غلام مصطفی کھر ……جس کانام سن کر ایوان اقتدار اور اقتدار
کی طاقت کے دیگر مراکز کانپ جاتے تھے، وہ مصطفی کھر جس کی ایک للکار سے بڑے
بڑے جاگیرداروں کے محلات مین بھونچال آ جاتا تھا …… وہ مصطفی کھر ہاں جی
غلام محمدمصطفی کھر…… جوکسی تعارف کا محتاج نہیں،سابق ،مارشل لا
ایڈمنسٹریٹر پنجاب، سابق گورنر پنجاب،سابق وزیر اعلی پنجاب، سابق وفاقی
وزیر پانی و بجلی کے عہدوں پر فائز رہ کر ملک و قوم کے لیے خدمات سرانجام
دے چکے ہیں، سیاست کا آغاز تو انہوں نے ایوب خان دور میں کردیا تھا، اور
پارلیمنٹ کے رکن بھی منتخب ہوئے، لیکن انہیں سیاست کے میدان میں عروج
ذوالفقار علی بھٹو کا ساتھ دینے اور پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم حاصل ہوا،
زوالفقار علی بھٹو نے ان کی پارٹی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں پنجاب
میں مارشل لا ایدمنسٹریٹر مقرر کیا ،جب مارشل لا اٹھا لیا گیا تو انہیں
وزیر اعلی پنجاب کے منصب پر فائز کرکے پنجاب کے سیاہ و سفید کا مالک بنا
دیا۔ وہ دو بار پنجاب کے گورنر نامزد ہوئے پہلی بار 23 دسمبر1971 سے 12
نومبر 1973 اور دوسری دفعہ 14مارچ 1975 سے 31 جولائی 1975 تک گورنر پنجاب
کے منصب پر فائز رہے۔
مارشل لا کے ہٹائے جانے اور دستور 1973 کے نافذ العمل ہونے پر انہیں12
نومبر1973کو پنجاب وزیر اعلی منتخب کیا گیا اور وہ اس عہدے پر 15 مارچ 1974
تک رہ کر خدمات سرانجام دیتے رہے، یہاں انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو سے
اختلافات کے باعث اپنے منصب سے استعفی دیدیا، اس حوالے سے اس بات کا ذکر
کرناضروری سمجھتا ہوں کہ 1974کے اوائل کے مہینوں میں سے کسی ایک مہینے
مصطفی کھر وزیر اعلی پنجاب کی حثیت سے شرقپور شریف آئے اور یہاں انہوں نے
چودہری نثار احمد پنوں مرحوم کی انتخابی مہم کے سلسلے میں منعقدہ انتخابی
جلسے سے خطاب کیا ،علاقے کے مسائل کے حل کے لیے عوامی مطالبات تسلیم کیے
اور اعلان کیا کہ کل وہ قصور جا رہے ہیں اور وہاں پیپلز پارٹی کے ایک ایم
این یعقوب مان کے ظلم کے خلاف لڑیں گے، اور واقعی مصطفی کھر اگلے روز قصور
پہنچے اور وہاں انہوں نییعقوب مان کے خلاف جو کرنا تھا وہ کیا۔ اس کے بعد
وہ وزارت اعلی سے الگ ہوگئے۔
کچھ عرصہ خاموش رہنے کے بعد دوبارہ انہیں پنجاب کا گورنر بنا دیا گیا لیکن
اس بار وہ محض چند ماہ کے لیے اس منصب پر فائز رہے اور پھر پیپلز پارٹی سے
تعلق توڑ لیا اور مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلیا، اور لاہور کے معروف
انتخابی حلقے چھ سے پیپلز پارٹی کے امیدوار شیر محمد بھٹی کے مقابلہ میں
ضمنی انتخاب لڑا، دھواں دار جلسے کیے ، تاجپورہ کے انتخابی جلسے میں اپنے
استاد ذوالفقار علی بھٹو کو للکارا، جلسے میں بھگڈر مچی کئی افراد جان سے
ہاتھ دھو بیٹھے، مصطفی کھر کی پیپلز پارٹی سے علیحدگی نے دم توڑتی اپوزیشن
کے مردہ تن میں جان ڈال دی۔
قومی اتحاد نے انتخابات ( 1977) میں دھاندلی کا شور مچایا اور انتکابی
نتائج کو قبول کرنے سے انکار کردیا، قومی اتحاد کی گھیراؤ جلاؤ کی تحریک کے
جواب میں ذوالفقا ر علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کے ورکرز کو کسی قسم کے جلسے
اور جلوس نکالنے سے منع کردیا تاکہ ملک خانہ جنگی کی نذر نہ ہو جائے، قومی
اتحاد جسے غیر ملکی اور اندرونی قوتوں کی آشیر باد حاصل تھی ،نے سول
نافرمانی اور پہیہ جام ہڑتال کی کال دیدی جسے ذوالفقار علی بھٹو نے مسترد
کیا اور کہا کہ اس قسم کی ہڑتال ہمارا کلچر نہیں ہے یہ غیر ملکی ہتھیار ہے،
ا لہذ ا عوام اس سے لاتعلق رہیں۔
اس موقعہ پر مصطفی کھر ایکبار پھر پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے اور اعلان
کیا کہ وہ کبھی بھی اپنے استاد ذوالفقار علی بھٹو سے جدا نہیں ہوئے اور
انہوں نے عوامی رابطہ مہم کے سلسلے میں متعدد جلسے اور جلوس کیے، شائد اس
حوالے سے بہت دیر ہو چکی تھی …… چند روز بعد جنرل ضیا ء الحق نے ذولفقا ر
علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ملک سے جمہوریت کی بساط لپیٹ دی۔بھٹ
اور دیگر راہنماؤ ں کے ہمراہ کھر صاحب کو بھی حراستی تحویل میں لے لیا گیا،
جہاں سے وہ جنرل ضیا کے ساتھیوں کو چکمہ دیکر بیرون ملک چلے جانے میں
کامیاب ہوگئے۔
وہ دن جائے اور آج کادن آئے…… مصطفی کھر دوبارہ سیاست میں پہلے والے مقام
اور حثیت کے حصول کے لیے سرگرداں ہے، جلاوطنی کے دوران بیرون ملک قیام کے
دوران اپنے استاد کی دختر مشرق کو چیلنج کرتے رہے، بھٹو خاندان سے اپنی
وابستگی کو بھلا کر بے نظیر بھٹو کو پارٹی قیادت کر قبضہ کرنے کی کوشش کرتے
رہے، بے نظیر بھٹو شہید کے انکلز کے نام سے مشہور غلام مصطفی جتوئی، ملک
معراج خالد، میاں احسان الحق اور غلام مصطفی کھر نے ایسا ہر وہ حربہ
استعمال کیا جس سے بے نظیر بھٹو کو پیپلز پارٹی بے دخل کیا جا سکتا۔ لیکن
ان انکلز کی تمام ہوشیاری ،چلاکی ، ذہانت اور تجربہ جواں سال دختر بھٹو کی
ذہانت، ہوشیاری ،چالاکی کے آگے ہیچ ثابت ہوئے، بے نظیر بامراد اور انکلز
نامراد ٹھہرے
1985-86 میں وطن واپسی سے قبل اپنی سیاسی جماعت نیشنل پیلپلز پارٹی قائم کی
اس کے سربراہ غلام مصطفی جتوئی بنے جو ان کے یار غار مشہور تھے اور سکریٹری
جنرل کھر صاحب خود مقرر ہوئے لیکن کچھ عرصہ بعد ’’یار غار ‘‘ سے اختلافات
ہوئے اور نیشنل پیپلز پارٹی دو دھڑوں نیشنل پیپلز پارٹی کھر گروپ اور نیشنل
پیپلز پارٹی جتوئی گروپ میں تقسیم ہوگئی، جنرل ضیاء کی غیر فطری موت کے بعد
ہونے والے انتخابات سے قبل کھرصاحب نے اپنے دھڑے کو ختم کردیا لیکن جتوئی
صاحب موت کی آغوش میں جانے تک اسے چلاتے رہے ،مگر بعد میں ان کے فرزند غلام
مرتضی جتوئی نے اسے مسلم لیگ نون میں ضم کرکے اس سے جان چھڑا لی۔ذوالفقار
علی بھٹو اور ان کی دختر کی قیادت کو چیلنج کرنے والے یہ انکلز اپنی سیاسی
پارٹی کو چند سال بھی نہ چلا سکے۔
کل جس شیر پنجاب کی ایک دھاڑ سے بڑے بڑے سیاسی سورما لرز اٹھتے تھے آج وہ
شیر پنجاب ،اپنے ہی پنجاب میں غیر اور بے وقعت سا بن کر رہ گیا ہے، کوئی
پوچھنے والا نہیں، اس کی ایک مثال دیتا ہوں گزشتہ روز پریس کلب کی جانب سے
میل موصول ہوئی کہ پریس کلب کے پروگرام ’’ گیسٹ آف آرنرز ‘‘ میں پنجاب کے
سابق وزیر اعلی و گورنر مہمان ہوں گے اور وہ صحافیوں سے ملکی حالات پر
گفتگو کریں گے، میں اپنے دوست امجد صدیقی کے ہمراہ کوئی تین بجے دوپہر ہی
پریس کلب جا کر بھیٹھ گئے، پہلے باہر کھلی فضا میں بیٹھ کر گپ شپ کی پھر
استقبالیہ میں چلے گئے وہاں دریرینہ دوست طاہر اصغر سے ملاقات ہوئی بہت
مفید بات چیت ہوتی رہی کچھ وعدے کیے اور کچھ عہد و پیمان لیے، یہاں سے اٹھ
کر نیچے لابی میں بیٹھ کر ٹی وی کا نظارہ کیا اور آنکھیں بار بار باہر کی
جانب اٹھتی رہیں، مطلب وہ مصطفی کھر کی تلاش میں تھیں۔
میرا خیال تھا مصطفی کھر یعنی شیر پنجاب کی آمد سے قبل تحریک انصاف کے
کارکنان پریس کلب کو اپنے قبضہ میں لیے ہوں گے، ہر طرف پی ٹی آئی کے جھنڈوں
کی بہار ہوگی، اور پھر کھر صاحب کی آمد سے پریس کلب شیر پنجاب اور مصطفی
کھر کے نعروں سے گونج اٹھے گا اور تالیوں اور نعروں کے شور میں شیر پنجاب
مصطفی کھر پریس کلب میں داخل ہوں گے، اور اس وقت تک پریس کلب کا نثار
عثمانی ہال صحافیوں اور پی ٹی آئی کے کارکنان سے کھچا کھچ بھر چکا ہوگا،
لیکن صورتحال کا مشاہد ہ کرکے بہت مایوسی ہوئی، پریس کلب میں پی ٹی ٓائی کا
ایک بھی کارکن دکھائی نہیں دیا اور نہ ہی پی ٹی اائی کو کوئی جھنڈا نظر
آیا، ہو کا عالم تھا، اس صورت حال کو حبیب جالب کے اس شعر سے واضح کرتا ہوں
جو انہوں نے ضیائی ریفرنڈم کی منظر کشی کرتے لکھا تھا،’’ ہو کا عالم تھا
ریفرنڈم تھا یا کوئی جن تھا‘‘ پریس کلب کی جانب سے بھی شیر پنجاب جوکہ
حقیقت میں اب بوڑھا ہوچکا ہے اور اس کی حثیت اس بوڑھے کی سی ہوتی ہے جس کی
عالم شباب میں تو ساری اولاد تابعداری کرتی ہے لیکن جب وہ بوڑھا ہوجاتا ہے
تو عالم ضعیفی میں گھر کے ملازم بھی اس کاکہنا نہیں مانتے۔پریس کلب کے
منتخب عہدیداروں میں سے صرف سکریٹری جناب عبدالمجید ساجد موجود تھے اور
وہیں سٹیج پر بوھے شیر کے ساتھ براجمان تھے۔
مجھے یاد ہے کہ 1993 میں نیشنل ڈیموکریتک الائنس( این ڈی اے) کے ایک اجلاس
میں جو آواری میں منعقد ہو رہا تھا ،سے خطاب کرتے ہوئے سابق شیر پنجاب نے
اس امید یا خواہش کا اظہار کیا تھا کہ انہیں کسی منصب ، آفس کی طلب نہیں
کیونکہ جیسا اقتدار انہوں نے دیکھا ہے ویسا کسی اور نے نہیں دیکھا ہوگا، اب
تو میری بس یہی آرزو ہے کہ وہ ملک اور قوم کے لیے کچھ کام کرجاؤں،…… گزشتہ
روز پریس کلب میں بھی صحافیوں سے مخاطب ہوکر مصطفی کھر نے اپنی اسی آرزو
اور خواہش کا اظہار کیا، بلکل وہیں خیالات ،وہیں تمنائیں وہیں آرزوئیں ان
کے خطاب کا مرکز و محور تھیں،1993 اور 2017 کے درمیان بہت عرصہ بیت گیا ہے،
حالات بہت تبدیل ہو چکے ہیں، لیکن سابق شیر پنجاب کے خیالات امیدیں ،
تمنائیں اور آرزوئیں نہیں بدلیں اور نہ ہی کھر صاحب خود کو تبدیل کر سکے
ہیں، اب جاگیرداری کے زمانے نہیں…… مصطفی کھر کو یہ بات سمجھ لینے کی ضرورت
ہے۔
پیپلز پارٹی سے علیحدگی کے بعد سابق شیر پنجاب ملک غلام مصطفی کھر کو بہت
سارے دروازوں پر دستک دینی پڑی ہے، کبھی انہیں مرحوم پیر پگاڑا( شاہ مردان
علی پگاڑا) کی قیادت میں چلنا پڑا، کبھی غلام مصطفی جتوئی کو قائد تسلیم
کرکے ان کے سامنے جھکنا نصیب میں ٹھہرا، تو کبھی نواز شریف کے پیچھے ہاتھ
باندھ کر کھڑا ہونے کی نوبت آئی، کل عالم نے دیکھا کہ 1988 اور اس سے قبل
نواز شریف کو چیلنج کرنے والا مصطفی کھر ان کی وطن واپسی کے وقت ان کے جہاز
میں ان کے پیچھے کھڑا ہوکر اقتدار کی بھیک مانگتا ہے۔
سیاست دان سیاست میں اس لیے آتا ہے کہ ملک کی خدمت کرنے کے ساتھ عوام کی
غربت دور کرے یہی نعرہ مصطفی کھر لگاتے رہے ہیں اور اب بھی لگاتے ہیں لیکن
مصطفی کھر کی سیاست میں اب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ مصطفی کھر سیاست میں اس
قدر غریب ہو گئے ہیں کہ جن سیاستدانوں کو ان کے پیچھے چلنا چاہیے تھا ، جن
کو سیاست کے داؤ پیچ ان سے سیکھنے چاہئیں تھے ، جنہیں انکی انگلی تھام کر
سیاست کے کوچے میں داخل ہونے کی ضرورت تھی……آج وہیں مصطفی کھر ان کی قیادت
کرنے کی بجائے ان کے پیچھے کھڑے ہوکر ،ان کے قصیدے پڑھ کر ان سے اقتدار کی
بھیک مانگنے پر مجبور ہے،اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے، سیاست کا چیمپئن
سیاست سے نابلد افراد کی سیاست کررہا ہے۔
کہنے کو تو مصطفی کھر کا کہنا یہ ہے کہ وہ عمران خاں سے کچھ نہیں مانگتا،
عمران خاں سے کسی سیٹ یا عہدے کا مطالبہ نہیں کیا ، بلکہ کہا ہے کہ اگر وہ
کوئی ذمہ داری سونپیں گے تھے مصطفی کھر اسے پورا کرنے کی کوشش کرے گا۔یہ
باتیں مصطفی کھر آج سے کچھ عرصہ پہلے اس وقت بھی کرتے تھے جب انہوں نے نواز
شریف کو خود سے بہتر سیاستدان تسلیم کرتے ہوئے اسکی قیادت کے آگے سرتسلیم
خم کیا تھا…… یہیں باتیں اس نے اب عمران خاں کی قیادت قبول کرتے وقت کہیں
ہیں اور کہہ رہا ہے……مجھے بھی اس خوش قسمت شخصیت کی تلاش ہے جو مصطفی کھر
کی اارزوئیں ،تمنائیں اور خواہشات اور اس کے خوابوں کو تعبیر فراہم کر
سکے…… شائد ایسا مصطفی کھر کی باقی زندگی مین کبھی نہ ہو پائے، اس کی قجہ
یہ ہے کہ سیاست مین خوابوں کی تعبیر پانے اور لوگوں کے خوابوں کی تعبیر
دینے ،اپنی آٓرزوؤں کی تکمیل کے لیے اپنی اناؤں کو مارنا پڑتا ہے، عزت
کمانے کے لیے دوسروں کو عزت دینی پڑتی ہے، لیکن مصطفی کھر ……جیسے کنجوس شخص
کے لیے یہ سب کچھ پانا ممکن نہیں، مجھے تو لگتا ہے کہ مصطفی کھر کی آخری
خواہش شائد ہی کوئی پوری کرپائے، ان کے مقدر میں یوں ہی کوچہ سیاست میں
دربدر پھرنا ہی لکھا ہے۔ |