پچھلے دنوں ریاض میں ڈونلڈ ٹرمپ یاترا کئی حوالوں سے
اہمیت کا حامل اور چشم کشاہے۔ ہم وہاں پر پیش آنے والے حالات و واقعات دیکھ
کر اور مسٹر ٹرمپ کی تقریر کو بغور سن کر ابھی تک محو حیرت ہیں کہ آخر مسلم
امہ کون سا رخ اختیار کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ اسلامی سربراہی
کانفرنسیں تو کئی مرتبہ اس سے قبل بھی انعقاد پزیرہوئیں۔ پیش آمدہ مسائل کو
زیر بحث لا کر حل تلاش کرنے کی کوششیں بھی ہوتی رہیں۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ
حقیقت ہے کہ آج تک امت مسلمہ کے اجتماعی مسائل ان کانفرنسوں سے کبھی بھی حل
نہیں ہوئے بلکہ ان کے نتیجے میں نئے مسائل نے جنم لیا۔ اس دفعہ تو انتہا
ہوگئی کہ اسلامی سربراہی کانفرنس کے لئے ’’ چیف گیسٹ‘‘ کیلئے انتخاب ایک
ایسی شخصیت کا کیا گیا جس کی اسلام دشمنی کسی ذی شعور سے ڈھکی چھپی نہیں۔
اپنے انتخابی جلسوں میں اس نے کھل کر اسلام پر تنقید کی اور مسلمانوں کو
نشانہ بنایا۔ اپنی ویب سائٹ پرمسلمانوں کے خلاف بہت کچھ لکھا۔ مسلمانوں کے
ووٹ لینے کیلئے عین انتخابات کے دنوں میں ان مسلمان مخالف تحریروں کو ہٹا
دیا گیا اور جوں ہی کامیابی کا پروانہ مل گیا تو دوبارہ ان پوسٹس کو اسی
ویب سائیٹ پہ لگا دیا گیا۔ اس نے سر عام اسلام کو دہشت گردی سے جوڑا اور
کہا کہ میں بر سر اقتدار آکر ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کا قلع قمع کردوں گا۔
انتہا یہ کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا صدر منتخب ہو نے کے فورا بعد سات
اسلامی ممالک کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے وہاں کے باشندوں پر امریکہ داخلہ
پر پابندی عائد کردی۔ اِس وقت تک آدھے سے زیادہ امریکی باشندے جس شخص کی
اسلام مخالف پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل کر محو احتجاج ہیں،
اس کے مواخذے کے بھرپور مطالبے کر رہے ہیں، وہی شخص مسلمانوں کی سربراہی
کانفرنس کی سربراہی کر رہاہے۔ سعودیہ کے شہنشاہ عالی جاہ اپنی کابینہ سمیت
استقبال کیلئے ایئر پورٹ پر موجود تھے۔ ٹرمپ سے معانقے کے بعد حسب روایت
گالوں کو چوما جا رہاتھا۔ خاتون اول سے ہاتھ ملائے جارہے تھے۔ اس دورے کا
ایک اہم مقصد امریکہ کی گرتی ہوئی معیشت کوسنبھالا دینا بھی تھا۔ وہاں
اسلحے کی فیکٹریاں بند ہو رہی تھیں۔ یاد رہے کہ امریکی معیشت کا خاصہ حصہ
دفاعی اور فوجی سازو سامان کی تیاری اور فروخت پر منحصر ہے۔ سعودیہ پہنچتے
ہی مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودیہ کے ساتھ ایک کھرب ڈالر سے زیادہ کے دفاعی
سامان کی خریداری کے معاہدوں پر دستخط کیے۔ آئندہ پندرہ سالوں میں سعودی
عرب امریکہ سے 350 ارب ڈالر کا مزیدسامان خرید کر اپنی افواج اور دفاع کو
ناقابل تسخیر بنائے گا۔ امریکی میڈیا پر ٹرمپ کے ترجمان واشگاف الفاظ میں
کہ رہے تھے کہ پچاس ممالک کے اسلامی سربراہوں کو ٹرمپ اپنی تقریر میں
سمجھانے جا رہے ہیں کہ آپ کس طرح اسلام پر عمل کرکے دہشت گردی سے نجات پا
سکتے ہو‘‘ پھر ٹرمپ صاحب نے بھرپور تقریر کی۔اس کی تقریر میں مسلمانوں میں
تفریق پیدا کرکے ایران کو تنہا کرنے کیلئے دیگر مسلمان ممالک کا بلاک بنایا
جا رہا تھا۔ ہندوستان جیسی ’’دہشت گرد ریاست‘‘جو ستر سال سے نہتے کشمیریوں
پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے، کو’’ دہشت گردی کا شکار‘‘ قرار دیا جا
رہا تھا، ۔اس سربراہی کانفرنس میں وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف
بھی تشریف لے گئے تھے۔ یمن جیسے ملک کے سربراہ کو تقریر کا موقع دیا گیا
لیکن بھرپور تیاری کے باوجود وزیر اعظم پاکستان کو نظر انداز کرتے ہوئے
انہیں تقریر کا موقع تک نہیں دیا گیا ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ جس نے
دہشت گردی کے خاتمے کیلئے سب سے زیادہ قربانیاں دیں۔پچاس ہزار سے زیادہ
لاشیں اٹھائیں۔ ایک سو بیس ارب ڈالر کا مالی نقصان برداشت کیا۔اپنے نونہال
اور معصوم بچے ذبح کرائے ۔لیکن اس سب کے باوجود مسٹر ٹرمپ نے اپنی تقریر
میں پاکستان کودہشت زدہ ملکوں کی فہرست میں شامل کرنا بھی مناسب نہیں
سمجھا۔دوسری طرف طرفہ تماشہ یہ کہ مسلمان ممالک کے سربراہان ڈونلڈ ٹرمپ کی
تقریر پر تالیاں بجا کر’’ معزز مہمان گرامی‘‘ کو نہ جانے کس خوشی میں داد و
تحسین دے رہے تھے۔اس کانفرنس میں سعودی شہنشاہ سلمان عالی جاہ نے خود ساختہ
’’خصوصی اختیارات‘‘ استعمال کیے اور تمام مسلمانوں کی سودہ بازی کرتے ہوئے
کہا کہ’’ ڈیڑھ ارب مسلمان مسٹر ٹرمپ اور امریکہ کے ساتھ ہیں‘‘۔ ہم نہیں
سمجھتے کہ فکر و نظر، حمیت دینی اورغیرت ایمانی کے حامل کسی مسلمان کے دل
کی ترجمانی شہنشاہ عالی جناب کر رہے تھے۔ سچ کہا تھا شاعر مشرق علامہ محمد
اقبال نے۔
کیا سناتا ہے مجھے ترک و عرب کی داستاں مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا
سوز و ساز
لے گئے تثلیث کے فرزند میراث خلیل خشت ِ بنیاد کلیسا بن گئی خاک حجاز
حکمت ِ مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے
غاز
انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ کی بے ربط اور جنونی تقریروں کے نتیجے میں ہمارا
میڈیا اسے ’’بھولا بھالا‘‘ سمجھتا رہا۔ لیکن یاد رکھیں یہ بھولا بھالا نہیں
بلکہ بہت شاطراور تیز تراز ہے۔ عالمی سطح پر مسلمانوں کو آپس میں لڑانے
کیلئے مضبوط اور مربوط منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ شیعہ سنی فسادات کو ہوا
دے کر اس سے قبل بھی ایران، عراق جنگ کروائی گئی ۔ اس کے نتیجے میں لاکھوں
مسلمان لقمہ اجل بنے۔ اب سنی ممالک کا مضبوط بلاک بنا کر انہیں ایران اور
اس کے ہمنوا ممالک کے آمنے سامنے کھڑا کیا جا رہا ہے۔ ’’منہ میں خاک‘‘ مگر
لگ ایسے رہا ہے کہ مسلمانوں کی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرنے کی منصوبہ
بندی اپنے آخری مراحل میں ہے۔ خدا نہ خواستہ جب ایران پر حملہ ہوگا تو
انہوں نے بھی جوابی کاروائی کرنی ہے۔ ایران کی کاروائی کو’’ حرمین شریفین
‘‘ پر حملہ قرار دیا جائے گا۔ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو بڑھکاکر جلتی پر
تیل ڈالا جائے گا۔ ان حالات میں پاکستان کو جکڑنے کیلئے گہری اور دور اندیش
منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ جنرل راحیل شریف کو مسلم ممالک کے فوجی اتحاد کا
سربراہ بنا دیا گیا جس کا’’ این او سی ‘‘حکومت پاکستان نے جاری کیا۔ ہماری
دو سرحدیں جو افغانستان اور ہندوستان سے ملتی ہیں وہ پہلے ہی خطروں کی زد
میں ہیں۔ اگر اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی نہ کی تو ایرانی سرحد کو مزید
خطرات در پیش ہو سکتے ہیں۔ امت مسلمہ کے زعماء اور ارباب اختیار کو ہوش کے
ناخن لینے کی ضرورت ہے۔روز روز کی کاسہ سائی اور بھیک کی بجائے اپنی عظمت
رفتہ کی بحالی کی طرف متوجہ ہوں۔ دور اندیشی کے ساتھ اپنے معاملات و مسائل
خود حل کریں۔ آپس میں اتفاق و اتحاد اوریگانگت پیدا کریں۔ اﷲ کریم نے
مسلمان ممالک کو بے پناہ دولتوں سے نوازا ہے۔ ا س قدر قدرتی وسائل اور نعمت
ہائے خدا وندی کے باوجود یہ دریوزہ گری اوربے چارگی باعث تعجب نہیں تو اور
کیا ہے؟
مانگتے پھرتے ہیں اغیار سے مٹی کے چراغ اپنے خورشید پہ پھیلا دیے سائے ہم
نے |