یہ سید علی شاہ گیلانی اور نعیم احمد خان کو آپس میں
متصادم کرنے کی کوشش نہیں بلکہ پاکستان اور کشمیریوں کو اس نازک ترین موڑ
پر ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کرنے کی بھی سازش ہے۔ وہ یہ سب درست سمجھتے
ہیں کہ بھارت نے تحریک آزادی اور محاذ رائے شماری کو ختم کرنے کے لئے شیخ
محمد عبد اﷲ کو فنڈنگ کی۔ انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے کے لئے
گاندھی جی نے بھی برلا اور دیگر سے فنڈنگ لی۔ انگریزوں کے خلاف لڑنے کے لئے
سبھاش چندر بوس نے جاپان اور جرمنی سے اسلحہ اور پیسہ لیا۔ بوس کو بھارتی
’’نیتا جی‘‘کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ انھوں نے انگریزوں کے خلاف اپنی ملیشیا
’’انڈین نیشنل آرمی‘‘ تشکیل دی۔ اس میں مسلمان بھی شامل تھے۔ اس فنڈنگ کو
بھارتی درست قرار دیتے ہیں ۔ مگر کشمیری اپنی تحریک آزادی کے لئے اگر کسی
سے فنڈ لینے کی کوشش کریں تو یہ سب بڑا جرم بن جاتا ہے۔
بھارتی ٹی وی چینل ’’انڈیا ٹوڈے‘‘ نے ایک خفیہ آپریشن کیا۔ سید علی شاہ
گیلانی دھڑنے نیشنل فرنٹ کے سربراہ نعیم احمد خان کو چینل کے رپورٹر جمشید
خان اور سوشنت سمپت نے فنڈنگ کرنے والے کسی گروپ کا روپ اوڑھ کر دہلی میں
بلایا۔ وہاں ان کے ساتھ خفیہ کیمرے کی مدد سے بات چیت کی۔ چینل نے نعیم خان
سے بہت باتیں منسوب کی ہیں۔ ان میں پاکستان سے براستہ سعودی عرب، قطر وغیرہ
سے پیسہ لینے کا بھی ذکر ہے۔ یہ بھی منسوب کیا گیا کہ حریت کشمیری نوجوانوں
سنگ بازی کے لئے پیسے دے رہی ہے یا سکول اور دیگر تنصیبات کو نذر آتش کیا
جاتا ہے۔ لیکن بھارتی فورسز کی دہشتگردی پر یہ چینل بات نہیں کرتے۔ جس نے
گھروں میں گولیاں اور لیپٹ فائرنگ سے ہزاروں کشمیری بچوں ، طلباء وطالبات
کو آنکھوں سے محروم کر دیا۔ جب بھارتی میڈیا اور تجزیہ کاروں کو راء کے
سابق چیف اے ایس دولت کی کتاب میں اس انکشاف کی جانب توجہ دلائی جاتی ہے کہ
بھارت نے کشمیری وزرائے اعلی اور دیگر کو بھارت کی غلامی اختیار کرنے کے
لئے فنڈ دیئے، اس پر بھارتی چپ سادھ لیتے ہیں۔ یہ سب انہیں جھوٹ نظر آتا ہے۔
مگر کشمیریوں کو بندوق کی نوک پر یا لالچ اور دباؤ سے غلام بنائے رکھنے میں
انہیں مزہ آتا ہے۔
معروف کشمیری قانون دان اور شہید خواجہ عبد الغنی لون کی بیٹی شبنم غنی لون
اور معتبر کشمیری تجزیہ کارگوہر گیلانی جب بھارتی میڈیا کے سامنے حقائق پیش
کرتے ہیں تو ان کی عزت نفس کو مجروح کر دیا جاتا ہے۔ ان پر دباؤ ڈالا جا
رہا ہے کہ وہ نعیم خان کی مذمت کریں۔ مگر بھارتی کشمیریوں کے قتل عام پر
خاموش ہیں۔ کشمیری بچے بھارتی مظالم اور قتل عام کی وجہ سے میدان میں نکلے
ہیں۔ طالبات بھی پہلی بار بھارتی فورسز پر پتھر برسا رہی ہیں۔ وہ میدان میں
ہیں۔ بھارت کشمیری بچوں پر یہ باور کرنا چاہتا ہے کہ ان کے پتھراؤ کے لئے
حریت کانفرنس پاکستان سے پیسہ لے رہی ہے ۔ یہ کشمیری عوام کو حریت کانفرنس
یا آزادی پسند قیادت سے متنفر کرنے کی کوشش ہے۔ کشمیریوں اور پاکستان کے
درمیان ٹکراؤ پیدا کرنے کی چالوں میں سے ایک ہے۔ یہ افسوسناک بات ہے۔ انڈیا
ٹو ڈے کے اس سٹینگ آپریشن کی حالت بھی بھارت کے سرجیکل سٹرائیکس جیسی ہے۔
آزاد کشمیر میں وادی نیلم کا ایک علاقہ دودھنیال ہے۔ بھارتی فوجیوں نے اس
علاقہ مین اترنے کی کوشش کی تھی۔ یہ کوشش اوڑی حملے کے بعد ہوئی ۔ مگر پاج
فوج نے یہ کوشش ناکام بنا دی۔ بھارت کے کئی فوجی ہلاک ہوئے۔ اس طرح کی
کوششیں بھارت گزشتہ کئی برسوں سے کرچکا ہے۔ اب بھارتی آرمی چیف مزید کسی
نام نہاد سرجیکل سٹرائیکس کی دھمکی دیتے ہیں۔ مگر اس کا انجام بھی بھارتی
فوج کی ہلاکتیں ہو گا۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ بھارت نے افغانستان میں ایک
وقت کے شمالی اتحاد یا موجودہ پاکستانی طالبان کی آڑ میں کسی معرکہ کی پیش
بندی کی ہے۔ یا وہ کشمیر کی جنگ بندی لائن سے بھی بھارتی اور افغان ایجنٹوں
کو داخل کرانے کا منصوبہ بنا سکتا ہے۔ جس کے لئے پاک فوج اور آزاد کشمیرکے
عوام ہر وقت الرٹ ہیں۔ اگر جنگ بندی لائن پر آزاد کشمیر کی آبادی کو جدید
ترین اسلحہ سے لیس کیا جائے یا دیہات میں ڈیفنس کمیٹیاں تشکیل دی جائیں تو
زیادہ بہتر ہو گا۔
آج سب سے اہم سوال یہ ہو گا کہ بھارت کی ایجنسیوں نے کشمیریوں کو بدنام
کرنے کی جو مہم شروع کی ہے اس کا شکار کون بنے گا۔ سید علی شاہ گیلانی
محترم بزرگ لیڈر ہیں۔ ان کی جانب سے فوری طور پر نعیم احمد خان کی پارٹی کی
اپنے گروپ میں رکنیت معطل کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس اعلان پر از سر نو
گور ہونا چاہیئے۔ یہ بات درست ہے کہ کشمیری بھارت کے عوام سے نہیں بلکہ
کشمیری کش پالیسی سے نفرت کرتے ہیں۔ بھارتی چینل کشمیریوں کو بات چیت کرنے
کے لئے مدعو کرتے ہیں لیکن انہیں بات کرنے نہیں دیتے۔ ان کو ذہنی تارچر کیا
جاتا ہے۔ کشمیری صحافیوں تک کو حریت کانفرس کے ترجمان کے طور پر پیش کیا
جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ درست ہو کہ بعض عناصر نے تحریک آزادی کو اپنی
زات کے لئے یا اپنی مراعات یا مفادات یا پیسہ کے لئے بروئے کار لایا ہو مگر
کشمیریوں کی رگ رگ میں آزادی کا جذبہ ہے۔ جو کوئی بھی کشمیر کاز کے نام پر
کوئی غلط کام کرے گا ، اس کا وہ خطاکار ہو گا مگر اس کا کشمیریوں کی جدوجہد
پر کوئی اثر نہیں پڑٹا۔ یہ سرینگر، پلوامہ، شوپیاں، سوپور، بارہمولہ،
ہندواڑہ، کپواڑہ اور جموں و کشمیر میں بھارت کے خلاف میدان میں موجود بچے
بچے کی توہین ہے کہ ان کی جوش و جذبہ کو پیسے کی لالچ سے تشبیہ دی جائے۔
بھارت کی ایجنسیاں یہی کچھ کرتی ہیں۔ بھارتی میڈیا استعمال ہو رہا ہے۔
یاسین ملک کی خواب تک ایک بھارتی خاتون صحافی کیسے پہنچیں۔ اس کے کیا ارادے
تھے۔ ظاہر ہے سب کا مقصد کشمیری آزادی پسند قیادت کی بدنامی اور موجودہ
زبردست تحریک اور انتفادہ کو ناکام بنانا ہے۔ بھارت بوکھلا گیا ہے۔ کشمیر
دہلی کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ اب بھارتی حکمران اس طرح کے مذموم حربے آزما
کر اپنی ناکامی اور بدترین شکست پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ ایسے مواقع پر
کشمیری عوام کو مزید ہوشمندی اور معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرنا ضروری بن گیا
ہے۔ |