مسلم ممالک کودانش مندی سے کام لیناہوگا

نہ کوئی دنیاکی حقیقتوں کوجانتاہے اورنہ ہی اپنے اردگردبکھرتی قوموں اورتباہ ہوتی ہوئی قوتوں کودیکھتاہے۔عذاب کے فیصلوں اوراللہ کی جانب سے نصرت کے مظاہروں کودیکھنے کیلئے کسی تاریخ کی کتاب کھولنے یاعادوثمود کی بستیوں کامطالعہ کرنے کی ضرورت نہیں۔یہ ابھی کل کی باتیں ہیں،کوئی سوچ سکتاتھاکہ دنیاکی ایک ایٹمی سپرطاقت جس کے پاس اس ساری دنیاکوکئی مرتبہ تباہ کرنے کاسامان موجود ہو،جس کی تسخیر خلاؤں تک ہو،جودنیامیں پچاس سے زیادہ کیمونسٹ تحریکوں کی برملامددکرتاہو،بے خانماں،بے سروساماں افغان مجاہدوں نے صرف اپنے رب کے بتائے ہوئے حکم جہادکے ذریعے اس کی یہ حالت کردی کہ روس کی ائیر ہوسٹس صرف ایک ڈبل روٹی کیلئے اپنی عزت بیچنے پرمجبورہوجائے اوروہاں کے لوگ صرف روٹی کیلئے دوکانوں پراس طرح ٹوٹ پڑیں کہ معاملہ مقامی پولیس کے قابو میں نہ رہے اوربپھراہجوم ایک دوسرے پرحملہ آورہوجائے اور سینکڑوں شدیدزخمی ہوجائیں،نفرت اس حدتک پہنچ جائے کہ کل تک جس لینن کے مجسمے کوچومنااپنے لئے اعزازسمجھتے تھے اسی مجسمے کوسرعام جوتے مارے جائیں اوراس پرتھوکنافخرکی علامت بن جائے ۔

کسی ایک محاذپرشکست کے بعد قومیں متحدہوجایاکرتیں ہیں،انتقام کیلئے،اپنے آپ کومزید طا قتورکرنے کیلئے،لیکن جو مسلمان قوم جہاد سے منہ موڑ لے تو قدرت اس قوم کیلئے زوال ورسوائی کا فیصلہ صادرکر دیتی ہے۔ان کونفرت، تعصب،بھوک،افلاس اورایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہونے کامزاچکھا دیا جاتاہے۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امریکا١٩٠١ء سے چین،فلپائن،کوریا،ویت نام،جنوبی امریکہ دنیاکے دیگر٣٩ممالک سے ذلیل ورسواہوکر نکلاہے۔ دورنہ جائیں ابھی کل کی بات ہے،امریکاکی بھرپورطاقت اورقوت کامظہراسرائیل،جس کادفاعی نظام اس قدرمضبوط تھاکہ امریکی پینٹاگون بارہاایسی خواہش کااظہار کرتا تھاکہ اس کادفاعی انتظام بھی اسرائیل جیساہولیکن اس طاقت کوایک فوجی لحاظ سے غیرمنظم صرف۳۵۰۰افرادپر مشتمل تنظیم حزب اللہ نے اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوئے جہاد کے ذریعے امریکاکے لے پالک اسرائیل کوایسی ذلت آمیزشکست دی کہ اس کے فوری تین شہرخالی ہوگئے،اس کے چارلاکھ شہری در بدرہوگئے،کیاحزب اللہ کو کسی عالمی طاقت کی مددحاصل تھی ؟

فرمان ربی ہے جب ہم کسی قوم پرکوئی آفت نازل کرتے ہیں تووہ اس کی مادی توجیہات کرنے لگ جاتاہے لیکن وہ طاقت کے پجاری جن کادل ہی نہیں مانتا کہ اس کائنا ت پرایک اورحکمران طاقت ہے جس کایہ وعدہ ہے کہ اگرتم مجھ پر یقین کروتوتم قلیل بھی ہوگے توزیادہ طاقت پرغالب آؤگے۔یہ لوگ پھربھی تو جیہات کرتے ہیں لیکن آخرمیں انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ قدرت نے ہرانسان کے سینے میں ایک چھوٹاساایٹم بم''دل''کی شکل میں نصب کررکھاہے۔یہ چھوٹا سالوتھڑاپہاڑوں سے ٹکراجانے کی ہمت رکھتاہے اگراس میں صرف ایک رب کا خوف موجودہو،ساراباطل اس سے لرزاں اورخوفزدہ رہتاہےلیکن اگر اس میں دنیا کاخوف بٹھالیں توہ دن رسوائی کی موت آپ کی منتظررہتی ہے۔ جومسلمان قوم جہادسے منہ موڑتی ہے توہردن رسوائی کی موت اس کی منتظر رہتی ہے۔ ہم ایک جوہری قوت ہوتے ہوئے بھی لوگوں سے اپنے امن کی بھیک مانگ رہے ہیں اور دوسری طرف دنیاکی تمام جوہری طاقتیں افغان طالبان سے مذاکرات کیلئے راستہ ڈھونڈ رہی ہیں جنہوں نے صرف جہادکاسہارالیکراپنے وجودکومنوایاہے۔

دہشتگردی،شرپسندی اورتخریب کاری پرقابوپانے کے دعوے بھی عجیب ہیں،ہر روزمیڈیاپران دہشتگردوں،شرپسندوں او تخریب کاروں کوکچل دینے کے تبصرے اورتجزئیے سنتا ہوں توحیرت میں گم ہوجاتاہوں۔اس دنیاکے نقشے میں کوئی اقتدارکی کرسی پربیٹھاہوا شخص کسی ایک ملک کی بھی نشاندہی کر سکتا ہے جو فخرکے ساتھ یہ دعویٰ کرسکتاہو کہ وہ دہشتگردی پرقابوپا نے کی اہلیت رکھتا ہے۔امریکاسے برطانیہ،پورایورپ،عراق سے لیکرسری لنکا تک ،بھارت سے لیکرافغانستان تک،سب حکومتیں بے بس ہیں،مجبورہیں،لاچارہیں لیکن کوئی اس بے بسی اور کمزوری کو قبول نہیں کر رہا بلکہ ایسے ہی تجزیوں اورتبصروں پرعملدرآمدکی بناءپراس دلدل میں پھنستے جارہے ہیں۔کوئی یہ ماننے کیلئے تیار نہیں کہ مقلب القلوب صرف ایک ذات پروردگارہے جودلوں کوبدلتاہے،ان کو محبت سے بھردیتاہےلیکن ہم نے تونفرت سیکھی ہے،کچلنااوررٹ قائم کرناسیکھا ہے لیکن دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ جس قوم میں یہ بلا نازل ہوئی وہ اپنی پوری صلاحیت کے باوجود اس سے نہیں لڑ سکی۔

امریکااورمغربی ممالک(جن کے گھٹنوں کوچھوکرہمارے حکمران دن رات بھیک مانگ رہے ہیں)جوجدیدٹیکنالوجی رکھنے کادعویٰ کرتے ہیں جہاں ہزاروں افراد اپنی اس ٹیکنالوجی کی بدولت دہشت گردوں کی بوسونگھتے رہتے ہیں جہاں کوئی شہری اپنے پڑوسی میں کسی لمبی داڑھی والے کودیکھ لیں توفوراً پولیس کوآگاہ کر تے ہیں،باہرسے آنے والوں کوگھنٹوں ائیرپورٹ پرسیکورٹی کے نام پرذلیل کیاجاتاہے،کیاوہاں یہ سب ختم ہوگیا؟یاان کے شہران خطروں سے محفوظ ہوگئے ہیں؟یاان کاخوف کم ہوگیا؟ہرگز نہیں،ہم توایک آتش فشاں کے دہانے پربیٹھے ہوئے ہیں،پھر بھی ہماری سیاسی شیخیاں ختم نہیں ہوتیں، کیا دنیا کے کسی خطے میں ایساہواہے؟ویت نام،لاؤس،فلسطین،سری لنکا،چلی، نکاراگوا،کمبوڈیا،کہاں کسی نے میڈیاپرایسی دوکانداری چمکائی ہے؟لیکن شاید یہ خودکوبہت طاقتوراور دانشورسمجھتے ہیں ۔درپردہ ہمارے کچھ سیاسی لیڈراوردشمن تویہی چاہتے ہیں کہ کراچی،بلوچستان اوروزیرستان میں جاری آپریشن ناکام ہوں،عوام کاخون اور بہے اورگھرانے ماتم کدہ بن جائیں اورلوگ اس آگ میں جھلس جائیں اورپھر مجبورہوکرسرجھکاکران کی ہربات،ہرمطالبہ مان لیں۔جوہری اثاثوں اورکشمیر سے دستبرداری اوربھارت کی غلامی اختیارکرلیں لیکن وقت نے یہ ثابت کیا ہے کہ ایسانہ کبھی پہلے ہواتھا اورنہ ہی آئندہ ہوگا۔
اس میں شک نہیں کہ ماضی میں ایک فوجی ڈکٹیٹرنے ہماری بہترین افواج کو ان دشمنوں کاآلہ کاربنانے کی پوری کوشش کی لیکن''جہاد''جیسے جذبے سے معمورفوج آج بھی اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ضربِ عضب آپریشن کے نتائج سے ساری قوم میں اطمینان کی لہردوڑگئی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری افواج کومکمل طورپر اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کیلئے استعمال کیاجائے۔مجھے قوی امید ہے کہ''جہاد''کے جذبے سے سرشار افواج اپنے ملک کے جوہری اثاثوں اورمسئلہ کشمیرپرکبھی قوم کومایوس نہیں کرے گی اسی لئے ہماری بہادرفوج نے ببانگ دہل کشمیرکوپاکستان کی شہ رگ قراردیکر کشمیریوں سے مکمل یکجہتی کااعلان کیاہے۔پچھلے۷۰برسوں سے بھارت اور عالمی طاقتوں نے مسئلہ کشمیرسے جس طرح بے اعتنائی اختیارکی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔اقوام متحدہ جوان عالمی طاقتوں کی کنیزاورلونڈی کاکرداراداکر رہی ہے اس کے چارٹرمیں بھی مظلوم اقوام کی اپنی آزادی کیلئے مسلح جدوجہد کی حمائت کی گئی ہے اورکشمیرکامسئلہ تواقوام متحدہ کے ایجنڈے پرسب سے پراناایسامسئلہ ہے جوابھی تک عالمی ضمیرکوان کی بے حسی کی یاددلانے کیلئے کافی ہے۔

ایک دفعہ پھرکشمیریوں کے جہادنے بھارت کی نیندیں حرام کردی ہیں اورتاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ بھارت ایسے مشکل حالات میں پہلے کبھی نہیں پھنسا جہاں اس کااپناالیکٹرانک اورپریس میڈیاکشمیرکوبھارت کے ہاتھوں سے نکلنے کی دہائی دے رہا ہے جہاں اس کے اپنے سیاسی دانشوربھارت کو کشمیرسے گلوخلاصی کامشورہ دے رہے ہیں۔یہاں ہمارے پالیسی سازاوردفاعی اداروں کو ایسی مربوط پالیسی بنانے کی ضرورت ہے کہ آئندہ اگر بھارت نے اس مشکل سے نکلنے کیلئے یاکشمیر کے مسئلے کودبانے کیلئے پاکستان کے سا تھ محاذ کھولنے کی کوئی کوشش کی توہماری اسٹریٹجی کیاہوگی؟۱۹۶۵ء کی جنگ میں ہم کھیم کرن میں الجھے رہے اور ۱۹۷۱ء کی جنگ میں پہلے چودہ روز ہم خاموش رہے (جبکہ ہمارا شروع دن سے یہ دعویٰ تھا کہ مشرقی پا کستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کریں گے)اور سندھ راجستھان جسیلمیرمیں اپنی افواج کو مصروف کر دیاجب کہ مشہور دفاعی تجزیہ نگاروں کے نزدیک پاکستان کا بہترین دفاع اورکشمیرکے حصول کاراستہ توکوئی اورہے جس کیلئے صرف دوبارہ توجہ دینے کی ضرورت ہے اوراس دفعہ زمینی حقائق توپاکستان کی افواج کے حق میں ہیں ۔

اہل نظرپچھلے کئی ماہ سے خبردارکرتے چلے آرہے ہیں۔رب کریم کے سامنے اپنی عاجزی،بے بسی کی دعائیں اورجہاد سے منہ موڑنے پراستغفارکی ضرورت ہے۔جن کے دلوں میں امریکاکاخوف اورہاتھوں میں کشکول ہے ان کے تکبر ٹوٹنے کاوقت آپہنچاہے۔افغانستان میں برطانوی سفیراورنیٹوافواج کے کمانڈر نے برملااپنی شکست کااعتراف کرلیاہے لیکن دوسری طرف عالم اسلام کے رہنماؤں کوقصرسفیدکے فرعون نے ایک مرتبہ پھرایک شاطرشکاری کی طرح نئے جال میں پھانس لیااورامت مسلمہ آج ان کے کردارپرشرمندہ اورپوچھ رہی ہے کہ کیاپچاس اسلامی ملکوں کے سربراہان میں کوئی ایک غیرت منداسلامی ملک کا سربراہ بھی موجودنہیں تھاجوایران کے خلاف ہرزہ سرائی پرٹرمپ سے پوچھ سکے کہ کیاامریکااوراس کے اتحادی حزب اللہ اورایران کوشکست دے سکتے ہیں جس نے اسرائیل جیسے بدمعاش کوعبرتناک شکست دی۔کیاان پچاس ممالک میں سے کسی کوکشمیرمیں بھارتی مظالم نظرنہیں آتے،کیایہ سب ممالک کے سربراہان ڈونلڈٹرمپ سے اسلام پرلیکچرسننے کیلئے اکٹھے ہوئے تھے؟؟

قصرسفیدکے فرعون نے پچاس سے زائداسلامی ممالک کے سربراہان کے سامنے نہ صرف دہشتگردی کواسلام سے جوڑدیابلکہ آزادی کی جنگ لڑنے والے فلسطینیوں اورکشمیریوں کا شماربھی دہشتگردوں میں کرڈالااورتمام مسلمان سربراہان اس کامنہ دیکھتے رہ گئے جبکہ جواب میں سعودی فرمانرواں نے کہا کہ ڈیڑھ ارب مسلمان واشنگٹن کے ساتھ ہیں۔کیاواقعی مسلم امہ واشنگٹن کے ساتھ ہے یاصرف مسلم حکمران ؟دراصل امریکااب ایک تیر سے کئی شکارکرنے کی منصوبہ بندی مکمل کرچکاہے ۔ ٹرمپ نے اپنے انتخابی مہم کے دوران ۱۹۴۹ء میں قائم ہونے والی نیٹوکوسفید ہاتھی قراردیتے ہوئے اس سے علیحدگی کااشارہ بھی دیاتھااوراب وہ نیٹوکوختم کرکے اسلامی عسکری اتحادکواپنی آشیر بادسے تمام سنی حکومتوں کوتحفظ وتعاون کی ضمانت دیکرپارٹنرشپ کی پیشکش کرکے اپنے مفادات کے حصول کیلئے استعمال کرناچاہتاہے جبکہ اسلامی عسکری اتحاد کومسلح کرنے کیلئے چارسو بلین ڈالرسے زائدکے اسلحے کی تجارت کے دفاعی معاہدہ پردستخط کرکے پہلے مرحلے میں ۱۱۰بلین ڈالرکے دفاعی سازوسامان کی ترسیل کاسودہ کیاہے جس کے تحت اب وہ ہر سال ۱۰۰ بلین ڈالرکااسلحہ بھی فراہم کرے گا۔

دراصل ٹرمپ نے اپنے انتخابی ایجنڈے پرعمل کرتے ہوئے اپنے چارسالہ دورِ حکومت میں امریکی اسلحہ سازکمپنیوں میں امریکی عوام کوروزگار فراہم کرنے کااپناوعدہ پوراکیاہے اور یہ اسی صورت ممکن ہوسکتاتھا کہ سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک پرایرانی حکومت کی جارحیت اور دہشت گردی کاخوف طاری کیاجائے لیکن دوسری طرف وہ ایران کوبھی ناراض نہیں کرے گا۔یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں امریکااورمغربی ممالک نے ایران سے کے گئے معاہدے کی توثیق کرتے ہوئے مزید کسی پابندی کے اطلاق کی کوئی شرط عائدنہیں کی۔ امریکا اور مغرب اسی معاہدے کی آڑمیں اب عالم اسلام میں فرقہ واریت کی آگ کوبھڑکاکراپنے دیرینہ مقاصدیعنی امریکی ورلڈآرڈرکی تکمیل کیلئے اپنی سازشوں میں بھی کامیاب نظرآرہا ہے ۔

یہ بات درست ہے کہ ایران نے سعودی عرب سمیت دیگرعرب دنیاکی پریشانیوں میں اضافہ کیاہے۔مذہبی انقلاب کے بعدایران نے اپنے اثرات عرب شیعہ ممالک لبنان اورشام میں توقائم کئے ہیں لیکن جب اس نے عراق اوریمن میں اپنے گروپوں کی سرپرستی کی توسعودی عرب کیلئے مشکلات پیداہوئیں اور ایرانی رہنماؤں نے عالمی میڈیامیں یہ بیان بھی داغ ڈالاکہ پہلی مرتبہ ایران سنی عربوں کے خلاف ایک مضبوط شیعہ پٹی بنانے اوردفاعی محاصرے میں کامیاب ہوگیا ہے اورکیونکہ سعودی فوج میں۴۳فیصداہلکاروں کاتعلق یمن سے ہے لہنداجب یمن کے حوثیوں کوایران نے اکسایاتوسعودی عرب کے خدشات درست تھے۔انہی سعودی خدشات کاامریکانے بھرپورفائدہ اٹھاتے ہوئے ایران کاہواکھڑاکیاہے لیکن ٹرمپ کے یہ آنسومگرمچھ کے ہیں۔عراق میں ایران کی حمائت سے ہی شیعہ حکومت قائم کی ہے جس کی امریکاسرپرستی کررہاہے۔اس لئے یہ سمجھناکہ امریکاایران پرکوئی اقتصادی پابندیاں لگائے گایہ اسلامی ملکوں کی غلط فہمی ہے اوراسی کانفرنس میں ٹرمپ نے بھارت کودہشتگردی کاشکارقراردیکر پاکستان کوبھی واضح پیغام دے دیاہے اوروزیراعظم نواز شریف جوجہازمیں مسلسل ڈھائی گھنٹے اپنی تقریرکی تیاری میں مصروف رہے،ان کومجوزہ کانفرنس میں تقریر کاموقع نہ دیکرگویا پروازسے قبل پرکاٹ کررکھ دیئے گئے ۔

ادھردوسری طرف افغانستان جہاں ٹرمپ کے حکم پرننگرہارمیں سب سے بڑے غیرجوہری بم کوگراکراقوام عالم کے سامنے افغانستان سے انخلاء کے وعدے کے جہاں پرخچے اڑاچکاہے وہاں خطے کے دیگرممالک کوبھی اپنے اگلے پروگرام کاواضح پیغام دے دیاہے۔افغانستان کے معاملے پرپھوٹ پڑچکی ہے اور اتحادیوں نے برطانیہ پر طالبان کی خفیہ مدد اور مذاکرات کا الزام بھی لگایا ہے اور دوسری طرف کٹھ پتلی حکومت افغان حکومت کو ایک مرتبہ پھرحالات خراب کرنے کااشارہ دیاجاچکاہے جس کی بناء پرحال ہی میں پاکستان کے ساتھ چمن سرحدپرناخوشگوارواقعے کے بعداب تک پاک افغان سرحدبند پڑی ہے جبکہ دوسری طرف گلبدین حکمت یار ثالثی کاکردارادا کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ مشترکہ کوششوں اورکاوشوں سے امریکاکے انخلاء کویقینی بنایاجاسکے۔

ان حالات میں اب یہ ضروری ہوگیاہے کہ اگربھارت بیک وقت سعودی عرب اورایران سے اپنے تعلقات استوارکئے ہوئے ہے اوردونوں ممالک کواس پر کوئی اعتراض بھی نہیں توپاکستان کوبھی ایران کوفوری طورپرانگیج کرناچاہئے۔اس میں شک نہیں کہ پاکستان کوایران سے کئی تحفظات اوربجا شکایات ہیں اورمیں اپنے سابقہ کالم میں اس کابرملااظہاربھی کرچکاہوں لیکن یہ دوبھائیوں کامعاملہ سمجھتے ہوئے اپنے معاملات پرکھل کربحث کرنی چاہئے۔ایران سے گیس پائپ لائن پراجیکٹ پراپنے وعدے کی تکمیل کیلئے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اورایرانی صدرحسن روحانی کی بات مان کرانہیں سی پیک کاحصہ بنالینے میں تاخیرنہیں کرنی چاہئے کیونکہ جب پاکستان سے ایرانی مالی مفادات وابستہ ہوجائیں گے توفرقہ وارانہ مخاصمت میں بھی کمی واقع ہو جائے گی۔اب وقت آ گیاہے کہ دونوں ممالک کے رہنماء دانشمندی سے کام لیں کہ اب ٹائی ٹینک کے ڈوبنے کاوقت آن پہنچا ہے۔سناہے جب جہاز ڈوبنے کا وقت ہوتاہے توچوہے سب سے پہلے جہاز چھوڑتے ہیں لیکن اب توشاید ان چوہوں کامقدربھی ہمیشہ کیلئے غرق ہوناٹھہرگیاہے۔کیاخوابوں کی تعبیرکاوقت آن پہنچا ہے؟
جب تک نہ جلے دیپ شہیدوں کے لہو سے
سنتے ہیں کہ جنت میں چراغاں نہیں ہوتا

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 350312 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.