تین سال قبل جب نریندر مودی کی حلف برداری ہوئی تھی تو
ہندوستان کی عوام تین طبقات میں منقسم تھے۔ سنگھ پریوار کے لوگ خوشی سے
پھولے نہیں سما رہے تھے ۔ انہیں لگ رہا تھا کہ ہندوستان ہندوراشٹر بن گیا
ہے اور رام راجیہ آیاہی چاہتاہے لیکن جب ان لوگوں نے تاجپوشی کی محفل میں
نواز شریف جیسے راون کو مودی جی سے مصافحہ کرتے ہوئے دیکھا تو ان کی عقل
ٹھکانے آگئی کیونکہ ایسی جرأت تو کسی کانگریس بھی نہیں کرسکی تھی ۔ عام
لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ اب ان کے اچھے دن آنے ہی والے ہیں اور جلد ہی ان
کے بنک اکاونٹ میں ۱۵ لاکھ روپئے جمع ہوجائیں گے لیکن جب امیت شاہ نے
انکشاف کیا کہ وہ تو محض انتخابی جملہ بازی تھی وہ ہوش ٹھکانے آگئے اور
مسلمان سوچ رہے تھے کہ نہ جانے کون سی افتاد ٹوٹ پڑے گی اور گجرات کا تجربہ
سارے ملک میں دوہرایا جائیگا لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ کل تک ٹوپی پہننے
سے انکار کرنے والا وزیراعظم کی کرسی کا امیدوار اب بڑے مزے سے صافہ
بندھوارہا ہے تو محسوس ہواکہ چہرہ نہیں نقاب بدل گئی ہے پنجے اور ترشول میں
فرق تو ہے مگر بہت زیادہ نہیں ۔
ان تین سالوں میں بہت کچھ ہوا ۔ ابتداء گھرواپسی سے ہوئی اور پھر اس کی جگہ
لوجہاد نے لے لی لیکن یہ معاملہ طول نہیں پکڑ سکا یہاں تک کہ یوگی ادیتیہ
ناتھ کو وزیراعلیٰ بننے کے بعد رومیو بریگیڈ کا نام بدلنا پڑا اور ہندو یوا
واہنی کی ارکان سازی پر روک لگانی پڑی۔ اس کے بعد سوچھتاّ ابھیان شروع کیا
گیا لیکن وہ ڈرامہ بھی کوئی خاص رنگ نہیں جماسکا اس لیے کہ اگر قلب و ذہن
غلاظت سے پاک نہ ہوں تو ظاہری صاف صفائی بے معنیٰ ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد
یوگا کا ناٹک شروع ہوا اور سوریہ نمسکار تک پہنچا لیکن پھر اسے بھی لوگ
بھول بھال گئے۔ جب ہلکے پھلکے جھٹکے بے اثر ہوگئے تو باہر سے کالا دھن واپس
لانے والی مودی سرکار نے بندی کا بڑا دھماکہ کردیا لیکن اس نس بندی کے بھی
خاطر خواہ نتائج مرتب نہیں ہوسکے ۔ عام لوگ اے ٹی ایم کی قطار میں
مرمرکےجیتے رہے لیکن کالے دھن والوں کے گھر سفید دھن پہنچتا رہا ۔ بی جے پی
کےسابق رکن پارلیمان ریڈی نے اپنی بیٹی کی شادی میں ۵۰۰کروڈ خرچ کرکےاس
ڈھول کا پول کھول دیا ۔ آخری حربہ سرجیکل اسٹرائیک تھا لیکن افسوس کہ وہ
بھی شکوک وشبہات کے نرغے میں آ گیا ۔
اس دوران گئورکشا کا طوفان آیا جس کا شکار ابتداء میں تو مسلمان ہوئے مگر
آگے چل کر اس نے دلتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری
ہے حالانکہ وزیراعظم گئو سیوکوں اور گئو رکشکوں کے درمیان فرق واضح کرچکے
ہیں ۔ ان کے خیال میں ۸۰ فیصد گئورکشک مجرم پیشہ لوگ ہیں اس لیے ان کی
تفتیش ہونی چاہیے۔انہوں نے دلتوں پر حملہ کرنے والوں کے سامنےاپنی ۵۶ انچ
کی چھاتی کو گولی چلانے کے لیے کھول دیا لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا ۔
آج بھی ملک کے مختلف علاقوں میںگائے کے نام پر مسلمانوں اور دلتوں کاناحق
خون بہایا جارہا ہے۔ اترپردیش کے سہارنپور میں ایک ماہ کے اندر تین ٹھاکر
دلت فسادات ہوچکے ہیں اور مودی و یوگی دونوںبے دست وپا ہیں ۔ اپنے ووٹ بنک
کی خوشنودی کے پیش نظر اس پرکوئی لب کشائی نہیں کرتا سب چپ سادھے بیٹھے ہیں
جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ جس آسیب کی مدد سے ان زعفرانیوں نے اقتدار پر قبضہ
کیا تھا وہ ان کے قابو سے باہر ہوچکا ہے اور کسی صورت ان کو خاطر میں نہیں
لاتا اس لیے حکومت کی ساری تو جہات تین طلاق کی جانب مبذول ہوگئی۔ تین سال
بعد حکومت کو پتہ چلا ہے کہ ملک وقوم کے سامنے سب سے بڑاتین طلاق کا ہے
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہی وہ ’’ سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘‘ ہے
جس کی خاطر اس حکومت کو چنا گیا تھا؟ جولوگ اس سوال پر غور کرتے ہیں انہیں
سرکار کی کارکردگی اور ان تین سالوں کی بربادی پر افسوس ہوتا ہے۔
قومی نتائج کا اعلان ۱۶ مئی ۲۰۱۴کو ہوگیا تھا ۔ اس سال اسی تاریخ کو بی بی
سی (ہندی) نے اپنے فیس بک اور ٹویٹر صفحے پر قارئین سے سوال کیا کہ کیا ان
تین سالوں مودی سرکار ان کی توقعات پر پوری اتری ہے تو اس کے جواب میں
تنخواہ دار بھکتوں نے بہت کچھ لکھا لیکن عام لوگوں کی تحریریں قابلِ توجہ
ہیں۔ راہل کمار نے لکھا میں خوش ہوں کہ صرف دوسال بچے ہیں ۔ اس سے زیادہ
خوشی میں بیان نہیں کرسکتا۔ منوج کمار نے کہا ۱۵ لاکھ میں ۵ لاکھ آپ کے
۰۰۰باقی دے دو پلیز۰۰۰ ہم کو پتہ ہے کہ گاوں کا پردھان بھی ہر کام کروانے
کے لیے کمیشن لیتا ہے لیکن آپ ۵ لاکھ کو پارٹی فنڈ میں ڈال دینا۔ باقی دس
لاکھ کافی ہیں۰۰۰۰نوٹ بندی کے ٹائم پر جو کچھ اِدھر اُدھر کروایا وہ بھی
آپ کا ہے۰۰۰پر دس لاکھ تو ۰۰۰؟ ونود نے کہا ہماری امیدیں چھوڑیئے صاحب جو
وعدے مینی فیسٹو میں کئے تھے ان کا کیا ہوا؟ اس کا جائزہ خود لیں ۔ کچھ
نہیں ہوا بلکہ اس کے برخلاف ہوا۔
اس مایوسی کی وجہ یہ ہے کہ اچھے دنوں کے خواب پوری طرح چکنا چور ہوچکے ہیں۔
دعویٰ تو کیا گیا تھا کہ ہرسال دو کروڈ لوگوں کو ملازمت ملے گی اسی لیے میک
ان انڈیا کا نعرہ لگایا گیا لیکن حکومت ایک لاکھ ۳۵ ہزار سے آگے نہیں بڑھ
سکی ۔ سنگھ پریوار کی بھارتیہ مزدور سنگھ کے مطابق نوٹ بندی کے سبب ۲۰ لاکھ
لوگ بیروزگار ہوگئے۔ کسانوں سے وعدہ کیا گیا تھا کم ازکم قیمتِ خرید میں ۵۰
فیصد کا اضافہ ہوگا مگر یہ بڑھوتری مہنگائی کی شرح سے بھی آگے نہیں جاسکی
اور ۵ء۳ فیصد پر سمٹ کر رہ گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ ۳۵ کسان ہر روز خودکشی کرتے
ہیں اور اس میں بی جے پی کی صوبائی حکومت والی ریاستِ مہاراشٹر سرِ فہرست
ہے ۔ بیٹی پڑھاو ،بیٹی بچاو کا نعرہ لگانے والوں کے زیراقتدار ہر ۹ منٹ میں
ایک عصمت دری کا واقعہ رونما ہوتا جبکہ حکومت کو تین طلاق کا غم ستاتا ہے۔
دھندہ بیوپار چوپٹ ہے اور کاروبار میں سہولیات فراہم کرنے کی فہرست میں
ہندوستان ۱۳۰ ویں مقام پر ہے۔ اس کے باوجود خوشحالی کے خواب دکھاکر بہلایا
پھسلایاجاتاہے ۔ مودی جی نے ملک کی جو حالت کررکھی ہے اس پر عبیداللہ علیم
کا یہ شعر من و عن صادق آتا ہے؎
بنا گلاب تو کانٹے چبھا گیا اک شخص
ہوا چراغ تو گھر ہی جلا گیا اک شخص
مودی جی کے بارے میں لوگوں کو یہ غلط فہمی تھی کہ قومی سلامتی کے معاملے
میں سخت اقدام کریں گے لیکن نکسلوادیوں کے یکے بعد دیگرے حملوں نےان توقعات
کی ہوا نکال دی ۔ کشمیر کے مسئلے کو مودی جی نے سیاستداں کے بجائےتھانیدار
کی مانند ڈنڈے کے زور سے حل کرنے کوشش کی اور بری طرح ناکام رہے۔اس سے بڑی
نااہلی اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہاں کی صوبائی حکومت میں بی جے پی شریک کار
ہے اس کے باوجود اسے برخواست کرکے گورنر راج لگانے پر غور ہورہا ہے ۔ دس
ماہ سے حالات قابو سے باہر ہیں اور سیکیورٹی مشیر کی بیساکھی پر چلنے والی
مرکزی حکومت کی ساری حکمت عملی دھری کی دھری پڑی ہے۔ یہ عجیب منافقت ہے کہ
نکسلوادیوں پر عوام کوانسانی ڈھال بنانے کا الزام لگا کر انہیں بزدل قرار
دیا جاتا ہے اور جب سر سے پیر اسلحہ پوش فوجی وہی بہیمانہ حرکت کرتاہے تو
اسے دلیری کا تمغہ دیا جاتا ہے۔ اس حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ انسانی
حقوق کی پامالی سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ پیدا ہوتے ہیں اور اس کی
پذیرائی سے سنگین تر ہوجاتے ہیں۔ وردی پوش لیفٹننٹ عمر فیاض کے قتل پر سابق
آئی پی ایس افسرسنجیو بھٹ نے سوال اٹھاکر قومی ضمیر کو جھنجھوڑ دیا انہوں
نے پوچھا کیا ہم واقعی جانتے ہیں قتل کس نے کیا ؟ کیا تنازع کو ہوادینے کے
لئے دوول اینڈ کمپنی کے زرخرید گرگوں کی یہ کارستانی نہیں ہوسکتی ؟
پاکستان کو سخت جواب دینے کا شور مچانے والا شیر آج کل ایسی بھیگی بلی بنا
ہوا ہے کہ برطانیہ میں دھماکے پر تو ٹویٹ کرتا ہے لیکن سرحد پر مارے جانے
والے فوجیوں پر زبان نہیں کھولتا ۔ یہی وجہ ہے مودی جی ان کی تیسری سال گرہ
سے ۱۳ دن قبل سابق فوجی دھرم ویر کی اہلیہ سمن رانی نے ۵۶ انچ کی چولی اور
ایک احتجاجی خط ہریانہ کے فتح آباد سے روانہ کیا ہے۔ اس چولی کے پیچھے
چھپا پیغام جتنی جلدی مودی جی کی سمجھ میں آجائے اتنی ہی ان کی بھلائی
ہے۔ان تین سالوں میں سب سے بڑی ناکامی خارجہ پالیسی میں ہوئی ۔ مودی جی نے
پہلے تو جوش میں ساری دنیا کا دورہ کیا اور سب کو دور کردیا۔ اب تو یہ ھال
ہے ہمارا سب سے پرانہ دوست نیپال چین کی گود میں ہے اور روس پاکستان کا
ہمنوا بن چکا ہے۔بی بی سی پر لکھے جانے والے تبصروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ
اس حکومت سے عام لوگوں کے علاوہ بی جے پی کا سوچنے سمجھنےوالا حامی بھی
ناراض ہےاس لیے ونیش چودھری نے لکھتے ہیں ’’وعدے بڑے تھے ۔ ہم نے حمایت کی
تھی۔ سوچا کچھ نیا ہوگا۔ دوسال اور سہی ، ہوسکتا ہے کوئی اور وجہ مل جائے
پھر سے لانے کی ۔ بی جے پی کا حامی ہوں مودی سرکار کا نہیں۔ کیلاش مہرہ نے
تو تک بندی میں کویتا ہی کہہ ڈالی :
تین سالوں میں ٹوٹی آس
اور چلو مودی کے ساتھ
نہ روزگار اور نہ وکاس
بس مہنگائی اور بکواس
سب کے ساتھ سمان وناش
اس صورتحال میں سرکار ۲۶ مئی سے تین ہفتوں کا ایک جشن منانے جارہی اس سے
یہی توقع کی جاسکتی ہے دوسال بعد یہ پانچ ہفتوں کا جشن مناکر اپنے وعدوں کی
طرح ہوا میں تحلیل ہوجائیگی ۔ اس ہنگامے کا نام جمہوریت کا جشن رکھا گیا ۔
حیرت کی بات ہے کہ عدم تحفظ کے اس ماحول میں جب غنڈوں کی بھیڑ دن دہاڑے بے
قصور لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار کر حکمرانوں کے سائے میں پناہ لے لیتی ہے۔
پولس والے جس کا چاہیں انکاونٹر کر کے اپنے آقاوں کی خوشنودی حاصل کرتے
ہیں ۔ اقوام متحدہ میں پہلی بار حکومت کو انسانی حقوق کے باب میں معذرت پیش
کرنے کی نوبت آتی ہے اور ہر روز جمہوری اقدار کا جنازہ اٹھتا ہے سرکار
بزعم خود جمہوریت کے جشن کا اعلان کرتی ہے۔ ان پروگراموں میں مودی اور شاہ
کے علاوہ ۴۴۰ اہم رہنما حصہ لیں گے جن میں ۳۳۰ ارکان پارلیمان ، ۱۳ وزرائے
اعلیٰ اورمرکزی ذمہ داران شریک ہوں گے۔
اس جشن کا مرکزی موضوع گاوں ، غریب اور کسان ہوگا لیکن اس میں گئو کی کمی
ہے اس لیے کہ بی جے پی کو ملک کے سارے غرباءاور کسان تو ووٹ نہیں دیں گے
مگر ساری گائیں ضرور اسی کو ووٹ دیں گی اس لیے تاریخ انسانی میں پہلی بار
یہ سرکار انہیں آدھار تو نہیں مگر آدھار کارڈ سے نوازنے جارہی ہے ۔اس ملک
میں جس کو آدھار کارڈ مل گیا اس کے لیے ووٹر کارڈ کیا چیز ہے اور پھر ای
وی ایم مشین کے قریب جیسے ہی کوئی گائے پہنچے گی اس کے اندر کمل کھل
جائیگا۔ دورانِ جشن صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر ’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘
کے عنوان پر کنونشن ہوں گے ۔ اس وکاس میں پہلا حق گئو ماتا کا اور پھر اصلی
ماتا کا نمبر آئیگا جس نے۹ مہینے اپنے پیٹ میں رکھ کر جنم دیا تھا۔ ایک
خاص بات یہ ہے تین سال تک اپنا گھسا پٹا راگ یعنی ’من کی بات‘ سنانے کے بعد
پہلی بار سرکار کو’ جن کی بات‘ سننے کا خیال آیا ہے جو خوش آئند ہے۔
اس بار سوچھتا ابھیان کے تحت سیاسی رہنما غریب بستیوں میں جاکر وہاں کی
عوام سے خیریت دریافت کریں گے ۔ یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ عوام کے پاس
رہنماوں کو بھیجنے کے لئےجشن جمہوریت کا اہتمام کرنا پڑرہا ہے۔ جس طرح
اداکار اپنی فلم کی ریلیز کے وقت عوام کے پاس جاتے اسی طرح سیاستداں پہلی
بار ووٹ مانگنے کے لیے جاتے ہیں ۔ اداکار ر دوسری بار فلم کی جوبلی مارنے
پر عوام کا شکریہ ادا کرنے کے لیے شائقین سے رابطہ کرتے ہیں سیاستداں بھی
اپنی سرکار کی سالگرہ عوام کے ساتھ منائیں گے ۔ مودی جی کو اپنے وزراء سے
ہمیشہ یہ شکایت رہتی ہے کہ پرانی اسکیموں کو نیا جامہ پہنا نے کا جو عظیم
کارنامہ وہ آئے دن انجام دیتے رہتے ہیں ان سے عوام کو روشناس نہیں کرایا
جاتا ۔ سوال یہ ہے کہ اگر عوامی فلاح بہبود کا ٹھوس کام کیا جائے تو عوام
کو یہ بتانے کی چنداں ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ حکومت ان کے لیے کیا کیا
کررہی ہے۔ کام بولتا ہے بشرطیکہ کیا جائے۔
۲۰۰۳ کے انتخابات کے وقت بھی واجپائی سرکار نے چمکتا دمکتا بھارت دکھلا کر
عوام کو ورغلانے کی کوشش کی تھی مگر ناکام رہی ۔ ایسا کرنا ان تمام لوگوں
کی مجبوری ہوتی ہے جو ’من کی بات‘تو کرتے ہیں لیکن کام کی بات نہیں کرتے ۔
ایسے لوگوں کو عوام جاکر ازخود اپنی تعریف وتوصیف کرنی پڑتی ہے ۔ اس معاملے
میں مودی سرکار بہت تیز ہے ۔ اس نے اگر کسی میدان میں قابلِ ذکر ترقی کی ہے
تو وہی میڈیا مینیجمنٹ ہے۔ سرکاری خزانے سے اوسطاً ۴ء۱ کروڈ روپیہ یومیہ
اشتہار بازی پر خرچ ہوتا ہے۔ یوپی اے کے دس سالوں اشتہار بازی کا سالانہ
اوسط ۵۰۴ کروڈ تھا لیکن مودی سرکار نے پہلے ہی سال میں ۹۹۳ کروڈ خرچ کردیئے
۔ پارٹی کے ذریعہ خرچ ہونے والا سفید اور کالا دھن اضافی ہے ۔ ایہی وجہ ہے
ب پریس کانفرنس سے ڈرنے والا وزیراعظم ذرائع ابلاغ پر چھایا رہتا ہے اور
لوگ حیرت سے اپنے آپ سے پوچھتے ہیں ؎
آنکھوں کا ہے فریب یا دھن کا کمال ہے
آتی ہے کیوں نظر تیری صورت جگہ جگہ
اتر پردیش کی انتخابی کامیابی کے بعد بی جے پی کے اندر جو ہوا بھری جارہی
ہے وہ اپنی جگہ لیکن سچی بات یہ ہے کہ مودی جی گجرات کے صوبائی انتخاب کو
لے کر خاصے فکرمند ہیں ۔ گزشتہ ڈھائی سالوں میں تو انہوں نے گجرات کا ۸ بار
دورہ کیا لیکن ان پانچ ماہ میں وہ وہ چوتھی بار گجرات آچکے ہیں ۔ گجرات سے
جاتے ہوئے مودی جی نے اقتدار آنندی بین پٹیل کے حوالے کیا مگر ان کوپٹیلوں
کا احتجاج لے ڈوبا۔ امیت شاہ نے اس کا فائدہ اٹھا کر آنندی بین کا آنند
چھین لیا اور اپنےچیلے وجئے روپانی کو وزیراعلیٰ بنادیا ۔ وجئے روپانی جہاں
پٹیلوں کو منانے میں ناکام رہے وہیں اونا سے دلتوں پر ہونے والے مظالم کے
طوفان نے ایک نئی مشکل کھڑی کردی ۔ ویسے روایتی طور پر ہریجن کانگریس کے
ساتھ رہے ہیں لیکن وقت کے ساتھ وہ بھی مودی جی کےجھانسے میں آنے لگے تھے ۔
گئوماتا کی جعلی محبت میں سنگھیوں نے دوبارہ دلتوں کو ڈھکیل کر کانگریس کی
جھولی میں ڈال دیا ہے۔
اس بار جب مودی جی نےگجرات جانے کا فیصلہ کیا تو ان کے استقبال میں ہاردک
پٹیل اور اس کے ۵۰ ساتھیوں نے احتجاجا ًًسر منڈوایا ۔ ہاردک پٹیل نے اعلان
کیا کہ وہ اپنی قوم پر ہونے والے مظالم کے خلاف نیایہ (انصاف) یاترا نکالیں
گے۔ یہ یاترا احمدآباد سے ۱۵۵ کلومیٹر دور بوتاڑ ضلع سے نکلے گی اور پٹیل
سماج کیلئے ریزرویشن کا مطالبہ کرے گی۔ ہاردک پٹیل نے اپنے احتجاج کو
دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس کا مقصد آئندہ اسمبلی
انتخاب میں بی جے پی کو شکست فاش سے دوچار کرنا ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے
کہ پٹیل عآپ کے ساتھ چلے جائیں اس لیے کہ ان کو ساتھ لے کر کانگریس اپنے
پسماندہ رائے دہندگان کو ناراض نہیں کرسکتی لیکن اگر واقعی ہاردک پٹیل اپنی
برادری کو بی جے پی سے دور کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو یہ مودی اور شاہ
کے لیے بڑی فضیحت کی بات ہوگی۔ ویسے آج یا کل مشیت انہیں سزا دے کر رہے گی
اس لیے کہ ان لوگوں نے ملک کی عوام کو ایک پرفریب جال میں پھنسا رکھا ہے
لیکن جب وہ ہوش میں آئیں گے ضرور سبق سکھائیں گے تو انہیں سبق سکھائیں گے
فی الحال تو یہ صورتحال ہے کہ بقول شاعر ؎
میں کس ہوا میں اڑوں کس فضا میں لہراؤں
دکھوں کے جال ہراک سو بچھا گیا اک شخص
|