آئیے وطن پاک کے احوال پر کچھ غور کرلیں اور ٹرمپ
جی کے فرمودات کا شطرنج کی چالوں کی روشنی میں مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ
ایک ہی پتھر سے کتنے شکار کر دیئے ہیں ظالم نے ۔ یہ تو طاہر ہے کہ ٹرمپ صرف
ریاض کے محلات میں ہی دکھائی نہیں دیا وہ تو چند گز دور کابل میں بھی رہتا
ہے اور عشروں سے شطرنج کی چال بچھا رکھی ہے اور پیلی پگڑی والے اپنے جگری
یار کو سینے سے چپکایا ہوا ہے۔ ذرا نگاہ پیچھے دوڑا کر دیکھئے ۔ فروری
دوہزار چھ کے پینٹا گون کے سرکاری جریدے میں ایک ناپاک تحریر بعنوان’’ری
شیپنگ مڈل ایسٹ‘‘ چھپی تھی اور اس میں ہرزہ سرائی کی گئی تھی کہ اسی سال سے
پاکستان ٹوٹنے کا عمل شروع ہو چکا ہے (نقل ، کفر، نہ باشد) اور بیس سو بارہ
تک یہ عمل مکمل ہو جائے گا اور بیس سو بیس کے دنیا کے نقشے پر پاکستا ن
دکھائی نہیں دے گا۔ مولانا ظفر علی خان یاد آ گئے: ’’ نورِ خدا ہے کفر کی
حرکت پہ خندہ زن۔ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا‘‘ (انشاء اﷲ تعالیٰ)۔
نا پاک ذہنوں کے نا پاک عزائم کی نشاندہی کے لیے یہ آرٹیکل اور اس کے ساتھ
چھپا ہوا ناپاک نقشہ بہت کافی تھے اور آج بھی کافی ہیں۔ ٹرمپ کے ارشادات اس
کی فوجوں کے قیام کابل کی روشنی میں ہی سمجھے جا سکتے ہیں۔
اس نے انتخابی مہہم میں اپنے دلی جذبات کی خوب نمائش کی تھی۔ تاہم جب
اقتدار کی کرسی پر کچھ تپش محسوس ہوئی تو لہجے میں ٹھہراؤ آتا گیا۔ اس کا
دورہ ریاض بہت سی جہتوں کا حامل ہے ۔ یہ سعودی بادشاہت کے تدبر اور شاہی
سیاست کا غماز ہے۔ شاہ فہد کے بعد موجودہ شاہ نے مغرب خصوصاً امیریکیوں کی
نفسیات کے مطابق پتے پھینکے ہیں۔ سرمایہ دارانہ ذہنیت کی تمام تر تگ و دو
پیسے سے پیسے تک ہوتی ہے اور سعودی بادشاہت نے اس میدان میں ٹرمپ سے شاندار
معاملت کی ہے،ٹرمپ نے دیکر کیا جانا تھا اُلٹا سعودی خزانوں کے ڈھیر پیٹھ
پر لاد کر چلا گیا کہ امریکیوں کو اپنی کامیابی کے نظارے کر ا کر داد وصول
کرے۔ سعودی بادشات دنیا کی تیز ترین ڈپلومیسی کی مہارتوں سے مالا مال ہے۔
ہماری نا چیز دعائیں بھی ان کے ساتھ ہیں مگر ایک مودبانہ درخواست کے ساتھ
کہ شاہ فیصل جیسی دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلامی اتحاد کو ہر قسم
کی رسہ کشی اور باہمی تقسیم سے بچایا جائے ۔ ایران عظیم اسلامی ریاست ہے ۔
ڈیڑھ ہزار سالہ فقہی دراڑ کو اسی پس منظر میں دیکھا جائے۔ ٹرمپ نے ’’ یہودی
، عیسائی، شیعہ، سنی‘‘ کی ترکیب غلط استعمال کی ہے ، یہ ’’ یہودی، عیسائی،
مسلمان‘‘ کہنے کا موقع تھا۔ اکیسویں صدی کے اس مرحلے پر عالمی سطح کے ہر
محاذ پر عظیم الشان معرکہ آرائی ہو رہی ہے ، جدید ترین وسائل اورمہارتوں سے
آراستہ دماغ عجیب ترین شاطرانہ چالیں چل رہے ہیں مگر اسلامی جمہوریہ
پاکستان اپنی تاریخ کے تین خطرناک عشروں کی سیاستوں کے انجام سے گزر رہا ہے۔
وطن پاک کی تاریخ کو ’’ زی اے این‘ ‘ تگڑم کی بد ترین لیڈریوں نے تباہ و
برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ ایک کے پلے میں ’’ شوہری‘‘ کے سوا کوئی کمال نہ
تھا تو دوسرے کو لندن و دہلی کی گود سے جو کچھ پلایا جاتا رہا ملک اسے بھگت
رہا ہے اور تیسرے کے بارے میں یہ نعرہ آپ نے سنا ہو گا کہ ’’ سیاستِ شریفاں
کا بانی ۔جنرل جیلانی‘‘۔ اُس ظالم شخص نے ایک چالاک لوہار سے سودا کر کے
ملک کا مستقبل نا اہل ترین ہاتھوں میں دینے کے جرم کا ایسا ارتکاب کیا جس
سے آج ہمارا پیارا وطن زخمی زخمی اور زخموں سے چور ہے۔ موجودہ حکمران کسی
سیاسی میرٹ کی بنیاد پر پنجاب کی کیبنٹ میں داخل نہ ہوا تھا، یہ صریحاً ایک
ڈیل تھی۔ اس کے بعد تو لفافہ کلچر ، خوشامد، کرپشن، نااہلی، بے دماغی،
بدتدبیری، ذاتی اغراض وغیرہ چھوت کی بیماریوں کے سوا وطن پاک کو کچھ نہ ملا۔
بس یوں کہیے کہ دل یا دماغ کا مریض بے ہوش کر کے آپریشن تھیٹر میں لٹا دیا
جائے اور کسی خرادیئے کے ہاتھ میں سرجیکل حالات پکڑا دیئے جائے اور سرجن کی
وردی پہنا کر فرمائش کی جائے کہ حضور مریض کا اپریشن کر ڈالیئے اور سرجن کے
فضائل بیان کرنے کیلئے کلین شیو، مونچھ بردار اور مرد و زن کو مائیک پکڑا
دیئے جائیں کہ پورے شہر میں مہارت سرجن کے گن گاتے جائے _____ وزیر ٹی وی
سکرین پر غلط بیانیوں پر اترے ہوئے ہیں کہ ووٹ سے آئے ہیں ووٹ سے جائیں گئے
۔ حالانکہ صرف اور صرف چور دروازے سے ’’ نوٹ ‘‘ کے ذریعے آئے تھے ، مگر نا
جانے جائیں گئے کس طرح‘‘ شاید اﷲ کریم کسی کورٹ یا کوٹ والوں کو توفیق دے
ڈالے ۔ واپس آئیے ٹرمپ کی جانب ۔ یہ جو ایران پر انگشت نمائی کی گئی ہیں تو
کیا اس کے جواب میں ایرانی ریاست چپ سادھ لے گی۔ ہم تو خوف زدہ ہیں کہ
خدانخواستہ کابل و ریاض میں ٹرمپ کی کارستانیوں کے نتیجے میں پاکستان کو
ہمسایہ مسلمان بھائیوں کی جانب سے کسی کھیل کا آغاز نہ ہو جائے (تاریخ میں
کویت عراق اور عراق ایران جنگوں کے ابواب بھی تو موجود ہیں)۔ ویسے بھی مشرق
والا بد ترین دشمن مغربی بارڈر کے چپے چپے پر مورچے بنائے بیٹھا ہے اور
پاکستان دشمنی کے سب ریکارڈ توڑ دیناچاہتا ہے مگر تعجب ہے کہ اس بد ترین
دشمن کی محبت کی پینگیں جیلانی کی لگائی پنیری کے ساتھ منسوب ہیں۔ کیا جنرل
جیلانی کو پاکستان کی تاریخ بدلنے یا مسخ کرنے کا مینڈیٹ حاصل تھا ، کاش کہ
کبھی کوئی قومی کمیشن ’’شریف جیلانی ڈیل‘‘ کی تفصیلات قوم کے سامنے لائے
تاکہ’’ ووٹ سے آنے ‘‘ کی حقیقت سامنے آ جائے۔ شرق و غرب کے بارڈرز غیر
محفوظ ہو جائیں تو کیا ہم سی پیک کے صرف نغمے ہی گاتے رہیں ۔ جناب قومیں
اپنے تدبر ، عزم اور قوت سے آگے بڑھتی ہیں۔ چینی ہمارے دوست ، بھائی ہمدرد
ہیں مگر ہم اُن کا استقبال بے مثال نا اہلیوں اور کرپشن کی داستانوں کے
ذریعے کیوں کریں ۔ وہ قوم تو تاریخ کا ایک عظیم الشان عجوبہ ہے کہ اپنے
عظیم لیڈر کی قیادت میں افیمی کے مقام سے اٹھ کر لمحہ موجود کی ٹیکنالوجی
کی سپر پاور بن چکی ہے ۔ اس کے ساتھ مل کر کام کرنے کیلئے لائق ، دیانتدار
، پرعز م اور شفاف کردار کی حامل قیادت درکار ہے نہ کہ زی اے این ٹائپ
عیبوں سے بھر پور لیڈریاں ۔ اﷲ کریم ہمارے حال پر رحم فرمائے۔(آمین)
|