حالیہ امریکی انتخابات سے قبل ہلیری کلنٹن نے
برملادنیابھرکے تمام میڈیاکے سامنے اوراپنی کتاب میں یہ تسلیم کیاکہ داعش
جیسا ناسورامریکیوں ہی کی پروڈکٹ اورپروردہ ہے اور امریکی خطیرسرمائے
اورتربیت سے لیس کرکے اسے اپنے مقاصدکے حصول کیلئے میدان میں اتارا گیا
ہے۔استعماریت کااہم خاصا اس کی منافقت ہے اورامریکااس صفت سے بدرجہ اتم
متصف ہے۔ اب نئے فرعون ڈونلڈٹرمپ منافقوں کے امام کی شکل میں قصر سفید میں
براجمان ہیں،وہ داعش کوایک فتنہ قراردیکراسے نیست ونابودکرنے کیلئے سب سے
زیادہ ہلاکت آفرین بم کابہیمانہ استعمال کرکے بڑے فخریہ اندازمیں فتح
کااعلان کررہے ہیں جس پرساری دنیا میں رنج وغم کااظہارکیاگیاہے یہاں تک کہ
افغانستان کے کٹھ پتلی حکمران بشمول اشرف غنی اور کرزئی بھی چیخ اٹھے ہیں۔
پوری دنیاجان چکی ہے کہ ننگرہارمیں اس بم میں مارے جانے والوں میں نہ صرف
داعش بلکہ بھارت کادوغلاچہرہ بھی دنیا کے سامنے واضح ہوگیاہے۔ داعش کی کمین
گاہ پر''مدرآف آل بم''کے اس دہماکے میں ١٣بھارتی"را"ایجنٹ بھی جل
کرخاکسترہوگئے ہیں جس کوباقاعدہ بھارت نے تسلیم بھی کرلیاہے۔سوال یہ
پیداہوتاہے کہ یہ بھارتی وہاں داعش کی کمین گاہ پرکیاکررہے تھے؟اس سے ثابت
ہوگیاکہ افغانستان میں بھارت اپنی مکروہ سازشوں سے داعش کی تمام کاروائیوں
میں ملوث ہے اوراب بھارت بھی دنیابھرکے امن کیلئے شدیدترین خطرہ بن
چکاہے۔علاوہ ازیں داعش کی سرپرستی میں امریکا کے علاوہ جی سیون ممالک بھی
ملوث تھے جوداعش کے زیرقبضہ علاقوں سے سستے داموں ہتھیار اورڈالرکے عوض تیل
خریدتے تھے۔یہ فتنہ عراق سے ہوتاہواشام میں داخل ہوا اورخاص کریورپ سے
مغربی نوجوان لڑکے لڑکیوں کی شمولیت نے یورپین حکمرانوں کوسخت خوفزدہ
کردیاہے۔ خوفزدہ ہونے کی اصل وجہ یہ بھی ہے کہ بالخصوص نوجوانوں کاداعش سے
متاثرہونااس بات کی دلالت کرتاہے کہ استعماراور طاغوت کے خلاف صف آراء ہونے
والے کوفتنہ کہا جائے گایافتنہ عظیم کاقدرتی ردّ ِعمل؟
امریکی فوج نے داعش کانام استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں۹۶۰۰کلوگرام وزنی
بم گرایا۔امریکی فوج کے مطابق یہ بم صوبہ ننگرہارمیں واقع دولت اسلامیہ کے
سرنگوں پرمبنی کمپلیکس پرگرایاگیا۔جی بی یو/۴۳بی نامی اس بم کوبموں کی ماں
کہاجاتاہے۔یہ تاریخ کاسب سے بڑاغیرجوہری بم ہے جوامریکانے کسی بھی کاروائی
میں استعمال کیاہے۔امریکاکادعویٰ ہے کہ اس نے داعش کی کمرتوڑ کر رکھ دی ہے
لیکن اس نے تویہ بم گراکرکیا افغانستان کی کمرتوڑی ہے یامقاصد اس سے بھی
زیادہ گھمبیرتھے؟اس سوال کاجواب فی الوقت مستقبل کے پردے میں مستورہے
مگربہت جلدسامنے آجائے گاتاہم جس جگہ بم گرایاگیاہے وہ پاکستانی سرحدسے صرف
دومیل دورہے جبکہ اس بم کے تابکاری اثرات پاکستان کے متصل علاقوں میں بھی
محسوس کئے جارہے ہیں۔
اس بم کے استعمال کاپہلاتجربہ ۲۰۰۳ء میں چین میں کیاگیا۔اس سے پہلے کسی بھی
جنگ میں جی بی یو/۴۳بی نامی بم کا استعمال نہیں کیاگیا۔المیہ یہ ہے کہ داعش
نے اپنی(بزعم خویش )خلافت کوتوسیع دینے کیلئے مسلم اورغیرمسلم ممالک میں
اپنے سہولت کاروں کواستعمال کرناشروع کیااورنوجوان وکم عمر لڑکے لڑکیاں
کثیرتعدادمیں داعش میں شامل ہونے لگے۔اس کادائرہ پاکستان اور افغانستان میں
بھی پھیلا۔اب یہ حقیقت واضح ہوچکی ہے کہ اس مقصدکیلئے بھارتی حکومت کے
مشیراجیت دوول اورجاسو س کلبھوشن نے بھی سہولت کاری کی۔پاکستان میں داعش کی
جانب سے کی جانے والی چاکنگ اورپمفلٹ کی تقسیم نے پاکستانی عوام میں بھی
کسی حدتک پریشانی پیداکی کہ اگرداعش نے پاکستان میں قدم جما لئے تومناسب
نہیں ہوگالیکن حکومت پاکستان کی طرف سے ایسی اطلاعات کوہمیشہ
ردکیاجاتارہااورپاکستان میں داعش کی موجودگی سے
انکارکیاجاتارہامگر۲۱/اکتوبر۲۰۱۴ء کوبلوچستان کی صوبائی حکومت نےسیکورٹی
اداروں کوایک خفیہ رپورٹ بھیج کربتایاکہ داعش کادائرہ اثربڑھ رہاہے۔
قانون نافذکرنے والے اداروں کولکھا:داعش نے دعویٰ کیاہے کہ وہ ہنگواورکرم
ایجنسی میں دس سے بارہ ہزارحامیوں کوبھرتی کرچکی ہے۔بلوچستان کے داخلہ
اورقبائلی امورسے متعلقہ محکمے کی رپورٹ کے مطابق معتبرذرائع سے پتہ چلاہے
کہ داعش نے ایک کالعدم تنظیم کے بعض عناصرکوپاکستان میں خود
سے ہاتھ ملانے کی پیشکش کی ہے جبکہ اس تنظیم نے ایک دس رکنی اسٹرٹیجک
پلاننگ ونگ بھی قائم کیاہے۔رپورٹ کے مطابق آپریشن ضربِ عضب حکومتی عمارتوں
پرحملے اورشیعہ اقلیتی کمیونٹی کوبھی ہدف بنانے کاارادہ بتایا گیا۔حکومت
بلوچستان نے اپنے صوبے اورصوبہ خیبرپختونخواہ میں سیکورٹی اقدامات
اورنگرانی کاعمل بڑھانے کامطالبہ کرتے ہوئے حملوں کی روک تھام کی درخواست
کی تھی۔اہم بات یہ تھی کہ داعش کی پاکستان میں موجودگی کے حوالے سے یہ
انتباہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان شاہداللہ شاہداوراس کے
ساتھ چھ اہم کمانڈروں نے داعش میں شمولیت کااعلان کردیاتھا جس میں اورکزئی
ایجنسی کے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سربراہ سعیدخان، خیبرایجنسی کے
سربراہ فتح گل زمان، پشاور کے چیف مفتی حسن اورہنگو کے کمانڈرخالدمنظورنے
داعش کاحصہ بننے کااعلان کردیاتھا۔
شاہداللہ شاہدکے کالعدم تحریک طالبان چھوڑنے کے بعدمحمدخراسانی کوپاکستانی
طالبان نے اپنامرکزی ترجمان نامزدکردیا تھا۔سیکورٹی اداروں نے عوام کوکسی
خوف سے بچانے کیلئے داعش کی موجودگی کاانکارکردیاتھالیکن حقیقت یہی تھی کہ
داعش نے اپنے سہولت کاروں کے ذریعے کسی قدر قدم جمالئے تھے۔تعداد بڑھانے
کیلئے مراعات اوردولت کالالچ دیکر ایک بڑی تعدادکوبھی اکٹھاکرلیاتھا کیونکہ
کالعدم ٹی ٹی پی،پاکستان میں دہشت گردی کی مسلسل خلاف ورزیاں کر رہی تھی اس
لیے اہم کمانڈرز کی داعش میں شمولیت اور پھران کمانڈرزکے ساتھ داعش میں
جاناایک حقیقی خطرہ بن کر سیکورٹی اداروں کے سامنے آکھڑا ہوا تھاکیونکہ
امریکاکواپنے اعلان کے مطابق افغانستان سے جاناتھا۔اس لیے داعش کی نظریں
پاکستان اور افغانستا ن پرجمی ہوئی تھیں اوراس خدشے کااظہارکیاجارہا تھاکہ
افغانستان میں داعش کی مضبوطی پاکستان کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا اور خلیج
فارس کیلئے بڑے خطرے کی صورت میں نظرآرہی تھی۔داعش کوکنٹرول کرنا دونوں
ممالک کیلئے ایک چیلنج اوربڑے خطرے کی علامت تھا۔
کراچی اورخانیوال میں وال چاکنگ نے عوام کوان دیکھے خطرے سے خبردار
کردیاتھا،خاص طورپرجب لاہوراورپشاور میں پمفلٹ تقسیم کئے گئے توسیکورٹی
اداروں کیلئے نئے عفریت سے نبردآزماہوناایک بڑے چیلنج کی صورت میں سامنے
آیا تھا۔پشاورمیں افغان مہاجرین کیمپوں میں داعش نے شمولیت کیلئے پمفلٹ
اوراسٹکرزتقسیم کیے جومیڈیامیں بھی منظرعام پرآئے لیکن مقامی انتظامیہ نے
اس طرح کے پمفلٹ کی موجودگی سے ہی انکارکر دیا۔
یکم ستمبر۲۰۱۶ء کوآئی ایس پی آرنے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے انکشاف کیا کہ
گزشتہ دوبرس کے دوران ملک میں داعش کے کئی اہم کارندے گرفتارکرلئے گئے ہیں
کیونکہ داعش پاکستان میں گھسنے کی کوشش کررہی تھی لیکن سیکورٹی اداروں کی
انتھک کوششوں اوربھرپورکاروائیوں کے سبب داعش کو کوئی کامیابی نہیں مل
سکی۔یہ انکشاف بھی کیاگیاکہ ٹی وی چینلز اے آروائی، دنیا نیوزاوردن چینل
پرجوکریکرحملے ہوئے ان میں داعش ہی ملوث تھی۔پاکستان میں داعش کے بنیادی
طورپربیس سے پچیس افرادپرمشتمل ایک ایساگروپ تھاجس میں غیرملکی شامل تھے
لیکن سیکورٹی فورسز نے داعش کے مددگاروں سمیت کئی افرادکوگرفتارکرلیا۔آئی
ایس پی آرکی جانب سے یہ انکشاف بھی سامنے آیاکہ وال چاکنگ کیلئے داعش ایک
ہزارروپے دیاکرتی تھی۔ بہرحال فورسزنے نہ صرف داعش کوپاکستان میں قدم جمانے
سے روکابلکہ ان کا خاتمہ کردیاگیاتاہم افغانستان کے مشرقی صوبوں میں
موجودگی اس بناء پرایک چیلنج ہے کہ ان صوبوں سے پاکستان کی سرحدیں ملتی
ہیں۔(جاری ہے) |