پرویز مشرف کی جانب سے دوسری بار
3 نومبر 2007کو عدلیہ اور پاکستان کے آئین کے خلاف بغاوت کے نتیجہ میں
معزول کی جانے والی اعلیٰ عدلیہ کو 16 مارچ 2009 کو وکلاء اور سول سوسائٹی
کی جانب سے کئے گئے جانے والے لانگ مارچ کی وجہ سے زرداری صاحب کے بارہا
انکار کے باوجود وزیر اعظم کے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعہ سے بحال کیا گیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے ایک تاریخی فیصلہ میں بعد ازاں عدلیہ کی
معزولی کو پہلے دن سے ہی غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا اور ساتھ ہی یہ
حکم بھی دیا کہ ججز کو بحال نہیں کیا گیا بلکہ چونکہ انہیں جبری طور پر ان
کے فرائض سے روکا گیا تھا اس لئے اس ایگزیکٹو آرڈر کی بس اتنی ہی حیثیت ہے
کہ اس کے ذریعہ سے انہیں ان کے دفاتر میں بیٹھنے پر عائد پابندی ہٹا لی گئی
اور مزید یہ کہ اب اس ایگزیکٹو آرڈر کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس کے باوجود
پہلے وزیر اعظم نے اسمبلی میں عدلیہ کو خوفزدہ کرنے اور دھمکانے کے لئے یہ
غیر دانشمندانہ بیان دیا کہ ”جس ایگزیکٹو آرڈر سے عدلیہ بحال ہوئی ہے اس کی
پارلیمنٹ سے توثیق ابھی باقی ہے“، جبکہ اس سے پہلے اور بعد میں بے شمار
مواقع پر حکومت کے وزراء اور پیپلز پارٹی کے مختلف عہدیدار مختلف ٹی وی ٹاک
شوز اور میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اس بات کا برملا اظہار کرچکے ہیں کہ
اگر حکومت وہ ایگزیکٹو آرڈر واپس لے لے تو موجودہ عدلیہ کہاں کھڑی ہوگی؟
اسی تناظر میں اسلام آباد سمیت پورے ملک میں چند روز پیشتر تک ”ذرائع “یہ
خبریں دے چکے تھے کہ حکومت مذکورہ بالا ایگزیکٹو آرڈر واپس لینے پر سنجیدگی
سے غور کر رہی ہے، چنانچہ 2نومبر 2007 کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے
عدلیہ نے برموقع اور برمحل ان میڈیا رپورٹس اور خبروں کا از خود نوٹس لیا
اور مجبوراً رات کے وقت تمام جج صاحبان نے سپریم کورٹ میں جمع ہوکر متفقہ
طور پر حکومت اور تمام اداروں کو ایسا کرنے سے قطعی طور پر منع کردیا۔ از
خود نوٹس کیس کی سماعت اگلے روز (جمعہ) رکھی گئی جس میں اٹارنی جنرل سے اس
بابت پوچھا گیا تو وہ کوئی واضح جواب نہ دے سکے جس پر سپریم کورٹ نے انہیں
وزیر اعظم کی طرف سے بیان داخل کرنے کا حکم دیا اور سماعت ساڑھے گیارہ بجے
تک ملتوی کردی گئی، بعد ازاں اٹارنی جنرل ساڑھے بارہ بجے کے بعد عدالت میں
حاضر ہوئے اور یہ بیان دیا کہ وزیر اعظم ”مصروف“ ہیں اس لئے کیس کو ملتوی
کردیا جائے۔ چنانچہ سپریم کورٹ نے سوموار تک کیس کی سماعت ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کا جواب عدالت میں دینے کی بجائے وزیر اعظم نے
قوم سے ایک بار پھر خطاب کرنا زیادہ مناسب خیال کیا۔ حالانکہ اگر وہ چند
لائنوں کا ایک بیان سپریم کورٹ میں جمع کرا دیتے کہ حکومت کا ایسا قطعاً
کوئی ارادہ تھا، نہ ہے، تو ان کا قد یقیناً بڑا ہوتا اور ان کی ساکھ میں
بھی اضافہ ہوتا۔ وزیر اعظم کے خطاب کی خبر نشر ہوتے ہی پوری قوم کو ایک بار
پھر انتظار کی سولی پر لٹکا دیا گیا، پورے ملک میں کاروبار زندگی (سوائے
کراچی میں خونریزی کے) بہت زیادہ متاثر ہوا اور سب لوگ وزیر اعظم کے متوقع
خطاب بارے خیال آرائی کرتے رہے۔ خدا خدا کر کے اتوار کا دن آیا اور وزیر
اعظم صاحب ریڈیو اور ٹی وی پر جلوہ افروز ہوئے۔ ان کے خطاب میں ایسی کوئی
خاص نئی بات تو سامنے نہ آئی لیکن انہوں نے ایک ایسی بات ضرور کی جس سے
پاکستان بھر کے تمام ذی شعور اور ذی عقل لوگوں کو انتہائی حیرت کا سامنا
کرنا پڑا۔ اس بات کو الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات نے نمایاں جگہ دی اور وہ
اہم بات یہ تھی کہ ”ہم ججوں کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار ہیں....“ ۔ وزیر
اعظم نے عدلیہ کے احکامات کو ماننے اور ان پر عمل پیرا ہونے کے بیان کی
بجائے وزیر اعظم نے یہ فرمایا کہ ”اگر ہم فوج اور سیاسی قوتوں کے ساتھ چل
سکتے ہیں تو عدلیہ سے مل کر بھی کام کرسکتے ہیں“ یعنی وہ عدلیہ کا حکم تو
نہیں مان سکتے لیکن اگر عدلیہ چاہے تو وہ ان کے ساتھ مل کر مسائل کا حل
تلاش کرسکتے ہیں، یہ ایک ایسی بات ہے جو یقینًا پاکستان کے لوگوں کے لئے
نئی نہیں لیکن وکلا، سول سوسائٹی، سیاسی جماعتوں اور میڈیا کی قربانیوں کے
نتیجہ میں بحال اور آزاد ہونے والی موجودہ عدلیہ کی موجودگی میں ایسی بات
یقیناً ایک نئے اضطراب کا باعث بنی۔ کسی بھی مہذب معاشرہ میں عدلیہ اور
حکومت کے مابین ایک بہت واضح قسم کی دیوار ہوتی ہے کیونکہ اگر عدلیہ اور
حکومت آپس میں مل جائیں، مل بیٹھیں تو عوام کو انصاف کیسے اور کیونکر مل
سکتا ہے؟
ملک کے موجودہ حالات کو سامنے رکھیں تو ہر ادارہ شدید قسم کی تنزلی کا شکار
ہے۔ شمالی وزیرستان میں امریکہ ہمیں مار رہا ہے تو کراچی میں الگ سے فساد
کی صورت ہے، روزانہ درجنوں بے گناہ لوگ مارے جارہے ہیں، بلوچستان کی
صورتحال بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس حکومت کو بہت سے
مسائل ”ورثہ“ میں ملے ہیں جن کا ذمہ دار ”اندھیروں کا سوداگر“ مشرف تھا
لیکن کیا کوئی بھی پاکستانی اپنے دل پرہاتھ رکھ کر کہہ سکتا ہے کہ موجودہ
حکومت کی کوئی بھی سمت صحیح ہے؟ اصل بات تو یہی ہے نہ کہ ”ایک شخص“ کو
بچانے، اس کی کرپشن اور اس قوم کے ساتھ لوٹ مار کو تحفظ دینے کی خاطر سارا
ماحول خراب کیا جارہا ہے، عدلیہ کے ساتھ مخامصمت، میڈیا کے ساتھ جنگ،
وکلاءکو خریدنے کی کوششیں، یہ سب آخر کیا ہے، کیا ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ
ایک بار پھر ”سیاسی شہید“ بننے کی پوری تیاریاں ہورہی ہیں؟
اسلام کا تصور عدل کیا ہے، حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور کے ایک واقعہ
کا مفہوم اس طرح ہے کہ کسی نے خلیفہ وقت حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے
خلاف قاضی کو شکائت کی، حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کسی قسم کا استثنیٰ
طلب نہیں کیا اور قاضی کی عدالت میں پیش ہوگئے، ان کو دیکھ کر قاضی تعظیماً
کھڑے ہوئے تو حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان کی سرزنش کی اور فرمایا کہ
میرے احترام میں کھڑے ہوکر آپ نے سائل کے ساتھ ناانصافی کا آغاز کردیا ہے،
اگر ایک قاضی حاکم وقت کے سامنے تعظیماً کھڑا ہوگا تو وہ سائل کے ساتھ کیسے
انصاف کرے گا۔ اور ہمارے وزیر اعظم یہ فرماتے ہیں کہ وہ عدلیہ کے ساتھ مل
بیٹھنے کو تیار ہیں! وزیر اعظم صاحب شائد اپنی ”سادگی“ میں یہ سمجھ بیٹھے
کہ موجودہ عدلیہ بھی پرویز مشرف کے سائے میں پرورش پانے والے اور صرف اپنے
اور اپنے مائی باپ کے مفاد کے نگران عبدالحمیدڈوگر، جو یقینا زرداری صاحب
کو بھی بہت پیارے تھے، کے دور کی عدلیہ ہے جو اس وقت کی حکومت کے تمام
”احکامات“ بلا چون و چرا مان لیتے تھے اور یقیناً اس کی بھی وجوہات تھیں!
بجائے اس کے کہ وزیر اعظم صاحب قوم اور عدلیہ کو یقین دہانی کراتے کہ وہ
اور ان کی حکومت عدلیہ کا احترام بھی کرتے ہیں اور ان کے احکامات کی پابندی
بھی کریں گے تو شائد، وقتی طور پر ہی سہی، بحران ٹل جاتا لیکن ادھر ادھر کی
باتیں کرکے اور عدلیہ کو ”ڈیل“ کی آفر کر کے انہوں نے سبھی کو مایوس کیا۔
اب بھی شائد تھوڑا سا وقت بچ گیا ہے کہ حکومت اپنی سمت کا درست تعین کرے۔
شخصیات کی بجائے اداروں کا احترام کیا جائے، عدالت کے احکامات اور فیصلوں
پر من و عن عمل کیا جائے، میاں نواز شریف کے بقول اگر صدر زرداری لوٹی ہوئی
دولت واپس لے آئیں اور قوم سے معافی مانگ لیں تو معاملات ٹھیک ہوسکتے ہیں،
میں صدق دل سے سمجھتا ہوں کہ اگر واقعی صدر سوئس اکاﺅنٹس اور مبینہ کرپشن
کا تمام روپیہ پاکستان لے آئیں تو یہی قوم ان کو نہ صرف معاف کردے گی بلکہ
شائد ان کی شکر گزار بھی ہوگی! تو جناب وزیر اعظم صاحب! عدلیہ کے ساتھ مل
بیٹھنے کی چنداں ضرورت نہیں بلکہ آپکو اپنے محسن و مربی، اپنے قائد اور صدر
کے ساتھ مل بیٹھنے کی ضرورت ہے، آپ سمیت چند لوگ تو پیپلز پارٹی میں یقینا
موجود ہوں گے جو زمینی حقائق کو بھی تسلیم کرسکتے ہیں اور عقل و دانش بھی
استعمال کرسکتے ہیں، خدارا! عدالتوں کے احکامات پر سیاست مت کریں اور اپنے
(یا صدر کے) نو رتنوں کو بھی سمجھائیں کہ وہ معاملات میں بگاڑ پیدا کرنے کی
دیدہ و دانستہ کوششیں نہ کریں بلکہ ان کو سدھارنے کے لئے اپنا زور خطابت
استعمال کریں! |