سعودی لنگر خانہ اور بیعتِ والیٔ بیت الابیض

کون کافر ہے جو سعودیہ کے لنگر خانے کی نعمتیں ٹھکرائے گا۔ خدا جب سے آلِ سعود پہ مہربان ہوا ہے اُن کی جھولیاں بھری ہوئی ہی رہتی ہیں اور اگر کبھی کوئی مشکل وقت پڑا بھی تو غیب سے امداد کے اسباب ہوتے رہے ہیں۔ یار دوست تو یہ بھی کہتے ہیں کہ آلِ سود پر یہ مہربانی خدا کی نہیں بلکہ ان طاقتوں کی تھی جن سے خدا بھی روٹھا روٹھا سا ہے۔ لیکن اب ہم یاروں پہ اتنا اندھا اعتماد بھی نہیں کرنے والے۔ ہمیں علم ہے کہ ہمارے دوست یار ضرور کسی عرب دشمن کی محبت میں ایسا کہہ رہے ہوں گئے یا پھر دنیا بھر میں عربوں کی پذیرائی اُن سے دیکھی نہ جاتی ہو گی۔ خیر آج کل سعودیہ میں ایک بڑا لنگر کھلا ہوا ہے جس میں دنیا بھر کے غریبوں کے رہنماؤں کو دعوتِ طعام دی گئی ہے۔ ہمارے ہاں سے بھی کچھ لوگ وہاں قدم بوسی کو پہنچے ہوئے ہیں۔ غریبوں کے نمائندے پیٹ پوجا کر رہے ہیں جبکہ پاسبانِ حجرِ اسود اور والیٔ بیت الابیض کے بیچ اسرار و رموز چل رہے ہیں۔ ان اسرار و رموز نے دونوں کو سیر کر رکھا ہے۔ ایک کی جیب بھاری ہوتی جاتی ہے تو دوسرے کے گودام آتشیں مال سے بھرے جاتے ہیں۔ سنتے ہیں کہ ہمارے جیسے ملکوں کے سالانہ بجٹ سے کئی گنا اوپر کے مالیاتی معاملات طے ہوئے ہیں۔ اور ایسا ہونا کوئی اچھنبے کی بات بھی نہیں۔ میاں بیوی راضی تو کیا کرے قاضی۔

خیر سعودی لنگر خانہ کے انعامات جاری ہیں اور نئے نئے انکشافات اور احکامات کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ رواں ہے۔ بڑے کٹھ میں یعنی امریکہ عرب اسلامی سربراہی کانفرس نے جہاں نئی شراکت داریوں کا اعلان کیا ہے (گو کہ یہ شراکت داریاں تو ایک مدت سے جاری ہیں) وہیں اس کٹھ کو اچھائی کی قوتوں کے اتحاد کے طور پر بھی متعارف کروایا گیا اور برائی کی قوتوں کے خاتمے کا اعادہ کیا گیا۔ برائی کی قوت کسے قرار دیا گیا یہ بھی کوئی راز نہیں رہا کہ خود پاسبانِ حجرِ اسود اور والیٔ بیت الابیض نے ایران کا نام لے کر واضح کر دیا کہ نشانہ کہاں کو ہے اور سارا شو کس لیے سجایا جا رہا ہے۔ ایران کو تنہا کرنے کے اعلانات کیے گئے یعنی دو مسلم گروہوں کو تقسیم کرنے کا بڑا اعلان۔ اس سرزمین پہ کھڑے ہو کے جس سے آقائے دو جہاں نے دنیا بھر کو امن اور محبت کا پیغام بھیجا تھا۔ اسی سرزمین سے آج مسلمانوں کے بیچ لکیر کھینچ دی گئی۔

ہمارے دانش وروں کے نزدیک ٹرمپ نے اپنا پہلا سرکاری دورہ عرب کا کرتے ساتھ ہی ان شکوک و شبہات کو جھٹلا دیا ہے جو ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران مسلم امہ میں پیدا ہوئے تھے۔ بنیاد پرستوں کو بھی ٹرمپ کے گیت گاتے ہوئے دیکھا گیا ہے اور اس میں کسی کو حیرانی بھی نہیں ہونی چاہیے کہ جب آلِ سعود سرتاپا امریکی صدر کی مدح سرائی میں مشغول ہیں تو ایسے میں ان کے کمیوں کی کیا حیثیت کہ وہ مختلف رائے قائم کر سکیں۔ لیکن یہ سادگی زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہنے والی۔ اسلامی دنیا کو اتنی سی بات بھی سمجھ نہ آئی کہ ان کے اختلافات کو کیسے مہارت سے سامراج نے اپنے حق میں استعمال کیا ہے۔ تقسیم کرو اور حکومت کرو کا پرانا کلیہ پھر کام آیا ہے۔ ٹرمپ کی پالیسی تبدیل نہیں ہوئی اور نہ ہی وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران کیے گئے وعدوں سے مکرنے والا ہے کیونکہ وہ گوالمنڈی کی سیاست نہیں کر رہا بلکہ ایک ایسے ملک کا صدر ہے جس کا اثر پوری دنیا پہ پڑتا ہے۔ ٹرمپ نے دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے لیے Drive them out کا نعرہ لگاتے ہوئے بڑے واضح انداز میں شرکا پہ زور دیا کہ ان شدت پسندوں کو اپنی عبادت گاہوں، اپنے معاشرے، اپنے خطے اور اس زمین سے باہر نکالیں۔ یہ مسلم ممالک کے سربراہوں سے ہی کہا گیا ہے جو وہاں موجود تھے اور جب ٹرمپ نے مقدس زمین سے دہشت گردوں کے اخراج کی بات کی تو یقینی طور اس کا اشارہ سرزمینِ عرب کی جانب بھی تھا۔ اب ایک جانب کھربوں کے دفاعی معاہدے اور دوسری جانب دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا اعلان اور مسلم دنیا کو اپنی صفوں کی صفائی کرنے کے احکامات…… سمجھنے والوں کے لیے پیغام بہت واضح ہے۔ چوہدری نے بندوق تو دی ہے اور ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ نشانہ میں بتاؤں گا گولی تم چلانا۔

امریکی صدر نے اپنے خطبے میں ایران کو لبنان، عراق اور یمن میں دہشت گردوں کا بڑا مددگار اور سبب قرار دیتے ہوئے الزامات کی ایک طویل فہرست قائم کی اور کانفرس کے شرکا پہ زور دیا کہ ایران سے قطع تعلق کر لیا جائے تاوقتیکہ وہ امن عمل کا حصہ نہیں بنتا (بین السطور دیکھا جائے تو ایران جب تک عرب امریکہ کی اطاعت قبول نہیں کرتا)۔ سچ تو یہ ہے کہ آلِ سعود کی میزبانی کا لطف اٹھاتے ہوئے امریکی صدر نے عرب اور ایران کے درمیان موجود لکیر کو مزید گہرا کر دیا ہے اور ان دونوں کے درمیان جو نفرت کی ایک دیوار کھڑی ہو رہی تھی اسے ایک دم بہت بلندی تک لے جایا گیا ہے۔ امریکہ عرب اسلامی کانفرس سے ایران کو دیا جانے والا پیغام صرف آلِ سعود یا امریکہ کا فیصلہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ بلکہ اس میں ان تمام ممالک کی رضامندی شامل ہے جو اس کانفرس کا حصہ تھے۔ ویسے بھی لنگر پہ بیٹھے ہوئے کبھی لنگر کھولنے والے سے عدم اتفاق کی جرات نہیں کر سکتے۔ شاہ سلمان کے ایران مخالف بیان کے بعد کسی اور کے لیے اختلاف کی گنجائش ویسے بھی نہیں رہتی۔ کھربوں کے دفاعی معاہدے نمایش کے لیے تو نہیں کیے جا سکتے۔ یقینا ایک بڑے محاذ کی تیاری ہے جس میں فتح کس کی ہوتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن اتنا ضرور ہے کہ افرادی قوت کے لیے عرب نے باہر سے ہی رجوع کرنا ہے اور آخرش خمیازہ بھی غیر عرب ہی اٹھائیں گئے۔

اس پورے قصہ میں پاکستان کہاں کھڑا ہے اور اس کی آئندہ کی حکمت عملی کیا ہو گی یہ پہلو ہمارے سوچنے کا ہے۔ اس پہ ہماری ریاست کے اداروں کو کو ئی متفقہ پالیسی بنانی ہو گی۔ ہمارے سابق آرمی چیف پہلے ہی اسلامی اتحادی فوج کی قیادت سنبھال چکے ہیں۔ افرادی قوت کے لیے یقینی طور ہماری فوج سے ہی ایک بڑا حصہ وہاں جائے گا۔ اب ایک بار پھر امریکی اسلحہ اور بارود اس خطے میں آ رہا ہے۔ اور اس بار مدارس کی بجائے افواج سے براہ راست افراد لیے جا رہے ہیں۔ اسلحہ بارود کا ممکنہ استعمال اور اس کے بعد کے حالات کیا بننے جا رہے ہیں اس پہ سوچنے کے لیے ہماری ریاست میں کئی ادارے موجود ہیں۔ اگر اب بھی وہ تین عشروں قبل کی فکری سطح پہ موجود ہیں اور حال کے لیے مستقبل قربان کرنے کو ہیں تو یہ ان پہ منحصر ہے۔ کسی بھی حکمت عملی کی تیاری میں جغرافیہ کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ ہم نے پہلے بھی اپنا جغرافیائی مقام اور مستقبل کا ممکنہ منظر نامہ نظر انداز کر کے دوسروں کا آلہ کار بننا پسند کیا تھا۔ آج جبکہ ہم پچھلی جنگ کا ملبہ اٹھانے سے بھی فارغ نہیں ہوئے ایک اور بڑا محاذ ہمارے خطے میں کھلنے کو ہے۔ فیصلہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ مانا کہ ہم بیعتِ والیٔ بیت الابیض کے لیے سعودی لنگر خانے پہ پہنچ چکے ہیں لیکن گزشتہ لنگر نے جن دست و اسہال کی بیماریوں سے دوچار کر رکھا ہے اور بیعت نے جس انفکشن سے ہمیں فیض یاب کیا ہے اس کی اینٹی بائیوٹک ابھی تک دستیاب نہیں ہوئی۔ ایسے میں مزید امراض کو دعوت دینا کہاں کی دانش مندی ہے۔ یہ عربی چولے کی ہی اہمیت ہے کہ والیٔ بیت الابیض چولے والوں کو ہی شرفِ ملاقات بخش رہے ہیں۔ ہمارے بھیجے ہوئے شریف لوگوں سے تو خالص اہلِ محلہ والا سلوک ہوا ہے۔ شادی کا سارا شور شرابا بھی برداشت کریے اور دولہا دولہن کے ساتھ بیٹھ کر تصویر نکالنے سے بھی محروم رہیے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ شادی والے گھر سے آواز بھی لگا دی جائے کہ ’’اساں نئیں ملنا……‘‘ اب اگر کسی چولے والے نے مہربانی کر دی تو شاید کچھ سلام دعا ہمارے شرفا کی بھی ہو جائے ۔ ایک فرشی سلام کی امید تو رکھی جا ہی سکتی ہے۔ ہمارے دوست سید حامد زیدی کے بقول تو شیوخ جب کسی پہ مہربان ہوتے ہیں تو کچھ نہ کچھ تو نوازتے ہیں جس سے شیوخ کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن جسے نوازا جائے اس کی قسمت سنور جاتی ہے۔ سو کیا خبر شیوخ اس باب میں بھی کوئی مہربانی کر ہی دیں۔

Kashif Butt
About the Author: Kashif Butt Read More Articles by Kashif Butt: 25 Articles with 17865 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.