سولہ سال قبل بی جے پی نے اپنے عوام کو پاکستان
دشمنی کا یقین دلانے کے لیے ایٹمی دھماکے کئے۔ جواب میں پاکستان نے میاں
نواز شریف کی وزارت عظمیٰ میں حساب چکتا کردیا۔ کیا حسن اتفاق ہے کہ آج وہی
پارٹیاں پھر پاکستان اور بھارت میں برسراقتدار ہیں۔ بھارت کے سارے ایٹمی
سفر کی داستان، دفاع کی بجائے ’’ووٹ‘‘ سے جڑی ہوئی ہے۔ کانگریس نے پاکستان
مخالف ووٹ بنک کو حاصل کرنے کے لیے یہ حربہ شروع کیاتھا، لیکن بی جے پی نے
ایٹمی دھماکے کرکے اسے کیش کروا لیا۔ بھارت کے ایٹمی سفر کا آغاز تو بہت
پرانا ہے۔ تاہم 1974ء میں غیر اعلانیہ دھماکوں کے بعد پاکستان نے بھی خطے
میں طاقت کا توازن رکھنے کے لیے اس ضمن میں کوششیں شروع کردیں اور بھارت کو
بھی پاکستان کی ’’خاموش‘‘ ایٹمی طاقت کا معلوم ہوچکاتھا۔ 1995ء میں بھارت
میں کانگریس پارٹی کی حکومت تھی اورنرسیما راؤوزیر اعظم تھے۔بھارتی جنتا
پارٹی کی اسلام اور پاکستان دشمن پالیسیوں اور اقدامات کے بعد بھارت میں اس
کی مقبولیت کا گراف بہت بڑھ چکا تھا۔ بی جے پی کے انتہاء پسندوں نے جب
بابری مسجد پر حملہ کرکے اسے شہید کردیا تو کانگریس کے وجود کو شدید خطرات
لاحق ہوگئے۔ اس کے نبض شناسوں نے کانگریس کے کرتا دھرتاؤ ں کو خبردار کیا
کہ اگر انہوں نے بھی اس طرح کے اقدامات نہ اٹھائے تو بھارتی قوم پرست جو
اسلام، مسلمان اور پاکستان دشمنی پر ہی جیتے مرتے ہیں ، ان کا ووٹ بینک
ہاتھ سے نکل جائے گا ۔ اس طرح ان کی پارٹی کو حکمرانی سے ہاتھ دھونا پڑسکتا
ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ بھارت میں آج تک اس پارٹی کے سر پر تاج نہیں سجا جس نے
پاکستان اور مسلمانوں سے دشمنی کے عہدوپیمان نہ کئے ہوں۔ انہیں یہ بھی علم
تھا کہ ان دھماکوں کے بعد عالمی برادری ان پر پابندیاں بھی عائد کرسکتی ہے
اور اس طرح بھارتی بھوکے ننگے عوام کی بدحالی آسمان کو چھو سکتی ہے مگر
پاکستان دشمنی کے سامنے انہیں ہر بات ہیچ نظر آرہی تھی۔ پہلے انہوں نے
مشرقی پاکستان میں اپنی سازشوں کے جال بن کر اپنی پاکستان سے نفرت کی بھڑاس
نکا لی تھی اس بار وہ ایٹمی دھماکے کرکے پاکستانی قوم کو ہمیشہ کے لئے اپنے
تابع فرمان بنانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ حکمرانی کا تاج اور دشمن کو زیر کرنے
کیلئے دھماکہ کوئی مہنگا سودا نہیں تھا۔
دھماکے کی تیاریاں کی جائیں، نرسیماراؤ نے ایٹمی ادارے کے سربراہ کو بلا کر
حکم صادر کردیا۔ حکم ملنے کی دیر تھی صحرائے تھر کے علاقے پوکھران میں
پاکستان بارڈر کے قریب گویا میلاسا سج گیا۔وہاں ٹرکوں کے ٹرک سامان اتارا
جانے لگا۔ زمین کی کھدائی شروع ہوگئی۔ کنکریٹ بنانے کے سامان کے ڈھیر لگ
گئے۔ پھرموٹی موٹی تاریں بچھائی جانے لگیں اور نرسیما راؤ رات کو کروٹین
بدل بدل کر ’’او۔کے‘‘ کی کال کا انتظار کرنے لگا۔ اسی دوران ایک امریکی
جاسوس سیارہ وہاں سے گزرا تو اس نے ان تمام خفیہ سرگرمیوں کو اپنے کیمرے کی
آنکھ میں بند کرلیا۔ جب یہ تصویریں وائٹ ہاؤس پہنچیں تو امریکی حکام کو
صورتحال کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔ اس وقت کے امریکی صدر کلنٹن نے فوری طور
پراپنے ایک سفیر کو معاملے کی جانچ پھٹک کے لئے بھیجا۔ اس نے جب بھارتی
عزائم کی تصدیق کی تو کلنٹن کی نیندیں اڑ گئیں۔ امریکہ نے اپنا اثرورسوخ
استعمال کرتے ہوئے نرسیما راؤ کو ایٹمی دھماکے نہ کرنے کا کہا۔ انہیں
مفادات اور مراعات کی پوٹلی دکھائی گئی۔ بھارتی حکومت کو شاید کوئی مفاد
یاد آگیا ہوگا اس لئے انہوں نے امریکہ کی بات مان لی۔ مگربھارتی جنتا پارٹی
(بی جے پی) جس نے صرف اسلام اور پاکستان دشمنی کے بل بوتے پر اپنے سیاسی قد
کاٹھ میں اضافہ کیا تھا، اپنے منشور میں یہ بات شامل کرچکی تھی کہ اگر
بھارتی عوام نے اس کے سرپر حکمرانی کا تاج سجایا تو وہ ایٹمی دھماکے کرکے
اپنی کامیابی کا جشن منائے گی۔ اس طرح وہ بھارتی جنونیوں کے انتہاء پسند
جذبات کو ہوا دے کر آخر کار ہندوستان کی حکمرانی کاتاج پہننے میں کامیاب
ہوگئی۔
1996ء میں اٹل بہاری واجپائی نے وزیر اعظم کی کرسی پربراجمان ہوتے ہی ایٹمی
دھماکے کرنے کے احکامات دے دیئے۔ بھارتی سائنسدان تیار تھے مگر پھر بھی
انہوں نے ایک ماہ کا وقت مانگ لیا۔ واجپائی تڑپ اٹھے۔ غصے سے اس کے چہرے کی
سلوٹیں اور بھی نمایاں ہوگئی تھیں۔ اس نے اپنا مخصوص تہہ بند سمیٹتے ہوئے
حکم دیا: جاؤ اور مکمل تیاری کی فوری اطلاع کرو۔ پوکھران میں پھر نقل وحمل
شروع ہوگئی۔ مگر دوسری طرف بھارت کے سیاسی منظر نامے پر بھی ہلچل مچ گئی۔
اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم تو بن گئے تھے مگر ان کی اقتدار کی کرسی کو
دوسری پارٹیوں نے سہارا دے رکھا تھا۔ یہ سہارا کمزور ثابت ہوا اور اس سے
قبل کہ بھارتی سیاستدان اور ایٹمی ادارے انہیں ’او۔ کے‘ رپورٹ دیتے ان کی
وزارت عظمیٰ کا بوریا بسترگول ہوگیا۔
دو سال بعد واجپائی پھر بھارتی وزیراعظم بن گئے۔ انہوں نے برسراقتدار آتے
ہی ایٹمی دھماکوں کی فائل نکلوا لی۔ اس بار بھی ان کی مخلوط حکومت تھی مگر
پاکستان اور اسلام دشمنی میں چونکہ تمام ہندو پارٹیاں ایک ہیں، اس لئے
انہیں اس معاملے میں اعتماد کا ووٹ لینے میں کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہ
کرنا پڑا۔ دوسری طرف پاکستان کو، جو متعدد مرتبہ امریکہ اور دنیا کی دوسری
طاقتوں کو بھارتی ایٹمی اور توسیع پسندانہ عزائم سے آگاہ کرچکا تھا اور اس
سلسلے میں ان کے کردار کا منتظر تھا، اس وقت شدید دھچکا لگا جب پاکستان کے
خدشات کو سنجیدہ نہ لیا گیا۔ کلنٹن انتظامیہ نے تو پاکستان کے خط کو محض
پراپیگنڈہ قراردیتے ہوئے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا اور پاکستان کے تمام
تحفظات کو وہم سمجھ کر جھٹک دیا۔ واشنگٹن اور برطانیہ نے واجپائی کی
موشگافیوں کومحض سیاسی سٹنٹ خیال کیا تھا مگر اس وقت ان کی حیرت کی انتہاء
نہ رہی جب 11مئی کو بھارت نے ایٹمی دھماکے کردیئے۔ اس وقت انہیں پاکستان کی
طرف سے خبرداری کے خطوط کی سچائی کا اندازہ ہوا۔ مگر اب دیر ہوچکی
تھی۔افسوس، اس صورتحال میں انہوں نے بھارت کو دباؤ میں لانے اوراسے اقتصادی
اور سفارتی پابندیوں میں جکڑنے کی بجائے اپنا سارا زور پاکستان کے جوابی
ایٹمی دھماکوں کو روکنے کیلئے لگا دیا۔پاکستان جو بھارتی سازشوں، کشمیر پر
اس کے غاصبانہ قبضے اور سانحہ مشرقی پاکستان کے زخم کھانے کے بعد اپنے وجود
کو برقرار رکھنے کے لئے کم از کم دفاعی صلاحیت کی پالیسی پر گامزن تھا، ایک
نئی صورتحال سے دوچار ہوگیا۔ ملک کے اندر اور بھارت جوابی دھماکے کرنے یا
نہ کرنے کی ایک اعصاب شکن بحث چھڑ گئی۔ گو کہ پاکستان اس وقت بھی ایٹمی قوت
تھا مگر جس طرح بھارت نے اپنی ایٹمی قوت کا اظہار کیا تھا اور اس کی قیادت
کی جانب سے پاکستان کو (خاکم بدہن) صفحہ ہستی سے مٹانے کی موشگافیاں کی
جارہی تھیں، ان حالات کا تقاضا تھا کہ پاکستان بھی بھرپور جوابی دھماکے
کرے۔ اﷲ کا شکر ہے کہ پاکستان نے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے جوابی ایٹمی
دھماکے کرکے بھارتی زعم کے غبارے سے ہوا نکال دی اور وطن کے استحکام کو
دوام بخشا ۔ آج یوم تکبیر کا تقاضا ہے کہ ہم تمام اندرونی او ربیرونی
سازشوں کے سامنے یکجا ہوجائیں۔نریندر مودی کی سرکار پاکستان کوآج بھی
دھمکیاں دے رہی ہے۔ کشمیر میں اسے جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا رہا ہے، اس
سے اس کے جنونی پن دگنا ہوگیا ہے۔ مگر شکر یہ ہماری ایٹمی قوت اور بہادرا
فواج کا کہ جن کے ہوتے ہوئے اسے پاکستان کے خلاف کسی مہم جوئی کی جرات نہیں
ہوسکتی۔
|