کیا کراچی کے حالات ٹھیک ہوسکتے ہیں؟

کراچی ایک بار پھر کشت و خون کا بازار بنا ہوا ہے۔ تین دن میں ستر سے زائد بے گناہ انسان لقمہ اجل بنا دئے گئے، صرف 19 اکتوبر کو تیس سے زائد انسانوں کو ان کی بے گناہی کی سزا دی گئی اور وہ صرف تیس انسان نہیں تھے بلکہ تیس خاندان تھے جن کو ملیا میٹ کردیا گیا، سوگواری کی ایک فضا ہے جس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ اس وقت اہلیان کراچی کے سامنے بالخصوص اور پوری قوم کے سامنے بالعموم یہ سوال آن کھڑا ہوا ہے کہ کیا روشنیوں کے شہر، منی پاکستان، پاکستان کے سب سے بڑے اقتصادی مرکز کے حالات ٹھیک ہوسکتے ہیں اور اگر ٹھیک ہوسکتے ہیں تو کیسے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے کسی سائنسدان کا ذہن ہرگز درکار نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایک عام انسان کو جتنی عقل و دانش سے نوازا ہے اسی کے اندر رہ کر، خلوص نیت اور حق کی تلاش کی جائے تو جواب مل سکتا ہے۔

کراچی میں اس وقت بیرونی عناصر اور غیر ملکی طاقتوں کے ایجنٹس سمیت بہت سے گروپ اور سیاسی جماعتیں سرگرم ہیں۔ سب کے اپنے اپنے اور مخالفانہ مفادات ہیں جو آپس میں ٹکراتے ہیں اور معاملات خراب ہوجاتے ہیں، اسلحہ کے انبار لگے ہیں جو کسی بھی وقت خانہ جنگی کا سامان کرسکتے ہیں، گورننس نام کی کوئی چیز دستیاب نہیں، پولیس میں سیاسی بھرتیوں نے اس ادارہ کا ستیا ناس کردیا ہوا ہے اور سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ نیتوں میں فتور ہے جو معاملات کو حل نہیں ہونے دیتا۔ پاکستان میں سرگرم بیرونی عناصر اور غیر ملکی طاقتوں کے مفادات کو ذرا دیر کے لئے چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ ان کا ایجنڈہ کبھی بھی اس ملک اور کراچی کی فلاح و بہبود کا نہیں ہوسکتا لیکن اس شہر میں بسنے والے اکثر لوگ تو محب وطن، پاکستان اور سندھ کی دھرتی خصوصاً کراچی سے والہانہ محبت کرنے والے لوگ رہتے ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ حالات دن بدن پہلے سے زیادہ خراب اور دگرگوں ہوتے جارہے ہیں؟ مہاجر، سندھی، پختون اور پنجابی، یہ وہ چار اکائیاں ہیں جو کراچی کو متحد اور دوبارہ سے روشنیوں کا شہر بنا سکتی ہیں لیکن اگر سب مل کر کام کریں۔ سبھی قومیتوں کے لوگوں کے آپس میں رابطے بھی ہیں، رشتے داریاں بھی اور دوستیاں بھی، مختلف جگہوں پر اکٹھے کام بھی کرتے ہیں، زبان اور قومیت کے فرق کے باوجود آپس میں میل جول رکھا جاتا ہے لیکن اچانک ایک خفیہ ہاتھ آتا ہے جو یکدم پورے شہر میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کردیتا ہے، کیوں؟ کیا موجودہ ابتر حالات کی ذمہ داری کسی ایک جماعت یا گروہ پر ڈالی جاسکتی ہے، یقیناً اس کا جواب نفی میں ہوگا۔

سب سے پہلے کراچی کے عام لوگوں کو سوچنا ہوگا کہ کیا انہوں نے شہر میں امن قائم کرنے کے لئے اپنے فرائض کماحقہ انجام دئے ہیں، سیاسی جماعتوں کو اپنے مخصوص مفادات کی بجائے قومی مفاد میں مل کر بیٹھنا پڑے گا کہ کشت و خون کس کا ایجنڈہ ہے اور اس سے کون سی قوتیں فائدہ حاصل کرتی ہیں؟ وزیر داخلہ رحمان ملک کے مطابق جب بھی کراچی میں دہشت گردی کی کاروائی کرنے والے پکڑے جاتے ہیں ان کا تعلق کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے جا ملتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا کراچی پر قبضے کی جنگ لڑی جارہی ہے؟ کیا لینڈ مافیا، بھتہ خور، لٹیرے اور ڈاکو اتنے طاقت ور ہوگئے ہیں کہ انہوں نے ریاستی اداروں سمیت پورا شہر یرغمال بنایا ہوا ہے یا کسی دوسرے ملک، کسی دوسری طاقت کے ایجنٹ اتنے دیدہ دلیر ہیں کہ جب چاہیں پورے شہر کو وحشت اور خوف میں مبتلا کردیں کہ نہ کسی کی جان محفوظ رہے نہ کاروبار! اس کے بعد صوبائی اور مرکزی حکومتوں کے پالیسی سازوں کے لئے ایک کڑا امتحان ہے، وہ سوچیں کہ کیسے کراچی کے عوام کو دوبارہ اس کی ہنسی اور قہقہے واپس لوٹائے جاسکتے ہیں۔ پولیس کی تطہیر انتہائی ضروری ہے، سیاسی بھرتیوں کی وجہ سے جو خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں انہیں سدھارنے کے لئے آئی جی سمیت پورے کراچی کی پولیس کو فوری طور پر اندرون سندھ اور ملک کے دوسرے حصوں میں بھیج دیا جائے اور ایسے لوگوں کو کراچی پولیس میں تعینات کیا جائے جن کا کوئی مفاد وہاں پر موجود کسی سیاسی جماعت، گروپ یا ٹولے کے ساتھ نہ ہو، انہیں دہشت گردوں کو پکڑنے کا ٹاسک دیا جائے اور کسی قسم کا سیاسی دباﺅ ہرگز نہ ڈالا جائے۔ ایس ایچ او کے لئے حکم ہو کہ اگر اس کے علاقہ میں کوئی جرم ہوا تو وہ اس کا ذمہ دار ہوگا، پولیس کو ان خصوصی حالات میں بالکل بے رحم کردیا جائے اور حکومت خود پولیس کے لئے بے رحم ہوجائے کہ اگر صحیح نتائج نہ دے تو ان کے ساتھ بھی ”آہنی“ ہاتھ سے نمٹا جائے۔ ان سب کاموں سے پہلے اگر فوج کے ذریعہ آپریشن کرنا پڑے، اسلحہ کے انبار تلاش کرنا پڑیں اور سیاسی جماعتوں، پریشر گروپوں اور مفاد پرست ٹولوں کے کچھ ”پیاروں“ کی قربانی بھی دینا پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ نیت صاف ہو اور منزل متعین ہو! اب تو اے این پی اور پیپلز پارٹی کے نبیل گبول بھی فوج کا مطالبہ کررہے ہیں، فوج کی آمد کوئی مستقل حل تو نہیں لیکن معروضی حالات میں اس میں کوئی حرج بھی نہیں، کہ اب مشرف کے کوچ کرنے کے بعد الحمد للہ فوج کی ساکھ بہت بہتر ہوئی ہے اور عام آدمی فوج کے آنے سے کافی حد تک سکون کا سانس لے پائے گا لیکن امن و امان چونکہ صوبائی معاملہ ہے اور آخر کار اسے پولیس کے ذریعہ سے ہی کنٹرول کیا جاتا ہے اس لئے پولیس کا قبلہ درست کرنا انتہائی ضروری بھی ہے اور ناگزیر بھی۔ اگر سب لوگ، سیاسی جماعتیں ہوں یا دوسرے لوگ، صرف اپنے مفادات کی نگہبانی کریں گے تو حالات ایسے ہی رہیں گے بلکہ خاکم بدہن اس سے زیادہ بھی خراب ہوسکتے ہیں، اس لئے سارے ملک کی سیاسی، حکومتی اور عسکری قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہئے اور کراچی کے مسئلہ کا مستقل حل تلاش کرنا چاہئے، کیونکہ دیر کرنے اور کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے مسائل ختم نہیں ہوتے بلکہ زیادہ گنجلک اور گھمبیر ہوجاتے ہیں۔

آخر میں ایک اہم بات، اب تک جتنے بے گناہ اور معصوم لوگوں نے کراچی کے فسادات اور دہشت گردی میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھوئے ہیں ان کے لواحقین اور ورثاء سے حکومت معافی مانگے اور ان کو نہ صرف فوری طور پر معقول معاوضہ دیا جائے بلکہ ان میں سے اہل لوگوں کو (پولیس کے علاوہ) سرکاری نوکریاں یا کاروبار کے لئے آسان شرائط پر قرضے بھی ترجیحی بنیادوں پر دئے جائیں تاکہ کسی حد تک ان کی اشک شوئی کی جاسکے (اللہ تعالیٰ شہداء کو جوار رحمت میں جگہ عنائت فرمائے اور پسماندگان کو صبر عطا کرے) کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ اندیشہ و احتمال رہے گا کہ شہداء کے بچے کسی ایجنٹ کے ہاتھ لگ کر اپنے دشمنوں سے انتقام لینے کی نہ ٹھان لیں، اگر خدانخواستہ ایسا ہوتا رہا تو یہ ایک مسلسل سلسلہ بن جائے گا جس کا تسلسل کبھی ٹوٹ نہیں پائے گا۔ تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں لیکن شرط یہی ہے، خلوص نیت اور درست سمت کا تعین!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222542 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.