بعض جملے یا فقرے اس قدر اثر انگیز ہوتے ہیں جو بھلائے
نہیں بھولتے اور وقفے وقفے سے ذہن و دل کے کینوس پر ابھرتے رہتے ہیں ۔گذشتہ
دنوں پاکستان کے مشہورصحافی و کالم نویس حسن نثار کے ایک مضمون کا یہ جملہ
نظروں سے گزرا تو ایسا لگا کہ دل کے سارے تار جھنجھنا اٹھے ہوں اور بڑ ی
دیر تک اس کے اثرات دل و دماغ پر کچوکے لگاتے رہے ۔انہوں نے لکھا ہے کہ’’
انور کمال پاشا کبھی پاکستانی فلم انڈسٹری کا بہت بڑا اور معتبر نام تھا
جنہیں انڈین فلم انڈسٹری میںبھی انتہائی احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا
تھا ۔حکیم احمد شجاع پاشا جیسے نامورآدمی کے اس نامور بیٹے کے انتہائی
عروج اور انتہائی زوال کی سچی کہانی تو سنسنی خیز ہے ہی لیکن ان کی ایک
مشہور فلم کے ایک انتہائی مشہور مکالمے کے حوالے سے آفاقی صاحب کا تبصرہ و
تجزیہ اس سے بھی زیادہ سنسنی خیز اور خوفناک ہے ۔غور فرمایئے ، آفاقی
مرحوم لکھتے ہیں ان کی فلم ’انتقام ‘ ریلیز ہوئی تو وہ ’ گمنام ‘ سے بھی
زیادہ کامیاب ہوئی ، اس کے نغموں کی ممبئی تک دھوم مچ گئی ، اس کے ساتھ ہی
پاشا صاحب پاکستان فلم انڈسٹری کا سب سے بڑا نام بن چکے تھے ۔ان کے مکالموں
کی گھن گرج میں اگرچہ ڈرامائی عنصر زیادہ تھا اور بڑی حد تک اس پر تھیٹر کا
رنگ غالب تھا ۔ان کے یہاں شوکت لفظی کا ایک خاص اہتمام نظر آتا تھا ۔وہ
ایسے فقرے تحریر کرتے کہ عام فلم بین نہ صرف متاثر ہوجاتے بلکہ اس کی سحر
انگیزی میں کھو جاتے تھے ۔اسی دوران انہوں نے اپنی ایک نئی فلم ’’ سرفروش
‘‘ میں ایک ایسا مکالمہ لکھ دیا جس نے انہیں راتو ں رات شہر ت کی بلندیوں
تک پہنچا دیا اور وہ مکالمہ پورے ملک میں مشہورہوگیا ۔حالانکہ ترقی پسند
حلقوں میں اس کا مذاق اڑایا گیا لیکن عوام کی طرف سے انہیں زبردست پذیرائی
حاصل ہوئی ۔منظر یہ تھا کہ فلم کے ہیرو ( جن کا اصلی نہیں فلمی نام سنتوش
کمار تھا ) رات کے وقت چوری کے ارادے سے ایک گھر میں داخل ہوتے ہیں ،وہ
تمام مسروقہ مال پوٹلی میں باندھ لیتے ہیں،تبھی اذان کی آواز آتی ہے
اوروہ مصروف نماز ہوجاتے ہیں۔اسی دوران ہیروئن کی بھی آنکھ کھل جاتی ہے ،
اس کی نظر چوری کے سامان پر پڑتی ہے، دوسرے ہی لمحے وہ چور کو نماز
پڑھتےہوئے بھی دیکھتی ہے تو اسے سخت تعجب اور حیرانی ہوتی ہے ۔ہیرو جب نماز
مکمل کرلیتے ہیں تو وہ ان سے انتہائی حیرت سے پوچھتی ہے ’’ تم کیسے چور ہو
‘‘ ایک تو چوری کرتے ہواور پھر نماز بھی پڑھتے ہو ۔ وہ جواب دیتے ہیں ۔’’
چوری میرا پیشہ ہے اور نماز میرا فرض ‘‘ اس فقرے کی تماشائیوں کی طرف سے تو
بہت داد ملی لیکن ترقی پسند افراد نے ا س کا مذاق اڑایا ‘‘۔جو بھی ہو بہر
حال پورے ملک میں یہ فقرہ زبان زدعام ہوگیا ۔ انور کمال پاشا اب اس دنیا
میں نہیں رہے اور نہ ہی سنتوش کمار ۔لیکن اس جملے میں جو جادوئی فلسفہ مضمر
ہے اس کی مختلف شکلیں جگہ جگہ اب بھی دکھائی دیتی ہیں ۔کہنے کو تو اس
مکالمے کی حیثیت ایک فلمی مکالمے سے زیادہ کچھ نہیں ہے لیکن اس کی معنویت
بڑی بھرپور اور خاصی وسعت لئے ہوئے ہے ۔آج ہمارے آس پاس کے معاشرے میں جس
ماحول کی حکمرانی ہے وہ اس مکالمے کی معنویت سے پوری طرح ہم آہنگ ہوچکی ہے
۔معاشرے میں جو کچھ بھی ہورہا ہے اس میں زیادہ تر اسی جملے کی کارفرمائی
نظر آتی ہے ۔ آج زندگی کے بیشتر معاملات اسی جملے کی روشنی سے چمکائے
جاتے ہیں ۔
ہمارے آس پاس ہر طرف مسجدیں آباد ہیں ۔رمضان المبارک میں روزے داروں کی
کمی نہیں ہوتی ۔حج کے ایام میں ایک بڑی تعداد اس فرض کی ادائیگی میں مصروف
ہوجاتی ہے ، عمرہ کرنے والوں کی بھیڑ کا تو کوئی شمار ہی نہیں کیا جاسکتا
۔مخصوص ایام مثلا ً رمضان اور شعبان تو اپنی جگہ اب عام دنوں میں بھی عمرہ
کیلئے جانے والوںکی ایک بڑی تعداد رواں دواں رہتی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ
عمل عبادت کم فیشن اور دکھاوا زیادہ بن گیا ہے۔ ورنہ حج و عمرہ سے واپسی کے
بعدان کی کیفیت میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور آتی،وہ جس حال میں جاتے ہیں
اسی حال میں لوٹتے ہیں ۔ایک واقعہ یاد آگیا سنتے چلیں ۔ایک صاحب ثروت جب
حج کا فریضہ ادا کرکے لوٹے توپڑوسیوں اور ملاقاتیوں نے از راہ خلوص انہیں
مبارکباد دی کہ آپ ہمارے درمیان اس لئے ممتاز و برتر ہیں کہ آپ اللہ کے
گھر اور اس کے رسولؐ کے روضہ ٔ اطہر کی زیارت کرکے آئے ہیں ،ایک غریب
پڑوسی نےانہیںاس اہم فریضے اورمقدس سفرکی مبارکباد دی تو حاجی صاحب نے
قدرےتفاخر کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ بھائی یہ سعادت ایسے ہی نہیں حاصل
ہوتی ، اس میں پیسہ لگتا ہے پیسہ ،کیا سمجھے ۔ غور کیجئے اس غریب پر اس
جملے کا کیا اثر ہوا ہوگا ۔
جمعہ کے روز مسجدیں نمازیوں سے لبا لب بھرجاتی ہیں ۔تبلیغی اجتماعات اور
دینی جلسوں میں لاکھوں افراد شریک ہوتے ہیں ، اس کے باوجود ہر طرف ملاوٹ ،
دھاندلی ، رشوت ، چوری ، ڈاکہ زنی اور بدعنوانیوں کا بازارکیوں گرم ہے ۔کیا
یہ بات قابل غور نہیں کہ اتنے سارے نیک انسانوںکے ہوتے ہوئے معاشرہ اس قدر
خرابیوں اور برائیو ں سےکیوں اٹا پڑا ہے ۔کسی پر کسی کو اعتبار و اعتماد
نہیں رہ گیا ہے تو آخر کیوں ؟ ۔ آج کے ماحول کو دیکھتےہوئے مندرجہ بالا
فلمی فقرے کی معنویت اچھی طرح سمجھ میں آنے لگی ہے کہ’ نماز میرا فرض اور
چوری میراپیشہ ہے‘ ۔ علیٰ ہذا القیاس دیگر بدعنوانیوں کو بھی سمجھا جاسکتا
ہے ۔رشوت ، کمیشن خوری ، ذخیرہ اندوزی ، مصنوعی مہنگائی ، ملاوٹ ، کم تولنے
کی لعنت یہ سب چوریاں ہی نہیں بڑے بڑے ڈاکے ہیں ، جس کا ارتکاب ہم دھڑلّے
سے کئے جارہے ہیں ، ہم بھلے زبان سےنہ کہیں ، لیکن ہمارے فعل سے تو یہی
ثابت ہوتا ہے کہ ’ ڈاکہ ہمارا پیشہ ہے اور نماز ہمارا فرض ، ڈاکہ ہمارا
پیشہ ہے اور روزہ ہمارا فرض ، ڈاکہ ہمارا پیشہ ہے اور حج ہمارا فرض ، عصمت
دری ، لوٹ مار اور غبن ہمارا پیشہ ہے اور عبادت ہمارا فرض ۔آخر ڈاکے اور
عبادت کے مابین جو مضبوط رشتے قائم ہوگئے ہیں یا قائم کرلئے گئے ہیں، کیا
اس کو ہم کبھی توڑ بھی پائیں گےبھی یا نہیں ۔ |