پاکستان میں سرکاری رویت ہلال کمیٹی اور مسجد قاسم خان
پشاور کی اتنظامیہ میں چاند کے معاملے پر ہمیشہ اختلاف رہا ہے اور اس
اختلاف کے نتیجے میں اکثر ملک میں دو عیدیں ہوتی ہیں
کیا آپ جانتے ہیں کہ اس اختلاف کی وجہ کیا ہے؟
مسجد قاسم خان کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سرکاری رویت ہلال کمیٹی ٹیلی فون
پر موصول ہونے والی چاند دیکھنے کی جن شہادتوں کی بنیاد پر فیصلہ سناتی ہے،
ان میں ابہام ہے.
جبکہ مسجد قاسم خان کے مطابق وہ گواہی کے جس طریقہ کار پر عمل کرتے ہیں،
اسے دنیا میں کوئی بھی چیلنج نہیں کرسکتا.
جیسے چاند دیکھنے والا علاقے کے معزز شخص کو بتائے گا اور پھر وہ معزز شخص
اصل گواہ کے ہمراہ مسجد قاسم خان میں چاند کی گواہی دے گا.
اس گواہی کو وصول کرتے ہوئے مسجد قاسم خان کے علما گواہوں کی ان شرائط کو
جانچیں گے، جن کو اسلامی شریعت نے عائد کیا ہے اور یہ سب عوام کے سامنے
ہوگا.
مسجد قاسم خان کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ چاند دیکھنے کا اہتمام 150 سال
سے زائد برسوں سے کررہے ہیں جبکہ سرکاری رویت ہلال کمیٹی کا معاملہ ابھی
نیا ہے.
مسجد قاسم خان کی انتظامیہ کے بقول پاکستان میں سرکاری رویت ہلال کمیٹی کا
کوئی آئین ہی نہیں ہے، قانونی طور پر کوئی طریقہ وضع ہی نہیں کیا گیا کہ
کمیٹی کیسے چاند دیکھے گی، ان کے مطابق پاکستان میں ذاتی آرا اور پسند
ناپسند کی بنیاد پر چاند کی رویت کا فیصلہ کیا جاتا ہے.
مسجد قاسم خان کی انتظامیہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ ہر اسلامی مہینے میں
چاند دیکھنے کا اہتمام کرتے ہیں تاہم عبادت والے مہینوں میں چاند دیکھنے کے
عمل کی تشہیر کی جاتی ہے.
کیا مسجد قاسم خان کی انتظامیہ سعودی عرب کو فالو کرتی ہے؟ اس حوالے سے
مفتی شہاب الدین پوپلزئی کا کہنا ہے کہ یہ تاثر اس لیے غلط ہے کہ چاند کی
رویت کا ان کا طریقہ سب کے سامنے ہے.
اکثر محکمہ موسمیات کی پیش گوئیوں کے برعکس مسجد قاسم خان کی انتظامیہ کی
جانب سے چاند کی رویت حیران کن معاملہ ہے، اس حوالے سے انتظامیہ کا کہنا ہے
کہ کیا محکمہ موسمیات کی تمام پیش گوئیاں درست ہوتی ہیں؟
اسی طرح مسجد قاسم خان کی انتظامیہ اس تاثر کی بھی نفی کرتی ہے کہ سعودی
عرب میں سائنسی طریقہ کار پر عمل ہوتا ہے، ان کے مطابق سعودی عرب میں
سائنسی طریقہ کار کے مطابق کیلنڈر ضرور بنتا ہے مگر اسلامی عبادات کے
مہینوں سے قبل رویت کے لیے روایتی اجلاس بھی ہوتا ہے.
رویت ہلال کے لیے جب ملک میں قانون سازی ہی نہیں ہے تو کسی پر اعتراض کس
بات کا ،، کسی ادارے کا دستور بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا اس ادارے کا قیام
،، اگر پاکستان میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے رویت کے قوانین بن
جائیں تو کبھی بھی ملک میں دو چاند نہیں ہوں گے.
آج خیبرپختونخوا میں رمضان کا پہلا روزہ ہے.
اس روزے کے ہونے کے ذمہ دار صرف مفتی پوپلزئی نہیں ہیں بلکہ خیبرپختونخوا
کے لاکھوں عوام اس روزے کو رکھ رہے ہیں، مفتی پوپلزئی ان لاکھوں افراد کے
ایک نمائندہ ہیں.
خیبرپختونخوا پاکستان سے جدا کوئی علیحدہ ریاست نہیں ہے، وہاں کے لوگ بھی
اتنے ہی پاکستانی ہیں، جتےم سندھ اور پنجاب کے۔۔ ان کی خوشی بھی پاکستان کی
خوشی ہے.
مفتی پوپلزئی کی تضحیک دراصل ان لاکھوں پاکستانیوں کے جذبات کی توہین ہے،
جو انہیں درست سمجھ کر روزے رکھ رہے ہیں.
اپنے خیبرپختونخوا کے بھائیوں کو رمضان کی مبارک باد دیجئے، چاند کی تقسیم
پر اختلاف سے اپنوں کی خوشیوں کی مبارک باد پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں.
کیا ہوا کہ آج خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقہ جات میں روزہ ہے، یہ کوئی
ایسا مسئلہ تو نہیں کہ ہم اپنے لوگوں کے جذبات اتنے مجروح کریں کہ اتحاد کے
نام پر انتشار پھیلے.
قوم کے مختلف طبقات کے درمیان اختلافات ہوتے ہیں مگر ان اختلافات پر اتفاق
بھی تو کیا جاسکتا ہے.
ایک صاحب جنہوں نے خیبرپختونخوا کے باسیوں کو اپنی تحریر میں کہا کہ کس منہ
سے کہوں میں تمہیں رمضان مبارک ۔۔۔ان سے عرض ہے کہ جس ڈھکن جیسے منہ سے آپ
آج سعودی عرب سمیت دنیا بھر کو رمضان مبارک کہہ رہے ہیں، اسی منہ سے
خیبرپختونخوا کے لوگوں کو بھی رمضا مبارک کہہ دیں گے توکوئی گناہ نہیں
ہوجائے گا.
آج ایک صاحب نے تو اپنی تحریر میں یہاں تک لکھا کہ جب تک خیبرپختونخوا ہے،
ملک میں دوچاند ہوں گے.
ذراسوچیں کہ یہ پڑھ کر خیبرپختونخواکے پاکستانی کے دل پر کیاگزری ہوگی.
دنیا بھرمیں روزہ رکھنے والے دوستوں اور خیبرپختونخواکے بھائیوں کومیری
جانب سے رمضان مبارک
|