رمضان المبارک کو قرآن مجید سے خصوصی تعلق ہے ، اسی بنا
پر اس ماہِ مبارک میں اکثر مسلمان قرآن مجید کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، مسجد
کی محرابوں سے قرآن مجید کی صدائیں بلند ہوتی ہیں اور انفرادی طور پر بھی
ہر مسلمان دیگر مہینوں اور ایام سے زیادہ اس ماہ میں تلاوتِ قرآن مجید میں
منہمک نظر آتا ہے ، جو واقعی خیر و برکت کا باعث ہے ، لیکن اس موقع پر یہ
جان لینا ضروری ہے کہ جو عمل نیکی و ثواب کی امید میں کیا جا رہا ہے شریعت
کی نگاہ میں وہ نیکی و ثواب ہے بھی نہیں؟ اس لیے نکتے سے صرفِ نظر کرنے کے
باعث بعض دفعہ وہ عمل بے سود تو بعض دفعہ خسارے کا سبب بھی بن جایا کرتا ہے
۔
سب سے پہلے تراویح کے متعلق عرض کرتے ہیں کہ شیخ عبد الحق محدث دہلویؒکے
مطابق :علما نے تراویح میں یہ اختلاف کیا ہے کہ ان کو سنت کہیں یا نفل؟بعضے
علما کہتے ہیں کہ یہ تو نفلیں ہیں اور وہ ان کو مستحب کہتے ہیں اور بعضے
کہتے ہیں کہ ان کو سنت کہنا چاہیے ، اور یہی اصح ہے ، اور تراویح مَردوں
اور عورتوں کے حق میں سنتِ مؤکدہ ہے ، اس پر سلف سے خلف تک کا توارث چلا
آرہا ہے ۔قد اختلف العلماء فی التراویح، ھل تسمی سنۃ؟ فقال بعضھم لا ھی من
النوافل، و تسمی مستحبۃ، وقال بعضھم تسمی سنۃ، وھوالاصح، وھی سنتۃ مؤکدۃ
للرجال و النساء، توارثھا الخلف عن السلف۔(ما ثبت بالسنہ)واضح رہے کہ یہ دو
سنتیں الگ الگ ہیں؛ (1)تمام کلام اﷲ شریف کا تراویح میں پڑھنا یا سننا، یہ
مستقل سنت ہے اور (2)پورے رمضان شریف کی تراویح مستقل سنت ہے ۔(فضائلِ
رمضان)
تراویح میں ختمِ قرآن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے صراحۃً ثابت نہیں اور نہ
حضرت صدیق ؓسے صراحۃً ثابت ہے ، ہاں حضرت عمرؓ سے ثابت ہے کہ انھوں نے حضرت
ابی بن کعبؓ کوبلایا کہ سب لوگ قرآن نہیں پڑھ سکتے میں چاہتا ہوں کہ تم سب
کو رمضان کی راتوں میں نمازپڑھادیاکرو اور ظاہر ہے کہ صحابہ میں کوئی شخص
بھی قدرِقلیل قرآن سے عاری نہ تھا، پس اس کے معنی سوا اس کے کچھ نہیں کہ
حضرت عمرؓکی مراد یہ تھی کہ لوگ پورا قرآن نہیں پڑھ سکتے ، نیز حضرت عمرؓ
وحضرت عثمانؓکے زمانے میں تراویح اتنی دیرمیں ختم ہوجاتی تھی کہ بعض لوگ
لاٹھی پرسہارا لیتے اور سحری کے وقت ہوجانے کااندیشہ کرتے تھے ، اور بہ
عادتِ غالبہ اتنی دیر جب ہی ہوسکتی ہے کہ امام قرآن ختم کرنا چاہتاہو، اور
حضرت عائشہؓ کا غلام رمضان کی راتوں میں قرآن دیکھ کر نماز پڑھاتا تھا(یعنی
نماز سے پہلے یا نماز کے بعد قرآن دیکھ لیاکرتا، تاکہ نمازمیں بھول نہ ہو)
اور یہ بھی جب ہی ہوسکتا ہے ، جب کہ ختمِ قرآن کااہتمام ہو، ورنہ وہی
سورتیں پڑھتاجو خوب یاد تھیں۔ یہ تمام دلائل اس امر کے ہیں کہ صحابہ کو
تراویحِ رمضان میں ختمِ قرآن کا اہتمام تھا، صحابہ کے اس اہتمام سے معلوم
ہوتا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بھی رمضان میں قرآن ختم کرتے ہوں گے ،
گوصراحۃً حدیثوں میں اس کا ذکر نہیں، بہ ہرحال مسئلۂ ظنیہ میں دلالتِ ظنیہ
بھی کافی ہے ، گومعارض پرحجت نہ ہو، خصوص جب کہ اس کے پاس بھی دلائل ہوں،
پھر امام ابوحنیفہؒ نے ایک ختم کو سنت فرمایا ہے ، اور وہ تابعی ہیں، اس سے
بھی معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے سلف کو اس کا اہتمام کرتے دیکھا اور
سناہوگا۔(امداد الاحکام)
کان عمر بن عبد العزیز یأمر الذین یقرؤن فی رمضان فی کل رکعۃ بعشر آیات عشر
آیات۔(مصنف ابن ابی شیبہ) وفی مختارات النوازل: انہ یقرأ فی کل رکعۃ عشر
آیات وہو الصحیح؛ لأن السنۃ فیہا الختم؛ لأن جمیع عدد رکعات فی جمیع الشہر
ست مائۃ رکعۃ، وجمیع آیات القرآن ستۃ آلاف، ونص فی الخانیۃ علی أنہ
الصحیح۔(البحر الرائق) والختم مرۃ سنۃ ومرتین فضیلۃ وثلاثا أفضل ولایترک
الختم لکسل القوم لکن فی الاختیار: الأفضل فی زماننا مالا یثقل علیہم وأقرہ
المصنف وغیرہ قال الشامی: لأن تکثیر الجمع أفضل من تطویل القراء ۃ، حلیہ عن
المحیط۔ وفیہ اشعار بأن ہذا مبنی علی اختلاف الزمان فقد تتغیر الأحکام
لاختلاف الزمان فی کثیر من المسائل علی حسب المصالح ولہٰذا قال فی البحر:
فالحاصل أن المصحح فی المذہب أن الختم سنۃ لکن لایلزم منہ عدم ترکہ اذ لزم
منہ تنفیر القوم وتعطیل کثیر من المساجد خصوصاً فی زماننا، فالظاہر اختیار
الأخف علی القوم۔ (درمختار مع الشامی)
خلاصہ یہ کہ تراویح میں ایک مرتبہ قرآن کریم مکمل کرنا سنت ہے ،اورجو فقہا
نے لکھا ہے کہ جب مقتدیوں پر طویل قراء ت بوجھ ہو تو اس وقت چھوٹی سورتوں
سے تراویح پڑھنا چاہیے ، یہ بالکل مجبوری کی صورت میں ہے ، یہ مجبوری ہمارے
زمانے میں ایسی نہیں ہے کہ اس کی بنا پر مسجدوں میں اس سنت کو ترک کردیا
جائے بلکہ تمام مساجد میں قرآنِ کریم ختم ہوتا ہے اور مقتدی ذوق و شوق سے
تراویح پڑھتے اور سنتے ہیں، لہٰذا اس سنت کو مساجد میں بغیر مجبوری کے ترک
نہ کرنا چاہیے ۔(فتاویٰ عثمانی،فتاویٰ دارالعلوم دیوبند)
البتہ ایک عذر فی زمانہ ایسا ہے جس کی وجہ سے تراویح میں ختمِ قرآن کی سنت
کو چھوڑا جا سکتا ہے ، جیسا کہ مفتیِ اعظم دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا
عزیز الرحمن صاحب عثمانیؒ تحریر فر ماتے ہیں کہ اجرت پر قرآن شریف پڑھنا
درست نہیں ہے اور اس میں ثواب نہیں ہے اور بہ حکم’ المعروف کا لمشروط‘ جن
کی نیت لینے دینے کی ہے وہ بھی اجرت کے حکم میں ہے اور نا جائز ہے ۔اس حالت
میں صرف تراویح پڑھنا اور اجرت کا قرآن شریف نہ سننا بہتر ہے اور صرف
تراویح ادا کر لینے سے قیامِ رمضان کی فضیلت حاصل ہو جاے گی۔(فتاویٰ دارا
لعلوم) نیز ایسے موقعوں پر الم ترکیف سے تراویح پڑھنا نہ صرف جائز اور درست
ہے ، بلکہ محققین نے اسی پر عمل کرنے کی تاکید فرمائی ہے ۔ فقیہِ ملت حضرت
مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ؒ فرماتے ہیں کہ چھو ٹی سورتوں سے نمازِ ترا
ویح ادا کریں ،اجرت دے کر قرآن نہ سنیں، کیوں کہ قرآن سنانے پر اجرت لینا
اور دینا حرام ہے ۔( جوا ہر الفقہ)دوسرے مقام پر فر ماتے ہیں کہ اجرت لے کر
قرآن پڑھنا اور پڑھوانا گناہ ہے ، اس لیے تراویح میں چند مختصر سورتوں سے
بیس رکعت پڑھ لینا بلا شبہ اس سے بہتر ہے کہ اجرت دے کر پورا قرآن پڑھوائیں
۔ (امداد المفتیین)نیز فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ رقم طراز
ہیں کہ تراویح میں قرآن سنانے پر اجرت لینا اور دینا جائز نہیں ،دینے والے
اور لینے والے دونوں گنہگار ہوں گے اور ثواب سے محروم رہیں گے ، اگر بلا
اجرت سنانے والا نہ ملے تو ’الم تر کیف‘ [یا جو سورتیں یاد ہوں ان]سے
تراویح پڑھیں۔( فتا ویٰ محمودیہ)
اﷲم ارنا الحق حقاً وارزقنا اتباعہ
وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ |