فیصلہ میرٹ پر ہو گیا تو

تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں جس کیس کو جتنا طویل ملا ہے اس کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو ہی پہنچا ہے ۔ دراصل یہ ساری کمزوری ہمارے احتسابی ادارو ں اور سسٹم کی ہے ۔ 99 میں پرویز مشرف جب نواز حکومت کو ختم کرکے برسراقتدار آئے تو احتساب ایکٹ کی جگہ انسداد ِ رشوت ستانی کا سب سے بڑا ادارہ ’ نیب ‘ قائم کیا گیاجس کا مقصد ملک میں بدعنوانی کا خاتمہ اور لوٹی گئی قومی دولت کو واپس قومی خزانے میں جمع کرانا ہے ۔ عوام کی حکمرانوں سے سب سے بڑی امید یہی ہوتی ہے کہ وہ بہتر انداز سے بس ان کے بنیادی مسائل کوحل کردیں ۔ اب حکمر ان چاہے جتنا بھی جمہوریت پسنداور نامورکیوں نہ ہو لیکن اگر وہ اپنے وعدوں پر پورا نہیں اترتا ، اپنے عظیم دعووں کو حقیقی رنگ دینے کے لئے خلوص ِ نیت سے جسارت نہیں کرتاتو یہ انتخابات کی رسم اورڈرامائی جمہوریت وغیرہ سب کے سب بالکل فضول اور بیکار کے عمل ہیں ۔حقیقی جمہوریت میں تو ہر شخص کو اظہارِ رائے کی آزادی کا قانوناً حق حاصل ہوتاہے تو پھر آخر موجودہ حکومت اپنے خلاف زبان کھولنے والے سے اتناشدید اختلاف کیوں رکھتی ہے ۔ ساری عوام کا ہرگز یہ موٗقف بھی نہیں کہ مشہور ِ زمانہ پانامہ کیس میں لازم نوازشریف کے خلاف ہی فیصلہ دیا جائے بلکہ صاف و شفاف تحقیقات کے بعد اگر وہ مجرم ثابت نہیں ہوتے تو انہیں احسن انداز سے باعزت بری بھی کیا جائے ۔ویسے تو یہ بات لکھتے ہوئے مجھے کراچی کے اس بڑے پولیس افسر کاوہ بیان یاد آگیا جو اس نے ایک لائیوپروگرام میں دیا تھا جب سٹریٹ کرا ئمز اور ٹارگٹ کلنگ عروج پر تھی اس پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ہم تو ٹارگٹ کلرز کو پکڑ کر سزا کے لئے عدالتوں کی دہلیز تک گھسیٹ لاتے ہیں لیکن بعد میں نامعلوم وجوہات کی بناء پر وہ باعزت بری کیسے ہوجاتے ہیں یہ سمجھ سے باہر ہے ۔

حقائق کی پڑتال اور حصول کے سلسلے میں انسان ہمیشہ اپنی استدلالی قابلیت استعمال کرتاہے اب’ نیب ‘سمیت دیگرتحقیقاتی اداروں میں عام ملازم تو کیا بلکہ افسران لیول تک کے لوگوں میں کیا اتنی استدلالی قابلیت ہی نہیں کہ وہ کسی بڑے معاملے کی صاف و شفاف انداز سے بہترین اور مکمل تحقیقات کر سکیں ۔ ویسے تو تاریخ گواہ ہے کہ ملک میں جس جس معاملے میں بھی ’صاف و شفا ف‘ کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے نتیجہ ہمیشہ صاف و شفافیت کے برعکس ہی آیا ہے اب چاہے وہ صاف و شفاف انتخابات ہوں یا تحقیقات ۔ ویسے عام حالات میں تو تحقیقات کا کام نیب کا ادارہ کرتا ہے لیکن پانامہ سیزن ون میں اس ادارے نے اپنی ناقص کارکردگی کا جو اعلیٰ مظاہرہ کردکھایا اور اس پر سپریم کورٹ سے جو داد وصول کی بلاشبہ وہ اس کے مستحق تھے ۔ اب یہ بھی دیکھیں کہ پانامہ لیکس تو خالصتاً ایک مالیاتی سکینڈل ہے نہ کہ کسی فوجی عدالت کا کیس تو پھر اس مالیاتی کیس کی انکوائری کے لئے آئی ایس آئی اور ایم آئی کے افسران کی ضرورت کیوں پیش آن پڑی۔ دراصل اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ عوام کو دیگر ریاستی اداروں کی قابلیت ، کارکردگی ، ایمانداری ، غیرجانبداری اور شفافیت پر زرہ بھر بھی اعتماد نہیں رہا ۔اسی لئے تو ایک مالیاتی سکینڈل کیلئے بھی فوجی اداروں کی خدمات طلب کی جارہی ہیں ۔او ر یہ جو آئی ایس آئی اور ایم آئی کے افسران شامل کئے گئے ہیں درحقیقت ان کا مقصد اپنی اوردیگر چار اداروں کی اس کیس کے سلسلے میں کئی گئی تحقیقات کی شفافیت کی تصدیق کرنا ہے کیونکہ قوم کودیگر ریاستی اداروں کی نسبت فوجی اداروں پر ابھی بھی کافی حد تک یقین ہے ۔ اس لئے اب یہ ان دوعسکری اداروں کا بھی امتحان ہے کہ وہ عوام کی نظر اپنے اس اعتماد کو کس طرح بحال رکھتے ہیں اور قوم امید رکھتی ہے کہ وہ اس نازک مرحلے انہیں کبھی بھی مایوس نہیں کریں گے۔ ہمارے مفلوج ریاستی اداروں سے تو عوام پہلے ہی گریہ کناں تھی اب عدلیہ نے بھی ان کی نااہلی اور ناقص کارکردگی پر مہرتصدیق ثبت کردی ۔ ڈان لیکس اور پانامہ لیکس میں لیکس کی حد تک تو مماثلت پائی جاتی ہے لیکن کیس میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ ڈان لیکس کے معاملے میں تو آرمی نے ذرا نرم گوشہ دکھایا اور حالات کی نازکی اور وقت کے تقاضے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سیا سی و عسکری قیادت دونوں نے ہی اس مسئلے پرمٹی ڈالنے میں ہی دانائی جانی ۔خیر وہ آرمی کی اپنی ایک الگ حکمت عملی تھی لیکن ایک بات یاد رہے کہ اب اس پانامہ کیس میں فوجی اداروں کی طرف سے کسی قسم کی جانبداری اور حمایت ہرگز قابل ِ قبول نہ ہوگی ۔ ا س وقت جس نے بھی اگر کسی بدعنوان شخص کی کالک اتارنے کی کوشیش کی تو سیاہی اس کے اپنے دامن پر ہی آ لگے گی اور باخدا پھر وہ کبھی نہ دھلے گی ۔ عدلیہ نے تو اپنا دامن بچاتے ہوئے پہلے ہی اپنے سر سے بوجھ اتار کر جے آئی ٹی پر ڈال دیا حالانکہ جتناعرصہ فیصلہ محفوظ رکھا گیا اور وقت کا ضیاع کیا گیا اگر اس وقت ہی فیصلے کو محفوظ رکھنے کا حکم سنانے کی بجائے جے آئی ٹی کا اعلان کر دیاجاتا تو شاید اب تک کوئی نتیجہ نکل چکا ہوتا لیکن ہماری عدالتوں کے تاریخی فیصلے تو ایک طرف ادھرعالمی عدالت کے تاریخی فیصلے بھی سبحان اﷲ ۔ جیسا کہ کلبھوشن یادیو انڈین جاسوس بارے عالمی عدالتِ انصاف کا فیصلہ آپ کے سامنے ہے ۔بالفرض اگر بھارت میں پاکستانی جاسوس کے متعلق عالمی عدالت کو فیصلہ کرنا پڑتا تو تب بھی کیا یہ ہی فیصلہ ہوتا ۔ ہرگز نہیں جناب اس وقت تک تو پاکستانی جاسوس پھانسی کے پھندے پر جھول چکا ہوتاکیونکہ ہر فیصلہ کوئی انصاف کی بنیاد پر تھوڑٰ ی کیا جاتاہے آخر بہت سے فیصلوں میں ہمدردی ،جذبات ، عالمی پریشر اور بدنیتی کا عنصر بھی تو شامل ہو سکتاہے نہ ۔

پانامہ کیس کو کھینچ کر اس مقام تک لے آنا بے شک عمران خان کی کاوشوں کا ہی ثمر ہے ۔ ملکی تاریخ میں یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ کسی کیس میں جے آئی ٹی بنی بلکہ اس سے قبل بھی ماڈل ٹاوٗن کیس ، اصغر خان کیس ، حج کرپشن کیس ، عمران فاروق اور امجد صابری قتل کیس جیسے مشہور کیسزسمیت دیگر بہت سے کیسز میں جے آئی ٹی تشکیل دی گئی لیکن افسوس کہ تمام جے آئی ٹیز کی تحقیقات صرف وقت کا ضیاع ہی رہی اورآج تک ملزمان کو کیفر کردار تک نہ پہنچا سکیں۔ مانا کہ سزا یا جزا کسی بھی جے آئی ٹی کے اختیار میں نہیں انہوں نے تو بس مینڈیٹ کے تحت تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنا ہوتی ہے لیکن آخر ان کے وجود اور انکی رپورٹ کا کچھ فائدہ بھی تو ہونا چاہیے ۔ سچ پوچھیں تو اس بار بھی خدشہ کہ دونوں کہیں پھر سے نہ ناکام ہو جائیں نوازشریف ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں اور جے آئی ٹی انہیں مجرم ثابت کرنے میں ۔ ویسے تو ایک سادہ لوح اور انگوٹھا چھاپ عام شہری بھی اپنی سیدھی ساد ی سو چ کے ساتھ آسانی سے سمجھ سکتاہے کہ یہ سارا کیس خالصتاً ایک گھپلہ کیس ہے ۔ دراصل عدالتی کاروائی کے دوران جو بوگس اور بیکار دلائل کا انبار شریف خاندان کے وکلاء نے لگایا اس کا خمیازہ تو شریف خاندان کو اب بھگتنا ہی پڑے گا ۔قطری دوا بھی کام نہ آسکی ۔ اب شریف خاندان بس یہ دعا کریں کہ جے آئی ٹی کی تحقیقات کے بعد حتمی فیصلہ میرٹ پر نہ آ جائے لہذ اانہیں اس وقت دوا سے کہیں ذیادہ دعا کی ضرورت ہے۔ اس وقت ہر پاکستانی پانامہ کیس کے انصاف اور میرٹ پر فیصلے کا منتظر ہے ہاں البتہ دوسری طرف اس بات سے بھی تو اطمینان رکھا جا سکتا ہے کہ لازم نہیں کہ ہر فیصلہ غٰیرجانبدار اور انصاف کی بنیاد پر ہی ہو آخر کچھ فیصلے کسی کی حمایت بھی تو دیئے جا سکتے ہیں ۔

Majid Amjad
About the Author: Majid Amjad Read More Articles by Majid Amjad: 17 Articles with 13690 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.