صرف بھوکے پیاسے رہنے کا نام روزہ نہیں

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلیٰ آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔

حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو روزہ کے ثمرات میں بجز بھوکا رہنے کے کچھ بھی حاصل نہیں ، اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں کہ ان کو رات کے جاگنے (کی مشقت) کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا۔ (ابن ماجہ، نسائی) معلوم ہوا کہ صرف بھوکا پیاسا رہنا روزے کے بنیادی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ آئیے قرآن وحدیث کی روشنی میں روزے کے چند بنیادی مقاصد کو سمجھیں تاکہ اُن مقاصد کو سامنے رکھ کر ماہ رمضان کے روزے رکھے جائیں۔

تقوی: اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ (سورۃ البقرہ ۱۸۳) قرآن کریم کے اس اعلان کے مطابق روزہ کی فرضیت کا بنیادی مقصد لوگوں کی زندگی میں تقویٰ پیدا کرنا ہے ۔ تقویٰ اصل میں اﷲ تعالیٰ سے خوف ورجاء کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کے طریقہ کے مطابق ممنوعات سے بچنے اور اوامر پر عمل کرنے کا نام ہے۔ روزہ سے خواہشات کو قابو میں رکھنے کا ملکہ پیدا ہوتا ہے اور یہی تقویٰ یعنی اﷲ کے خوف کی بنیاد ہے۔ روزہ کے ذریعہ ہم عبادات، معاملات، اخلاقیات اور معاشرت غرضیکہ زندگی کے ہر شعبہ میں اپنے خالق، مالک ورازق کائنات کے حکم کے مطابق زندگی گزارنے والے بن سکتے ہیں۔ اگر ہم روزہ کے اس اہم مقصد کو سمجھیں اور جو قوت اور طاقت روزہ دیتا ہے اس کو لینے کے لئے تیار ہوں اور روزہ کی مدد سے اپنے اندر خوف خدا اور اطاعت امر کی صفت کو نشو ونما دینے کی کوشش کریں تو ماہ رمضان ہم میں اتنا تقویٰ پیدا کرسکتا ہے کہ صرف رمضان ہی میں نہیں بلکہ اس کے بعد بھی گیارہ مہینوں میں زندگی کی شاہراہ پر خاردار جھاڑیوں سے اپنے دامن کو بچاتے ہوئے چل سکیں۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو روزہ کے اس اہم مقصد کو اپنی زندگی میں لانے والا بنائے۔ آمین۔

گناہوں سے مغفرت حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے یعنی خالصۃً اﷲ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے روزہ رکھا اس کے گزشتہ تمام (چھوٹے) گناہ معاف فرمادئے جاتے ہیں۔ (بخاری ومسلم) اسی طرح حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے:جوایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے یعنی ریا، شہرت اور دکھاوے کے لئے نہیں بلکہ صرف اور صرف اﷲ کی رضا کے لئے رات میں اﷲ کی عبادت کے لئے کھڑا ہوا یعنی نماز تراویح اور تہجد پڑھی تو اس کے گزشتہ تمام (چھوٹے) گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔ (بخاری ومسلم) اسی طرح حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے: جو شحض شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے عبادت کے لئے کھڑا ہوا یعنی نماز تراویح وتہجد پڑھی، قرآن کی تلاوت فرمائی اور اﷲ کا ذکر کیا تو اس کے گزشتہ تمام (چھوٹے) گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔ (بخاری ومسلم)

ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ نے صحابۂ کرام سے ارشاد فرمایا کہ منبر کے قریب ہوجاؤ، صحابۂ کرام قریب ہوگئے۔ جب حضور اکرم ﷺ نے منبر کے پہلے درجہ پر قدم مبارک رکھا تو فرمایا آمین ۔ جب دوسرے درجہ پر قدم مبارک رکھا تو فرمایا آمین ۔ جب تیسرے درجہ پر قدم مبارک رکھا تو فرمایا آمین ۔ جب آپ ﷺخطبہ سے فارغ ہوکر نیچے اترے تو صحابۂ کرام نے عرض کیا کہ ہم نے آج آپ سے منبر پر چڑھتے ہوئے ایسی بات سنی جو پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام میرے سامنے آئے تھے ۔ جب پہلے درجہ پر میں نے قدم رکھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس نے رمضان کا مبارک مہینہ پایا پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوسکی، میں نے کہا آمین۔ پھر جب دوسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے آپ ﷺ کا ذکر مبارک ہو اور وہ درود نہ بھیجے، میں نے کہا آمین۔ جب میں تیسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پہونچے اور وہ اس کو جنت میں داخل نہ کراسکیں، میں نے کہا آمین۔ (بخاری، صحیح ابن حبان، مسند حاکم، ترمذی، بیہقی) غرضیکہ کس قدر فکر اور افسوس کی بات ہے کہ ماہ مبارک کے قیمتی اوقات بھی غفلت اور معاصی میں گزار دئے جائیں جس سے سابقہ گناہوں کی مغفرت بھی نہ ہوسکی۔ لہذا ہمیں رمضان کے ایک ایک لمحہ کی حفاظت کرنی چاہئے تاکہ ایسا نہ ہو کہ ہم حضرت جبرئیل علیہ السلام اور حضور اکرم ﷺ کی اس دعا کے تحت داخل ہوجائیں۔

حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو روزہ کے ثمرات میں بجز بھوکا رہنے کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں کہ ان کو رات کے جاگنے کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا۔ (سنن ابن ماجہ) یعنی روزہ رکھنے کے باوجود دوسروں کی غیبت کرتے رہتے ہیں یا گناہوں سے نہیں بچتے یاحرام مال سے افطار کرتے ہیں۔ لہذا ہمیں ہر ہر عمل خیر کی قبولیت کی فکر کرنی چاہئے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ صحابۂ کرام نے عرض کیا کہ کیا یہ شب ِمغفرت شب ِقدر ہی تو نہیں ہے؟ آپﷺ نے فرمایا نہیں بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کا کام ختم ہوتے ہی اسے مزدوری دے دی جاتی ہے۔ معلوم ہوا کہ ہمیں عید کی رات میں بھی اعمال صالحہ کا سلسلہ جاری رکھنا چاہئے تاکہ رمضان میں کی گئی عبادتوں کا بھرپور اجروثواب مل سکے۔

قرب الہی: روزہ دار کو اﷲ تعالیٰ کا خاص قرب حاصل ہوتا ہے۔ روزہ کے متعلق حدیث قدسی میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں خود ہی روزہ کا بدلہ ہوں۔(صحیح بخاری) اس سے زیادہ اﷲ کا کیا قرب ہوگا کہ اﷲ جل شانہ خود ہی روزہ کا بدلہ ہے۔ نیز حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ تین شخص کی دعا رد نہیں ہوتی ہے، ان تین اشخاص میں سے ایک روزہ دار کی افطار کے وقت کی دعا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ خود اﷲ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت نازل فرماتے ہیں۔ (صحیح ابن حبان)

عند اﷲ اجر عظیم کا حصول: اس برکتوں کے مہینہ میں ہر نیک عمل کا اجروثواب بڑھا دیا جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ہر عمل خیر کا دنیا میں ہی اجر بتادیا کہ کس عمل پر کیا ملے گا مگر روزہ کے متعلق حدیث قدسی میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: الصَّوْمُ لِی وَانَا اَجْزِیْ بِہ روزہ میرے لئے ہے اور میں خود اس کا بدلہ دوں گا۔ بلکہ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ میں خود ہی روزہ کا بدلہ ہوں۔ اﷲ اﷲ کیسا عظیم الشان عمل ہے کہ اس کا بدلہ ساتوں آسمانوں وزمینوں کو پیدا کرنے والا خود عطا کرے گا یا وہ خود اس کا بدلہ ہے۔ روزہ میں عموماً ریا کا پہلو دیگر اعمال کے مقابلہ میں کم ہوتا ہے اسی لئے اﷲ تعالیٰ نے روزہ کو اپنی طرف منسوب کرکے فرمایا الصَّوْمُ لِی روزہ میرے لئے ہے ۔

لہذا ہمیں ماہ رمضان کی قدر کرنی چاہئے کہ دن میں روزہ رکھیں، پنچ وقتہ نماز کی پابندی کریں کیونکہ ایمان کے بعد سب سے زیادہ تاکید قرآن وحدیث میں نماز کے متعلق وارد ہوئی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی آخری وصیت بھی نماز کے اہتمام کی ہی ہے۔ کل قیامت کے دن سب سے پہلا سوال نماز ہی کے متعلق ہوگا۔ نماز تراویح پڑھیں اور اگر موقع مل جائے تو چند رکعات رات کے آخری حصہ میں بھی ادا کرلیں ۔ فرض نمازوں کے علاوہ نماز تہجد کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے اپنے قرآن کریم میں متعدد مرتبہ فرمایا ہے۔

رمضان کے آخری عشرہ میں تہجد پڑھنے کا اہتمام کریں کیونکہ حضور اکرم ﷺ کے اقوال وافعال کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ میں پائی جاتی ہے جس میں عبادت کرنے کو اﷲ تعالیٰ نے ہزار مہینوں یعنی پوری زندگی کی عبادت سے زیادہ افضل قرار دیا ہے۔ اسی اہم رات کی عبادت کو حاصل کرنے کے لئے ۲ہجری میں رمضان کے روزے کی فرضیت کے بعد سے حضور اکرم ﷺ ہمیشہ آخری عشرہ کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اس مبارک ماہ کی قدر کرنے والا بنائے اور شب قدر میں عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

جس طرح ہم روزہ میں کھانے پینے اور جنسی شہوت کے کاموں سے اﷲ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے رکے رہتے ہیں اسی طرح ہماری پوری زندگی اﷲ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ہونی چاہئے، ہماری روزی روٹی اور ہمارا لباس حلال ہو، ہماری زندگی کا طریقہ حضور اکرم ﷺ اور صحابۂ کرام والا ہو تاکہ ہماری روح ہمارے جسم سے اس حال میں جدا ہو کہ ہمیں ، ہمارے والدین اور سارے انس وجن کا پیدا کرنے والا ہم سے راضی وخوش ہو۔ دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کے وقت اگر ہمارا مولا ہم سے راضی وخوش ہے تو ان شاء اﷲ ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی ہمارے لئے مقدر ہوگی کہ اس کے بعد کبھی بھی ناکامی نہیں ہے۔
 
اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس ماہ مبارک میں زیادہ سے زیادہ اپنی عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور رمضان کے صیام وقیام اور تمام اعمال صالحہ کو قبول فرمائے۔ رمضان کے بعد بھی منکرات سے بچ کر احکام خداوندی کے مطابق یہ فانی وعارضی زندگی گزارنے والا بنائے۔ آمین، ثم آمین۔

Najeeb Qasmi
About the Author: Najeeb Qasmi Read More Articles by Najeeb Qasmi: 133 Articles with 169701 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.