تحریک آزادی جموں و کشمیر……برہان وانی سے اب تک

برہان وانی مخض پندرہ برس کا ایک سجیلا نوجوان تھا۔ ایک سکول پرنسپل کا بیٹا اور شاندار تعلیمی ریکارڈ کا حاصل ہونے کے باوجود اس نوجوان نے تحریک میں شمولیت اختیار کی تو کشمیری نوجوانوں کے لیے رول ماڈل بن کر ابھرا۔ سوشل میڈیا پر اس کے پیغامات اور تصاویر ویڈیو آنا شروع ہوئے تو بھارت سرکار کے ہاتھ پاؤں پھولنا شروع ہو گئے۔ اس نوجوان کو کشمیریوں کا آئیڈیل بننے سے روکنے کے لیے بھارت سرکار اور اس کی قابض افواج نے سرتوڑ کوششیں شروع کر دیں۔ پوری مشینری اور سات لاکھ بھارتی آرمی کو استعمال کرتے ہوئے برہان وانی کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا مگر یہ شہادت تحریک آزادی کو مزید تقویت دے گئی۔لاکھوں نوجوان برہان وانی کے جنازے میں شریک ہوئے۔ بھارتی فوج کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے جس میں نوجوانوں کی کثیر تعداد شریک ہوئی تھی۔ ہزاروں نوجوانوں نے عزم کیا کہ وہ شہید برہان وانی کا راستہ اختیار کریں گے۔ بھارتی میڈیا ہی کی رپورٹس کے مطابق سینکڑوں نوجوانوں نے حریت کی زندگی اختیار کر لی۔ یوں بھارت سرکار جس برہان وانی کی شہادت کے ذریعے تحریک کو کمزور کرنے کی تمنا دل میں لیے بیٹھا تھا تحریک ایک بے مثال جذبے سے زندہ ہو گئی۔

بھارت کی قابض فوج نے طاقت کا اندھا دھند استعمال کیا۔ نہتے کشمیریوں پر بیلٹ گنوں کا استعمال کیا گیا اور بے دریغ گولی کا استعمال ہوا۔ مگر یہ ظلم و ستم کشمیریوں کے حوصلے پست نہ کر سکا۔ بلکہ تحریک روز بروز مزید شدت اختیار کرتی گئی۔ حالیہ چند ماہ میں بھارتی فوج نے اپنے مظالم کے دوران 500 سے زائد افراد کو نا بینا کیا جن میں بڑی تعداد معصوم بچوں کی تھی، 1000سے زائد افراد وہ تھے کہ جن کی آنکھیں تو کسی قدر بچ گئیں مگر اس کے لیے طویل آپریشن کروانے پڑے۔ کشمیریوں کی سینکڑوں شہادتیں اس کے علاوہ ہیں۔احتجاج کی اس لہر کے دوران ہر طرح کے پروپیگنڈے اور ہتھیار سے کشمیریوں کی آواز دبانے کی کوشش کی گئی لیکن بھارت سرکار کامیاب نہ ہو سکی۔ روزانہ کی بنیاد پر ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نوجوان، مرد، عورت اور بوڑھے اس احتجاج میں شریک ہوتے اور اپنے حصے کا فرض بخوبی سر انجام دیتے رہے۔

کشمیریوں کی اس لازوال جدوجہد کی گونج عالمی میڈیا میں بھی سنائی دی اور متعدد موقرعالمی اداروں نے اس پر رپورٹس نشر کیں کہ کس مانند کشمیر کے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ ے جارہے ہیں مگر بھارت سرکا رنے مظالم کو کم کرنے کے بجائے اور بڑھا دیا۔اسی دوران کشمیریوں کو تحریک آزادی سے باز رکھے کے لیے طرح طرح کے شوشے چھوڑے گئے۔ ان میں بھارت نے اپنے پروردہ لوگوں کو داعش کے نام پر کھڑا کیا اور دنیا کو یہ باور کر دینے کی کوشش کی کہ کشمیر میں بھی دہشتگردی ہے اور اسے ختم کرنا ضروری ہے مگر کشمیریوں نے اس چال کو بری طرح ناکام بنادیا۔بھارت سرکار نے مال و دولت کے عوض کشمیریوں کے بے شمار پیکج دینے کا اعلان کیا مگر یہ سب کشمیر کی غیور عوام کی جانب سے ٹھکرا دیا گیا۔

برہان وانی کی شہادت کے بعد نوجوان اس قدرنڈر ہو گئے کہ بھارتی فوج کا مقابلہ بھی کرنے لگے۔ اگر چہ ان نوجوانوں کے ہاتھوں میں جدید ترین اسلحہ کے مقابل صرف پتھر تھے۔ مگراس کے باوجود ان کا جذبہ قابل دید تھا ۔کشمیریوں کی جانب سے بھارتی فوج پر پتھراؤ ایک نیا چیلنج تھا جسے دور کرنے کے لیے آرمی نے تمام تر ذرائع استعمال کیے مگر ناکام رہی۔ بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت نے دھمکی دی کہ جو نوجوان بھارتی فوج پر پتھراؤ کرے گا اسے بھی مجاہدین کا ساتھی سمجھا جائے گا اور اس پر بھی گولی چلائی جائے گی۔ مگر بھارتی آرمی چیف شاید یہ بھول گئے کہ کشمیری تو دل و جان سے اس وقت مجاہدین کے ہمقدم ہیں اور یہ گولیاں انہیں نہیں ڈرا سکتیں بلکہ وہ تو شہادت کے متلاشی ہیں۔ چنانچہ اس پتھراؤ میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی ۔ صورتحال یوں بنی کہ مجاہدین نے جب بھی بھارتی فوج پر حملہ کیا تو کشمیری عوام نے پتھراؤ کے ساتھ ان مجاہدین کا بھر پور ساتھ دیا۔

کشمیر کی اس بڑھتی ہوئی کشیدہ صورتحال میں بھارت سرکار نے کشمیر کے بارے میں دنیا کو دھوکہ دینے کے لیے انتخابات کا ڈھونگ رچایا۔ سوپور اور دیگر علاقوں میں ضمنی انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات میں کشمیری عوام نے واضح طور پر بھارت سرکار کو دھول چٹائی۔سوپور میں صرف سات فیصد لوگوں نے ووٹ کاسٹ کیا۔ جبکہ سری نگر میں ٹرن آؤٹ صرف دو فیصد رہا۔ یہ بھارت سرکار کے منہ پر کشمیری عوام کی طرف سے زوردار طمانچہ تھا۔ الیکشن کے دن تمام تر پولنگ سٹیشن ویران پڑے رہے جبکہ انتخابی عملہ اور بھارتی فوج کی تذلیل کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا کے توسط سے دنیا تک پہنچیں۔

اسی دوران بھارتی فوج نے اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کشمیریوں کے پتھراؤ سے بچنے کے لیے ای انسانیت سے گری ہوئی حرکت کی۔ ایک کشمیری نوجوان جو ووٹ ڈالنے کی غرض سے ہی گھر سے آیا تھا اسی کو پکڑ کر سنگ باز بنا دیا اور فوجی جیپ کے آگے باندھ دیا گیا۔ انسانی ڈھال کے انتہائی نیچ حربے کو استعمال کرتے ہوئے کشمیریوں کے پتھراؤ سے بچا گیا۔ اس واقعہ پر دنیا بھر کے زندہ ضمیر لوگ آواز بلند کرنے پر مجبور ہوئے اور اس واقعہ کی دنیا بھر میں مذمت کی گئی لیکن بھارت سرکار اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہی۔ جس میجر نے یہ رذیل حرکت کی اسے سزا دینے کی بجائے بھارتی چیف کی طرف سے میڈل دیا گیا۔ الغرض کشمیریوں پر تشدد اور ظلم و جبر کا سلوک روا رکھنے کی بھر پور حوصلہ افزائی کی گئی۔

اگر چہ تحریک آزادی کشمیر میں وادی کا ہر طبقہ بھر پور انداز میں شریک تھا مگر تحریک میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب پلوامہ کے ایک کالج کے طلبا پر بھارتی فوج نے ہلہ بولا۔ ان طلبا سے اظہار یکجہتی کے لیے کشمیر کے طلبا سڑکوں پر آگئے۔ ان طلبا نے کمر پر بیگ لادے ہوئے تھے اور ہاتھوں میں پتھر تھے۔ ان کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا کہ ہم کیا چاہتے ……آزادی۔ ان باوردی طلبا کو روکنے کے لیے بھارت سرکار نے پھر سے ظلم و ستم کی داستانیں رقم کرنا شروع کیں تو ایسے موقع پر کشمیری طالبات بھی اپنے ان بھائیوں کے ہمراہ میدان میں اتریں۔ صنف نارک ہونے کے باوجود بڑے بڑے جری جوانوں سے کہیں بڑھ کر ان کشمیری طالبات نے بھارتی فوج کا مقابلہ صرف پتھروں سے کیا۔ قابض فوج پر پتھراؤ کرتی طالبات کی تصاویر پوری دنیا میں پھیل گئیں۔ بھارت سرکار نے اپنے میڈیا کی مدد سے پروپیگنڈہ کیا کہ ان سنگ بازوں کو پیسے دیے جارہے ہیں اور 100 سے 500 روپے کے عوض یہ نوجوان بھارتی فوج پر پتھراؤ کرتے ہیں۔ یہ دعویٰ سراسر جھوٹ پر مبنی تھا۔ اسی دعویٰ کی صداقت یوں بھی عیاں ہوئی کہ جب سرینگر میں ایک صحافی نے پتھراؤ کرتی طالبہ سے پوچھا کہ آپ کو کتنے پیسے ملے ہیں تو اس نے اپنے بیگ میں سے مہنگا ترین فون نکال کر اس صحافی کو دکھایا کہ ہم پیسوں کے لیے نہیں بلکہ اپنی قوم کی آزادی کے لیے پتھراؤ کر رہی ہیں۔ الغرض برہان وانی کی شہادت سے جو دیپ جلا اس کی روشنی دن بدن بڑھتی ہی چلی گئی۔ برہان وانی نے جس جذبہ حریت کو بیدار کیا بھارت سرکار اسے تمام تر کوشش کے باوجودد ٹھنڈا نہ کر سکی بلکہ یہ تحریک روز افزوں ترقی کی جانب بڑھ رہی ہے۔

آج دنیا بھر میں بھارت سبکی کا شکار ہے۔ کشمیری پورے جوش و خروش سے بھارت کے خلاف آواز بلند کیے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کشمیریوں کے ہم آواز ہو کر کشمیر کی آزادی کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ بھارت سرکار بھی یہ سمجھ لے کہ کشمیریوں کو یہ آزادی دے دے وگرنہ بھارت کے ٹکڑے ہی اس کا مقدر ٹھہریں گے۔
 

Hunzala Amad
About the Author: Hunzala Amad Read More Articles by Hunzala Amad: 8 Articles with 7610 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.