3مارچ 2016ء کو پاکستان آرمی نے وطن عزیز میں نئی دہلی کی
سازشوں کے مرکز صوبہ بلوچستان سے ایک بھارتی دہشت گرد جاسوس کلبھوشن یادیو
کو گرفتار کر لیا۔ تفتیش پر پتہ چلا کہ موصوف ایرانی پاسپورٹ پر ایران کے
راستے پاکستان آتے اور دہشت گردی کی ساری مہم کی نگرانی کرتے تھے۔ وہی دہشت
گردی جس سے بلوچستان کے ہزاروں شہری جانوں سے گزر چکے ہیں اور گزر رہے ہیں۔
پاکستان نے کلبھوشن یادیو کا اعترافی وڈیو بیان نشر کیا تو بھارت نے پہلے
اس کے ساتھ تعلق سے انکار کیا تو بعد میں اقرار ہی نہیں کیا، اس سے بہت آگے
بڑھ کر اپنی دھرتی کا بیٹا قرار دیا بلکہ اسے بچانے کے لئے ہر حد تک جانے
کا اعلان کر دیا۔ 47سالہ کلبھوشن کا پاسپورٹ اور دیگر سفری دستاویزات میں
لکھا نام حسین مبارک پٹیل تھا۔ اس نے بعد میں اپنے اعترافی بیان میں کہاکہ
وہ تو بھارتی نیوی کا حاضر سروس افسر ہے۔
10اپریل 2017ء کو پاکستانی فوجی عدالت نے اسے سزائے موت سنائی تو بھارت میں
جیسے قیامت ٹوٹ پڑی۔ سشما سوراج نے آگ اگلتے ہر حد تک جانے کا اعلان کیا۔
بھارت نے40دن کی اپیل دائر کرنے کی مہلت کی طرف آنے کے بجائے عالمی سطح پر
جانے کا فیصلہ کیا اورپھر عالمی ’عدالت انصاف‘ جا پہنچا۔ عدالت جیسے بھارتی
آمد کی منتظر تھی، فوری مقدمہ کی سماعت کا اعلان کر دیا۔ سماعت ہوئی اور
18مئی کو عدالت نے کہہ دیا کہ پاکستان کلبھوشن یادیو کو پھانسی نہ دے،بھارت
کو قونصلر رسائی دے اور اگلے فیصلے کا انتظار کرے۔ ویسے تو آئینی، قانونی
ماہرین کہہ رہے ہیں کہ ساری دنیا کی طرح پاکستان اس حکم نامے کا پابند نہیں
۔ ماہرین کے مطابق یہاں مقدمہ تبھی شروع ہو سکتا ہے جب فریقین مقدمہ میں
حصہ لینے پر رضامند ہوں اور انہیں نہ تو کسی طریقے سے رضامند کیا جا سکتا
ہے اور نہ ہی مجبور۔ یہ بھی یاد رہے کہ اگر کوئی فیصلہ سنا بھی دیا جائے تو
اس پر عملدرآمد کروانے کے لئے عدالت انصاف کے پاس کوئی طریقہ کار یا اختیار
نہیں۔حیران کن امر یہ رہا، جیسے ہی بھارت عدالت پہنچا تو اس کی درخواست کو
فوری قابل سماعت قرار دے کر اس کی تاریخ دے ڈالی گئی۔پاکستان وہاں جانے کا
تو پابند نہیں تھا لیکن ہمارا وکیل پیش ہو گیا۔اسے وہاں دلائل دینے کے لئے
90منٹ کا وقت ملا لیکن اس نے بمشکل 60منٹ بات کی جبکہ بھارتی وکیل نے مکمل
90منٹ دلائل دیئے ۔ بھارتی وکیل نے علامتی طور پر ایک روپیہ فیس وصول کی تو
ہمارے وکیل نے بقول قومی میڈیا 5لاکھ پاؤنڈ یعنی کوئی ساڑھے سات کروڑ روپے
فیس وصول کی۔بعد میں تردید کرتے ہوئے موصوف نے بتایا کہ جتنا واویلا ہوا ہے،
میں نے اس سے 30فیصد کم فیس لی ہے یعنی پھر بھی کم از کم5کروڑ،ساتھ ہی پتہ
چلا کہ وکیل موصوف اس سے پہلے کبھی عالمی عدالت انصاف یا اس درجے کی کسی
عدالت میں پیش ہی نہیں ہوئے اور نہ ہی انہیں پوری طرح قوانین کا علم تھا۔
کہا جا رہا ہے کہ مقدمے کی سماعت اگست میں ہو گی ،کہا جا رہا ہے پاکستان اس
کوشش میں ہے کہ سماعت فوراً شروع ہو، جس کے فی الحال مانے جانے کا کوئی
امکان نہیں ۔ عالمی عدالت کے فیصلے کے بعد بھارت میں بھانت بھانت کی بولیاں
بولی جا رہی ہیں۔ ایک بات یہ بھی کہی جا رہی ہے کہ بھارت نے عالمی عدالت
انصاف جا کر بہت بڑی غلطی کی ہے اور اب پاکستان کو بھی یہ اختیار حاصل ہو
گیا ہے کہ وہ کشمیر سمیت دیگر معاملات اس فورم کا دروازہ کھٹکھٹائے۔ یہی
بات بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج مسٹر کاٹجو نے بھی کہی ہے لیکن اس حوالے
سے ہمیں کچھ مزید سوچنا اور حقائق کو گہرانی سے دیکھنا ہو گا۔
10اگست 1999ء کو بھارت نے پاکستانی حدود میں داخل ہو کر ہماری بحریہ کا ایک
نگران طیارہ تباہ کر دیا تھا۔ جس میں ہماری بحریہ کے اعلیٰ افسران سمیت
16لوگ شہید ہو گئے تھے۔ واقعہ کی پاکستان نے شدید مذمت کی اور اگلے سال
پاکستان مقدمہ لے کر عالمی عدالت انصاف پہنچا۔ عدالت نے بھارت کو نوٹس جاری
کیا لیکن بھارت نے یہ کہہ کر پیش ہونے سے انکار کر دیا کہ وہ تو حاضری کا
پابند ہی نہیں۔ یوں عالمی عدالت نے ہمیں بھی صاف جواب دے دیا اور ہمارا کیس
خارج دفتر ہو گیا۔ ویسے چاہئے تو یہ تھا کہ ہم اپنی حدود میں یوں اپنا
طیارہ تباہ کئے جانے کا بدلہ لیتے لیکن ایسا کچھ نہ ہوا اور پھریہ واقعہ
بھی آج تک بھارت کی جانب سے پاکستان کو دیئے گئے بے شمار ہولناک زخموں میں
سے وہ بھی ایک رستا زخم بن کر رہ گیا۔اب کی بار بھارت ہالینڈ میں واقع اسی
عدالت پہنچا تو معاملہ بالکل الٹ تھا ۔یہ درست ہے کہ اب اخلاقاً عالمی
عدالت کو پاکستان کے اگلے متوقع مقدمات سننے اور بھارت کو وہاں حاضر کرنے
کے لئے کچھ سوچنا اور کرنا چاہئے لیکن…… عملاً نہ ایسا ہوا اور نہ ہو سکتا
ہے۔ جب دنیا میں مسلمان اور کافروں کے لئے انصاف کے لئے اصول وقانون کے
سارے قاعدے کلیے ہی الگ الگ ہیں تو ایسے فیصلوں کی امید رکھنا سوائے خود کو
دھوکہ دینے کے اور کچھ نہیں ہے۔ ہماری ساری تاریخ ہمارے سامنے ہے ۔ پاکستان
کشمیر کا مقدمہ لئے اقوام متحدہ میں1947ء سے کھڑا ہے لیکن کوئی سننے کو
تیار نہیں۔ تھک ہار کر ہم نے1965ء کی جنگ کے اختتام پر معاہدہ تاشقند میں
کشمیر کو سرحدی تنازعہ تسلیم کر کے روس کو اس کا ضامن تسلیم کیا لیکن بھارت
کا پرنالہ جہاں تھا ، وہیں رہا۔ چند سال بعد شملہ معاہدے میں ہم نے روس کو
بھی نکال دیا اور کشمیر کو باہم تنازع تسلیم کر کے حل پر آمادگی ظاہر کی،
لیکن 45سال سے بھارت کی بلا سے…… ہم نے ستمبر1960ء میں 10بڑی طاقتوں اور
ملکوں کی موجودگی میں کنسورشیم تشکیل دے کر اورعالمی بینک کی نگرانی و
سربراہی میں اپنے تین دریاراوی بیاس اور ستلج مستقل بیچ کر بدنام زمانہ اور
رسوائے زمانہ سندھ طاس معاہدہ کیا۔ آج اس معاہدے کا کیا حال اور حشر ہے؟
ہمارے سامنے ہے۔ نہ 10ملک سامنے آ رہے ہیں اور نہ عالمی بینک کو اس کی پروا
ہے ۔الٹا عالمی بنک ہمیں یہ دھمکیاں لگا رہا ہے کہ اگر اسے اس معاہدے کے
حوالے سے کوئی اغراض و مقاصد یا مفادات چاہئے ہیں تو اسے اس کے مطالبے پر
عملدرآمد کرتے ہوئے اپنے ان شہریوں اور اداروں پر سخت ترین پابندیاں عائد
کرنا ہوں گی جن کا مطالبہ بھارت کرتا ہے۔
تاریخ دیکھیں یا حالات و اقعات ،صاف نظر آتا ہے کہ ہمیں عالمی طاقتوں اور
عالمی اداروں سے خواہ مخواہ کی امیدیں لگانے اور ان کی جانب حرص بھری یا
امید بھری نگاہوں سے دیکھنے کی پالیسی ترک کرنا ہو گی۔عالمی عدالت کے اس
فیصلے نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ سارا عالم کفرپاکستان اور اسلام کے
خلاف ایک ہیں۔ معروف عربی مقولے ’’الکفر ملۃ واحد ہ،ساری دنیا کا کفر ایک
ہی ملت ہے‘‘ آج ہمارے حوالے سے یہ بات پوری طرح ثابت ہو چکی ہے کہ یہ سب
پاکستان کے خلاف پوری طرح متحد ہیں۔صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اب یہ مقدمہ
تاخیر در تاخیر کا شکار ہو گا۔ بھارت نے ہمارے کسی قیدی تک ہمیں کتنی بار
رسائی دی بتانے کی ضرورت نہیں۔ ہم اس کے قیدیوں کو پہلے بھی رسائی دیتے آ
رہے ہیں اورآئندہ بھی دیں گے۔ ہماری یہ مجبوری و لاچاری اس وقت تک ختم نہیں
ہو گی،جب تک ہم پورے اخلاص کے ساتھ وطن عزیز کے مفاد کی پالیسی دلیرانہ
انداز میں لاگو نہیں کرتے۔ اس کا پہلا طریقہ کلبھوشن کی فوری پھانسی ہے۔ اس
کے بعد کشمیر کی آزادی کیلئے ہمیں کشمیریوں کو تقسیم کرنے والی غیر قانونی
سیزفائر لائن المعروف کنٹرول لائن ختم کرنے کے لئے عملی اقدامات کرنا ہوں
گے جو کشمیریوں کے ساتھ ساتھ ہمارا بھی اصولی حق ہے۔ بھارت کے ساتھ خواہ
مخواہ کی اور یک طرفہ جبری دوستی و محبت ختم کرنا ہو گی۔کھلے لفظوں اور
کھلے انداز میں ہمیں صاف صاف بھارت کو دشمن ریاست ڈکلیئر کرنا ہو گا ،تبھی
ہم آگے بڑھ سکیں گے، وگرنہ عالمی طاقتیں ہمیں کبھی عزت کے ساتھ جینے نہیں
دیں گی۔ |