تحریر: قاضی رفیق عالم
کشمیری عوام تحریک آزادی کشمیر کو آج اپنی تاریخی قربانیوں کے ذریعے ایسے
موڑ پر لے آئے ہیں جو یقینا ایک فیصلہ کن موڑ نظرآرہاہے۔ جس قوم کے
پیروجوان اور بچے ہی نہیں بلکہ قوم کی بیٹیاں بھی موت سے بے پروا ہوکر
8لاکھ بھارتی فوج کے سامنے کھڑی ہوجائیں' ایسی قوم کو کون شکست سے دوچار کر
سکتا ہے۔دنیانے قوم کی ان بیٹیوں کاوالہانہ جذبہ جہاد اپنی آنکھوں سے لائیو
اورتصویروں میں دیکھاہے۔ان کی موت سے بے خوفی اور ہرصورت آزادی کے حصول کے
جذبہ کا یہ عالم ہے کہ وہ پیلٹ گنوں کے چھرّوں کی بارش اورآنسو گیس ومرچی
گیس کے مرغولوں میں گھر ی ہونے کے باوجود صرف پتھروں کی یلغار سے ہی ہرقسم
کے جدید ترین اور خطرناک ترین اسلحے سے لیس بھارتی دہشت گردفوج کو میدان سے
بھاگنے پر مجبور کررہی ہیں۔آج بھارتی فوج کی بکتربندگاڑیاں بھی کشمیری قوم
کی ان بہادر بیٹیوں کی ٹھوکروں کی زدمیں ہیں اور اپنی ان بکتربندگاڑیوں
کوان بہادر بیٹیوں کی یلغار سے بچانے کے لیے کسی بزدل بھارتی درندے کو قریب
آنے کی جرأت بھی نہیں رہی۔تاریخ اسلام اس پرشاہد ہے کہ جب بھی جنگ وجہادمیں
قوم کی مائیں اور بیٹیاں اپنے مجاہدبھائیوں کی نصرت کے لیے میدان میں نکل
آئیں تو ہاری ہوئی جنگوں کے بھی پانسے پلٹ گئے۔رومیوں کے ساتھ ایک معرکہ
میں کئی مسلمان خواتین رومی کافروں کے ہاتھوں قیدی بن گئیں توانہی قیدی
عورتوں نے اپنے خیمے کی چوبوں سے رومی لشکر پر ایسے حملے کیے کہ ان کے
درجنوں سورمے پھڑکا دئیے۔اپنی قیدی بہنوں کی رہائی کے لیے خالد بن ولیدرضی
اﷲ عنہ کی قیادت میں لشکر اسلام کے دوبارہ پہنچنے سے پہلے ہی ان مٹھی بھر
جانبازمجاہدہ عورتوں نے جنگ کاپانسا پلٹ دیااور لشکر کفار کو الٹے پاؤں
بھاگنے پر مجبور کردیا۔
اسی طرح جنگ حنین میں جب بارہ ہزار کالشکراسلام پہاڑوں کی چوٹیوں پربیٹھے
ہوازن کے مشرکوں کے تیروں کی موسلادھار بارش میں گھرگیا توتمام صحابہ کرام
رضی اﷲ عنھم اس اچانک حملے سے منتشر ہوگئے ،خود نبء کریم صلی اﷲ علیہ وسلم
کے پاس صرف آٹھ دس افراد رہ گئے۔ ان سخت ترین حالات میں جب بڑے بڑے بہادر
صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کے قدم اکھڑگئے تھے'لوگوں نے دیکھاکہ ایک تن تنہا
عورت ہاتھ میں خنجرپکڑے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی سواری کے گرد دیوانہ وار
پہرہ دے رہی ہے اوریہ کہہ رہی ہے کہ کسی نے میرے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی
طرف بڑھنے کی کوشش کی تومیں خنجر سے اس کاپیٹ پھاڑدوں گی اور دنیانے
دیکھاکہ اس خاتون کی جر?ت کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ کسی کافر کو نبی کریم صلی
اﷲ علیہ وسلم کے قریب پھٹکنے کی جرأت نہ ہوئی بلکہ سپر انداز صحابہ کرام
رضی اﷲ عنہم بھی دوبارہ مجتمع ہوگئے اور پھرایسی شجاعت سے لڑے کہ ہاری ہوئی
جنگ فتح میں تبدیل ہوگئی۔غرض تاریخ اسلام کے نقوش توایسی بہادر ماؤں 'بہنوں
اوربیٹیوں کے شجاعانہ کردار سے ہیرے کی طرح چمک رہے ہیں۔آج کشمیرمیں بھی
ہماری مائیں ، بہنیں اور بیٹیاں اسلام کی یہی تابناک تاریخ دہرا رہی ہیں۔
دنیاآج ان کشمیریوں کو دانتوں میں انگلیاں دباکر دیکھ رہی ہے کہ وہ کشمیری
جو کل تک کہتے تھے کہ بندوق کوکیاکرناہے' اس کو دھوپ میں رکھ دو تو یہ گرمی
سے خود ہی ٹھس ہو جائے گی،آج وہی کشمیری مائیں ، بہنیں اور بیٹے'بوڑھے سب
مجاہدوں کی حفاظت کے لیے اپناحصار بنالیتے ہیں۔کل تک بات بات پربھارتی فوجی
کشمیریوں کو ان کے گاؤں اور قصبوں سے ٹھٹھرتی راتوں میں شیرخواربچوں سمیت
باہر میدان میں لاکر لائن حاضر کرتے اور کریک ڈاؤن کرتے۔۔۔۔۔۔آج بھارتی فوج
کو اپنے ناپاک پاؤں ان کی آبادیوں میں رکھنے کی جرأت نہیں اوراگروہ
ایساکریں تو انہیں علاقے کے تمام مردوں'عورتوں کی طرف سے پتھروں کی ایسی
بارش کاسامناکرناپڑتا ہے کہ جیسے وہ بھارتی فوج کو رجم کر رہے ہوں۔ بھارتی
فوج واقعی رجم کے قابل ہی ہے۔ جس کے ہاتھوں کسی کی جان ومال اور عزت محفوظ
نہ ہو' جس کے ہاتھوں ایک لاکھ سے زائد کشمیری جام شہادت نوش کرچکے ہوں'وہ
واقعی رجم کے قابل ہے۔ان کشمیریوں کے جذبہ انتقام کایہ عالم ہے کہ ان کے
شہیدوں کے جنازے میں بھی ہرشخص پتھر ہاتھ میں پکڑ کر کھڑا ہوتاہے یعنی وہ
اس حالت میں بھی بھارتی درندوں سے دودوہاتھ کرنے کے لیے پوری طرح تیار و
مستعد رہتے ہیں توایسی قوم کو اب اﷲ کے فضل سے ان کی آزادی کی منزل حاصل
کرنے سے کون روک سکتاہے؟
ان حالات میں کشمیریوں کے سب سے بڑے وکیل اور فریق پاکستان پر سب سے زیادہ
ذمہ داری عایدہوتی ہے کہ وہ کشمیر میں عوامی بیداری اور بغاوت کی اس تحریک
سے زیادہ سے زیادہ اور فوری فائدہ اٹھائے۔کشمیری تواب اپنے ہرشہید
کوپاکستان کے پرچم میں لپیٹ کر دفن کرتے ہیں۔ انہوں نے کشمیرکاکوئی قریہ
اوراونچے سے اونچا ٹاور بھی نہیں چھوڑا جہاں پاکستان کا پرچم نہ
لہرایاہو۔لیکن افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ایسے سنہری موقع سے فائدہ اٹھانے
کی بجائے ہماری حکومت مجرمانہ حدتک غفلت کامظاہرہ کررہی ہے۔اس کاسب سے
بڑاثبوت یہ ہے کہ جن دنوں پاکستان میں کشمیریوں کے محسن امیرجماعۃ الدعوہ
پروفیسر حافظ محمدسعیدنے پورے ملک میں کشمیریوں کے حق میں زبردست بیداری کا
ماحول پیدا کیا ہوا تھااورانہوں نے 5فروری کے موقع پر صرف ایک دن اورایک
عشرہ نہیں بلکہ 2017ء کا پورا سال ہی کشمیرکے نام کرنے کااعلان کیاتھا اور
یوں کشمیر کے آرپار دونوں طرف تحریک اپنے عنفوان شباب پرپہنچ رہی تھی'انہی
دنوں پروفیسرحافظ محمدسعیدحفظہ اﷲ کو ان کے رفقاء سمیت نظربند
کردیاگیا۔اگرچہ اہل کشمیرنے حافظ صاحب کی نظربندی کے باوجود اپنی تحریک کو
سردنہیں ہونے دیا بلکہ وہ اس میں پہلے سے بھی زیادہ اس قدر گرمی لائے ہیں
کہ حافظ سعید صاحب کا 2017ء کشمیرکے نام کرنے کااعلان دراصل اب کشمیرکی
آزادی میں ڈھلتا نظرآرہاہے لیکن آزادی کشمیر کی تحریک حتمی طورپر تب ہی
اپنی منزل تک پہنچ سکتی ہے جب کشمیر کے آرپار دونوں طرف تحریک برابر جذبوں
کے ساتھ پورے عروج پر ہو۔کاش! ہمارے حکمران بھارتی سیاستدانوں اور حکمرانوں
سے ہی قومی مفاد کے لیے ہر قیمت پر لڑنے کاسبق حاصل کرلیں۔بھارت کا بدنام
زمانہ دہشت گرد کلبھوشن جب پاکستان کی مایہ ناز ایجنسی آئی ایس آئی کی
شبانہ روز محنتوں اور کاوشوں سے گرفتار ہوا اورپھر پاک فوج نے اسے تمام
ملٹری عدالتی ٹرائل سے گزار کر پھانسی کی سزا سنائی تو ایک مسلمہ ثابت شدہ
دہشت گرد جو اپنے جعلی نام اور دوپاسپورٹوں کے ساتھ پاکستانی علاقے میں
جاسوسی کرتا ہوا گرفتار ہوا' کو بچانے کے لیے پورا بھارت اٹھ کھڑاہوا۔
بھارتی نیتاؤں نے اس مسئلے پر پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں بھی دیں اور اسی
منصوبے کے لیے ایران اورافغانستان کی پیٹھ ٹھونک کرانہیں ہمارے خلاف
کھڑاکیاگیاتاکہ پورے خطے میں پاکستان کے خلاف جنگ کاماحول پیدا ہو اور پھر
بھارت بھی کلبھوشن کوبچانے کے لیے اس جنگ میں کودپڑے لیکن پاکستان کی بہادر
افواج نے جب بھارت کی یہ سازش ناکام بنادی تو اب وہ اپنے حاشیہ نشین عالمی
اداروں میں یہ کیس لے کر بھاگ کھڑا ہوا۔قرآن نے تومسلمانوں کو چودہ سوسال
پہلے ہی بتادیاتھا کہ عالم کفر کبھی بھی مسلمانوں سے راضی نہیں ہوسکتا 'نہ
وہ ہم سے انصاف کرسکتاہے اورنہ وہ ہماری باتوں سے مطمئن ہوسکتاہے۔چنانچہ
آخروہی ہوا جو قرآن نے بتایا تھا۔ عالم کفر نے الکفر ملۃ واحدہ کاثبوت دیتے
ہوئے بھارت کے حق میں فیصلہ دیااور یوں بھارت کم ازکم عارضی طورپر ہی سہی'
کلبھوشن کی پھانسی رکوانے میں کامیاب ہوگیا۔لیکن اب یہ پاکستانی ارباب حل
وعقد کے لیے سوچنے کا وقت ہے کہ اگر بھارت اپنے ایک دہشت گرد کو بیٹا قرار
دے کر ہر حد تک جانے کے لیے تیار ہے توپھر ہم اپنے لاکھوں مظلوم کشمیری
بیٹوں'بیٹیوں کے لیے ہرحدتک کیوں جانے کو تیار نہیں جو گزشتہ 70سال سے
اسلام کے ناطے ہمیں دہائیاں دے رہے ہیں' آزادی اور الحاق پاکستان جن کاجائز'
قانونی اور اخلاقی حق ہے' انہی عالمی اداروں میں بھارت 1948ء میں واویلا
کرتے ہوئے گیاتھا اور پھر وہاں اس نے کشمیرمیں جلد رائے شماری کاوعدہ کیا۔
بھارت نے آج تک اقوام متحدہ سے کیاہوا یہ وعدہ 70سال گزرنے کے باوجود
پورانہیں کیا'الٹاوہاں اس نے ظلم و وحشت اورقتل ودرندگی کابازار گرم
کررکھاہے۔ وہ کون سا ظلم ہے جو بھارت نے آج تک کشمیریوں پر نہیں
ڈھایا'افسوس کہ اپنے ان مظلوم بیٹوں اور بیٹیوں کے لیے ہم تو ہرحدتک نہیں
جارہے بلکہ کسی حدتک بھی نہیں جارہے'الٹا ان مظلوموں کے حق میں جولوگ
پاکستان میں سب سے زیادہ آواز بلند کرتے ہیں' حکومت نے ان کے قائدحافظ
سعیداوران کے رفقاء کو ہی بندکردیا۔کیااپنے بیٹوں کے ساتھ ایساسلوک
کیاجاتاہے؟ہم بہرحال یہی گزارش کریں گے کہ ہمارے ارباب اقتدار اپنی اس
سنگین غلطی کی اصلاح کریں۔ کشمیر کے آرپاراپنے تمام بیٹوں کے وکیل اورمحافظ
بنیں۔بھارت اگر اپناچھوٹا ساکیس عالمی عدالت میں لے گیاہے تواب ہمارے
حکمران بھی کشمیر کے لاکھوں بیٹوں'بیٹیوں کا کیس عالمی عدالت اور دوسرے
اداروں میں لے جائے۔اگراب بھی خلوص نیت سے کام لیا جائے توبھارت کی عالمی
اداروں میں یہ کیس لے جانے کی چال الٹا اس پر پڑسکتی ہے کیونکہ ابھی یہ
معمولی سا سٹے (Stay)ہے جو بھارت کو ملاہے۔ پاکستان ہمت کرے تو بھارت کو
لینے کے دینے بھی پڑ سکتے ہیں۔اس کے علاوہ پاکستان اہل کشمیر کی اب ہر سطح
پر کھلی مدد کرے'مکار وظالم بھارت کو اب مزید رعایت دینے کاکوئی فائدہ
نہیں۔اﷲ تعالیٰ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین |