بلاشبہ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے لیکن گزشتہ
پندرہ، سولہ سالوں سے کراچی کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک رواں ہے، جس کی
تاریخ میں مثال نہیں ملتی، کراچی کو منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے جس کی بڑی
وجہ یہ ہے کہ کراچی میں پاکستان کے ہرکونے کھانچے سے آئے ہوئے لوگ آباد ہیں
، ہر زبان ، ہرقوم ،ہر مذہب اور ہر مسلک کے لوگ کراچی میں روزی روٹی کے
حصول کیلئے آباد ہیں۔ کراچی کو غریب کی ماں بھی کہا جاتا ہیں ۔
لیکن جیسے میں نے کہا کہ کراچی اور کراچی کے باسیوں کے ساتھ سوتیلی ماں
جیسا سلوک رواں ہے گزشتہ دس پندرہ سالوں سے ۔ میں بھی کراچی کا ہی باسی ہوں
باقی کراچی والوں کو جو تکلیف ہے ان دنوں وہ مجھے بھی ہے۔ 2013سے قبل کراچی
میں لسانیت اور فرقہ واریت کے نام پر دہشتگردی کا بازار گرم تھا ،ہر شخص
مجھ سمیت احساس کمتری کا شکار تھا کوئی پختون کسی اردو زبان والے علاقے میں
نہیں جاسکتا تھا اورنہ ہی کوئی اردوزبان والا کسی پختون آبادی میں آسکتا
تھا ، ہر طرف قومیت ، لسانیت اور فرقہ واریت کا نعرہ عام تھا مرنے والے کو
یہ پتانہیں ہوتا تھا کہ میں کیوں مارا جارہا ہوں اورشاید مارنے والا بھی
نہیں جانتا تھا کہ میں کیوں مار رہا ہوں ۔ ’’ایک ہووووو ‘‘کا عالم تھا ۔
پھر ہم کراچی والوں پر اﷲ کا کرم ہوا اور پاک فوج کی بے انتہا کاوشوں سے
کراچی کا امن بحال ہونے لگا ۔ دہشتگری کا بھوت بوتل میں بند ہوگیا ، کراچی
کیشہریوں نے مجھ سمیتسکھ کا سانس لیا ۔
لیکن کراچی کے باسیوں کے ساتھ ہماری یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی، دہشتگردی کا
جن تو قابوآیا لیکن کچھ اور جنات بے قابو ہونے لگے ، ان جنات میں پانی کا
جن، لوڈشیڈنگ کا جن ،سیورج کا جن، کچرے کا جن اور ٹوٹی ہوئی سڑکوں کا و
ٹریفک کا جن بے قابو ہوکر کراچی پر مسلط ہوگیا، ان دنوں کراچی موہن جو دڑوں
کا منظر پیش کر رہا ہے ، موجودہ حالات میں کراچی میں ہر طرف ٹوٹی ہوئی
سڑکیں کھلے ہوئے منہول ، ابلتے ہوئے گٹر ، بہتی ہوئی نالیا ں ایک عجیب
داستان بیان کر رہی ہیں ، وہ داستان یہ ہے کہ کیا یہ 2017 کا کراچی ہے یا
کئی ہزار سال پرانا موہن جودوڑوں جہاں پر سلاب آیا تھا اور سب کچھ تبا
کردیا تھا ہر طرف پانی اور تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں تھا ۔ وہی حال ان
دنوں کراچی کا ہے ہر طرف گٹر ابل رہے ہیں مرد نمازیوں کے ساتھ ساتھ عام
خواتین ا ور ان سے بڑ کراسکول کے چھوٹے چھوٹے بچے سب پریشان سب عذاب میں
مبتلا ہیں ۔
ابلتے ہوئے گٹروں کے ساتھ ٹوٹی ہوئی سڑکیں بھی کراچی کی خوبصورتی پر ایک
بدنما داغ ہیں، جسے ان دنوں اتنا بڑھا دیا گیا ہے کہ ایسامحسوس ہو تا ہے کہ
کسی نے جٹ طیاروں سے بمباری کی ہو ، ایک گھنٹے کا سفر دو سے ڈائی گھنٹوں
میں طے ہوتا ہے اس میں کچھ قصور تو ٹریفک کا بھی ہے لیکن زیادہ تر قصور
ٹوٹی ہوئی سڑکوں کا بھی ہے اور ابلتے ہوئے گٹروں کا بھی ہے ہرگاڑی والا خود
کو ان سب سے بچاتا ہے جس سے ٹریفک کامسئلہ بنتا ہے ۔
ابلتے ہوئے گٹر ، ٹوٹی ئی سڑکیں ٹریفک جام سے تو کراچی کے باسی عذاب میں
مبتلا تھے ،لیکن اب کچرا بھی ان کی پریشانی بڑھا نے کیلئے میدان میں آگیا
ہے ہر طرف کچرا ہی کچرا کراچی کے کسی بھی ٹوٹی ہوئی سڑک پر آپ نکلوگے تو آپ
کو کچروں کا ڈھیر نظر آئیگا کوئی ایسا ٹاؤن نہیں کراچی میں جہاں آپ کو کچرے
کا مسئلہ نہیں ملے گا بلکہ ٹاؤن کوچھوڑئے ہر یوسی اور اس کے باسی کچرے سے
تنگ ہے ، کراچی میں کچرے کا مسئلہ اتنا سنگین ہوگیا ہے کے اب کچھ پرا ئیویٹ
این جی او ز اورکچھ دوست ممالک نے کچرے کو اٹھا نے کے لئے مالی اورجانی مدد
کرنا شروع کردی ہے ۔
اب آتے ہیں بجلی کی لوڈشیڈنگ کی طرف تو اس میں بھی کراچی والوں کے ساتھ ظلم
ہورہا ہے ، جیسے ہی کراچی میں گرمی بڑھتی ہے ایسے ہی بجلی بحران بھی شدت
اختیار کرجاتاہے جس کے باعث لوڈشیڈنگ 12 گھنٹے تک جا پہنچتی ہے۔ میڈیا
رپورٹ کے مطابق کراچی میں ان دنوں بجلی کی طلب 2975 میگاواٹ اور رسد 2400
میگاواٹ ہے، شہر کو 550 میگاواٹ بجلی کی کمی کا سامنا ہے جس کے باعث کے
الیکٹرک کی جانب سے شہر کے مختلف علاقوں میں کئی کئی گھنٹے غیر اعلانیہ
لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے اور لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 10سے 12 گھنٹے تک جا پہنچا
ہے جس سے عوام کو شدید گرمی میں پریشانی کا سامنا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ کے
الیکٹرک سستی بجلی کے حصول کیلئے کوشاں ہے، جس وجہ سے اس نے بن قاسم پاور
پلانٹ گزشتہ کئی روز سے بند کیا ہو اہے جس کا تاحال ایک یونٹ بھی بحال نہیں
ہوسکا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ شہر میں بجلی بحران سنگین صورت اختیار کرجانے
کے باعث صنعتی علاقوں میں بھی لوڈشیڈنگ شروع کردی گئی ہے۔ جس سے مالکان کے
ساتھ مزدور بھی پریشان ہیں ۔
پانی اﷲ کی ایک بڑی نعمت ہے لیکن کراچی بالخصوص کراچی کی پختون آبادی اس سے
محروم ہے ۔ یہ بات ہم سب ہی جانتے ہیں کہ کراچی میں پانی کی طلب اور رسد
میں کافی فرق پایا جاتا ہے۔ کراچی کے واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اس وقت شہر
کراچی کو جن تمام تر ذرائع سے جو پانی فراہم کررہا ہے وہ اونٹ کے منہ میں
زیرے کے مصداق ہے۔ اور یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ واٹر اینڈ سیوریج
بورڈاپنی تمام تر ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں مکمل طورپر ناکام نظر آرہا
ہے۔ رہی سہی کثر کراچی الیکٹرک اور واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی باہمی کش مکش
پورا کررہی ہے ان کی وجہ سے پانی کی فراہمی شدید مثاتر ہوئی ہے۔ اور اس
مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومت وقت کی بھی سنجیدگی اور کوشش سب کو ہی نظر
آرہی ہے۔
اس ناگفتہ صورت حال میں جب کہ ہمیں کراچی کی ضروریات کے مطابق مطلوبہ مقدار
میں پانی میسر ہی نہیں ہے کیا ہم کراچی والوں نے کبھی اس پر بھی غور کیا کہ
ہم اس نعمت ربی کا کس قدر غیر ضروری اور بے دریغ استعمال کرکے اپنی آئندہ
نسلوں کو پیاسا مارنے کا سامان کررہے ہیں، جی ہاں یہ حقیقت ہے لیکن اس کا
ادراک ہم سے اس لیے نہیں ہو پارہا کہ ہماری ایک بڑی اکثریت تعلیم سے محروم
ہونے کے سبب دنیا میں ہونے والے موسمی تغیرات و تبدیلیوں سے آگاہ نہیں ہے
اور نہ گلوبل وارمنگ جیسی اصطلاح سے آشنا ہے۔
دو کروڑ سے زائد آبادی پرمشتمل شہری دن رات ان درپیش مسائل سے پنجہ آزما
ہونے میں اس قدر الجھا دئیے گئے ہیں کہ پاکستان کے تمام قومی ا یشوزپس پشت
ہوگئے ہیں۔ احساس محرومی کے پہلے ہی سے شکار لوگوں کو مزید زندہ درگور ہونے
پر مجبور کردیا گیا ہے۔ ان مسائل پراخبارات‘ میڈیا‘ اینکر ز اورصحافی حضرات
بھرپور آواز اٹھا رہے ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے اکابرین ان مسائل کے
فوری حل کیلئے زور دے رہے ہیں‘ لیکن حکومت وقت کے کانوں پر جوں تک نہیں
رینگتی اورمنتخب نمائندے فنڈز اور اختیارات نہ ہونے کا رونارو رہے ہیں‘ ان
مسائل کے سدباب کیلئے کوئی عملی اقدامات ابتک نہیں کئے جاسکے اور مستقبل
قریب میں بھی کراچی کے باسیوں کو اس اذیت ناک صورتحال سے چھٹکارے کی کوئی
امیدنظر نہیں آتی۔وفاقی حکومت و دیگرادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔
مملکت خداد پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی جوکہ ملک کی معیشت کا 70 فیصد
وزن اٹھاتا ہے‘ کے باسیوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اس صورتحال میں عوام
کی آخری امید عسکری ادارے یا عدلیہ ہیں، یہ ادارے فوری نوٹس نہیں لیتے تو
پھراس شہرکے باسیوں کی احساس محرومی بہت جلد کوئی نہ کوئی رنگ لائے گی
اورنتائج ملک و قوم کے مفاد میں ہرگز نہیں ہوں گے۔اﷲ ہمارے پیارے ملک کو تا
قیامت آباد رکھے، (آمین) |