اقبال نے کہاتھا ۔ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی
ہے۔ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیداور پیدا۔ ہماری لیڈر شپ سے متعلق نرگس
کا رونا شاید ابھی صدیوں تک محیط نہیں ہوپایا۔کیوں کہ ابھی تک مرد میدان کی
تلاش ختم نہیں ہوپائی۔ایسا مرد میدان جو قوم او رریاست کو درپیش مسائل سے
نبٹنے کی صلاحیت رکھتاہو۔اس کے اندر رضاکارانہ خدمت کا جزبہ ہو۔اور وہ یہ
خدمت نہ تو دکھاوے کے لیے کرے ۔اور نہ ہی کسی کے مجبور کرنے پر۔ابھی تک اس
پائے کا لیڈر دستیاب نہ ہونے کا خمیازہ ہم دن بدن زوال پذیر ہونے کی صور ت
میں بھگت رہے ہیں۔ہر دوسرے چوتھے برس کوئی نہ کوئی خدائی فوجدار میدان میں
اترتا تو ہے۔مگرکوئی کمال نہیں دکھا پاتا۔ یا تو وہ بھاری پتھر کو چوم کر
رخصت کا طلب گار ہوتاہے۔یا پھر اپنی کاوش کے بعد مسائل او رخرابیون میں
اضافہ کرنے کا سبب بن جاتاہے۔مرد میدان کی تلاش طول پکڑ رہی ہے۔مگر ہم اب
بھی پرامید ہیں۔لاہور پریس کلب میں میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے سابق گورنر
غلام مصطفی کھر کا کہنا تھا۔کہ ملک کو درپیش گھمبیر مسائل سے نکالنے کے لیے
کوئی لیڈر شپ نظر نہیں آرہی ۔حالات اس قدر برے ہیں۔کہ ناتو ہمیں اندر سے
کوئی کوشش ہوتی نظر آرہی ہے۔اور نہ ہی باہر سے کوئی آسرا نظر آرہا ہے۔دشمن
ملک کا جاسوس رنگے ہاتھوں پکڑا جاتاہے۔اور ہم اسے کیفر کردار تک پہنچانے
میں دلچسپی نہیں دکھارہے۔کرپشن ملک کو دیمک کی طرح کھارہی ہے۔میں اس وقت
کنٹر ووشل پرسنالٹی محض اسی بنا پر شمار کیا جارہا ہوں کہ وطن عزیز کو
درپیش مسائل دیکھ کر چپ نہیں رہ سکتا۔جب میں گورنر تھا۔تو ہمارے دور میں
کرپشن کا نام و نشان نہ تھا۔جب کہ آج ایک سال کے لیے وزیر توکیا ایک ایم پی
اے بننے والے اتنا مال بنا رہے ہیں کہ ان کی کئی بشتوں سے ختم نہ ہو۔
کھر صاحب کی ملکی حالات پر تشویش قابل ستائش ہے ۔ملک اس وقت بلاشبہ
مسائلستان بنا ہواہے۔مگر سوال یہ ہے کہ یہ مسائل کب حل ہونگے۔ان مسائل کو
حل کرنے کی صلاحیت رکھنے والی لیڈر شپ کب میدان میں اترے گی۔کھر صاحب کسی
مرد میدان میں تلاش میں کئی دہائیو ں سے سرگرداں ہیں۔انہیں بہتیرے مرد
میدان نظر آئے مگر بالاخر کسی دوسرے کی تلاش کی ضرورت پڑگئی۔جب نواز شریف
دس ستمبر دو ہزار سات کو اپنی جلاوطنی ختم کرکے وطن واپس لوٹ رہے تھے۔تو
کھرصاحب ان کے ہمراہ تھے۔کھرصاحب نے میاں صاحب کو مرد میدان تصور کرکے ان
کی حمایت کا فیصلہ کیا ۔وہ لندن سے میاں صاحب کے ساتھ چلے اور بڑی امیدیں
لیے پاکستان پہنچے۔کھر صاحب کے مرد میدان کو جس طرح ذلیل کرکے پاکستان میں
گھسنے سے روک دیا گیا وہ ایک لمبی کہانی ہے مختصرا یہ کہ نواز شریف کو
حکومت وقت کی طرف سے باوجود ایک بڑا مجرم قرار دیے جانے کے بجائے اس کے اسے
فوری جکڑ لیا جاتا۔جیل بھجوادیا جاتا۔ اسے زبردستی دوبارہ باہر بھجوادیا
گیا۔کہا یہ گیاکہ آپ کو گرفتار کیا جارہا ہے۔مگر دھوکے سے دوسرے طیارے میں
بٹھا کرملک سے باہر بھجوادیا گیا۔اس وقت نواز شریف کو وطن واپس آنے کی
اجاازت سپریم کورٹ نے دی تھی ۔پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کی طرف سے
نوازشریف کی واپسی میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالنے کا حکم نامہ تب کی حکومت نے تار
تارکردیا۔کھر صاحب نے میاں صاحب کے ساتھ مل کر قوم کو مسائل کے بھنور سے
نکالنے کے جو سہانے خواب دیکھے تھے۔وہ ان کی دوبارہ جلاوطنی کے ساتھ ہی دفن
ہوگئے۔کئی مہینوں تک انہیں کسی نئے مرد میدان کی تلاش کی ہمت نہ ہوئی۔
کھر صاحب ان دنوں پھر مرد میدان کی تلاش میں سرگرم ہیں۔اب انہیں عمران خان
کی صور ت میں ایک مرد میدان نظر آچکا ہے۔ابھی زیادہ بات پرانی نہیں ہوئی
۔علامہ طاہر القادری کی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر کھر صاحب نے قبضہ جمائے
رکھا۔جانے کیا بات ہوئی کہ وہاں ان کا دل نہیں لگا۔او رانہوں نے تحریک انصا
ف پر توجہ مرکوز کرلی۔انہوں نے مرد میدان کے لیے جو کسوٹی قائم کررکھی
ہے۔وہ شایدانہیں کسی ایک لیڈر شپ پر مطنئن رہنے سے روکے رکھتی ہے۔وہ بھٹو
کے گن گاتے تھے۔جب محترمہ بے نظیر بھٹو آئی تو ان کے وزیر بن گئے۔لندن تے
نواز شریف کی سنگت میں وطن واپس آئے۔پر طاہرالقادر ی کی گاڑی سے ہوتے ہوئے
اب ان کا منہ عمران خاں صاحب کی طرف ہے۔ ان کی مردمیدان پانے کی تلاش اب
پوری ہوگئی ہے۔یا نہیں اس کا فیصلہ آنے والے کچھ مہینے کریں گے۔اصل میں
ہمارے ہاں مرد میدان کی تلاش کا سلسلہ لمبا ہونے کا ایک سبب مرد میدان سے
متعلق کوئی واضح تعریف کا نہ ہونا ہے۔یہاں مرد میدان کی تشریح ہی الٹی
ہے۔یہاں کچھ لوگ مردمیدان سے مراد وہ شخص لیتے ہیں جو جینتے واا گھوڑاہے۔جو
انہیں میدان میں جتواسکے۔ جب اس سے بہتر گھوڑا نظر آیا۔مرد میدان کا لیبل
اس کے گلے میں ڈال دیا گیا۔کچھ لوگوں کی نظر میں مرد میدان وہ شخص ہے۔جو
اشاروں پر چلنے والا ہو۔ایسا کوئی کند ذہن کو جو کسی قسم کی مزاحمت کے بغیر
ناک کی سیدھ میں چلتاچلا جائے۔ابھی تک اسی قسم کے مرد میدان ڈھوندے جاتے
رہیں ہیں۔ایسا لیڈر جو صحیح معنوں میں قوم اور مملکت کو ضرورت ہو ۔اس کی نہ
تو کسی کو تلاش ہے۔اور نہ ہی ضررت۔اس طرح کا کوئی مرد میدان مل جائے تو اسے
نشان عبرت بنادیا جاتاہے۔ ۔کھر صاحب آپ اس طرح کے مرد میدان کے عبرت ناک
انجام کے عینی شاہد ہیں۔کبھی اس طرح کے مرد میدان کو پھانسی پر لٹکادیا
گیا۔اور کبھی اسے دھوکے سے کسی دوسرے طیارے پر بٹھاکر ملک بدر کردیا گیا۔ |