ’’ون بیلٹ، ون روڈ ‘‘ (ایک خطہ ، ایک روڈ) کا ایک اہم اور بڑا
حصہ یعنی ’’پاک چائنہ اقتصادی راہ داری ‘‘ چوں کہ کشمیر سے ہوکر گزررہاہے
اور کشمیر ایک متنازع فیہ علاقہ ہے جس سے بھارت کی خود مختاری اور علاقائی
سا لمیت کی بنیادیں مخدوش ہوتی ہیں اس لئے بھارت کسی بھی ایسے منصوبے میں
شرکت کرنے سے گریز کرتا ہے جس میں اُسے اپنی خود مختاری پر کسی بھی قسم کا
سمجھوتہ کرنا پڑے۔لیکن اصل میں بات یہ نہیں جو مکار بھارت عذرِ لنگ کے طور
پر کر رہا ہے ، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ’’پاک چائنہ اقتصادی راہ داری‘‘ جیسا
عظیم منصوبہ بھارت کو کسی صورت ہضم نہیں ہورہا ، اور جوں جوں یہ عظیم
منصوبہ اپنی تکمیل کی جانب گامزن ہورہا ہے توں توں مکار بھارت کے مکروہ اور
مذموم عزائم میں بھی اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔
الغرض ون بیلٹ، ون روڈ چائنی منصوبہ میں اکثریت اُن ممالک کی ہے جو دوسری
جنگ عظیم کے بعد سے لے کر اب تک عالمی بنک اور I.M.F ( انٹرنیشنل مونیٹری
فنڈ) یعنی ’’بین الاقوامی مالیاتی فنڈ‘‘ سے خاصے پریشان تھے، اس لئے کہ خوش
حالی و فراوانی کا سیل رواں اگر چند ملکوں تک ہی محدود رہ جائے تو غربت و
افلاس اپنے ڈیرے ڈالنے میں دیر نہیں کرتے ، حالاں کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد
یہی سب کچھ ہوتا رہاہے، تاہم عوامی جمہوریہ چائنہ نے اس میں ذرا بھی بخل
اور کنجوسی سے کام نہیں لیا بلکہ اُس نے اپنے اس عظیم معاشی ترقی منصوبہ
’’ون بیلٹ، ون روڈ‘‘ میں تمام اقوام عالم کو کھلے دل سے اس کا حصہ بننے اور
اس میں شرکت کرنے کی دعوت دی ہے ۔کیوں کہ یہ:
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے!
٭……٭……٭ |