حمزہ عباسی کے ایک سوال کا جواب

وطن عزیز اس وقت ایک کٹھن دور سے گزر رہا ہے ایک طرف داعش اور تحریک طالبان پاکستان جیسے تکفیری گروہ ہر ایک پر کفر کے فتوے لگا کر جہادکے نام پردہشتگردی کو پروان چڑھارہے ہیں تو دوسری طرف بعض لوگ ان کی اس دہشت گردی کو اسلام اور اسلامی قوانین کے ساتھ منسلک کر کے اسلام اور اسلامی تعلیمات کے خلاف زہریلا پراپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں درحقیقت یہ دونوں گروہ افراط و تفریط کا شکار ہیں دوسرے گروہ سے متاثر ہو کر ہی حمزہ عباسی جیسے اینکر اور اداکارنے پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلے کے خلاف آواز اٹھائی اور یہ سوال کھڑاکیاکہ کیا پارلیمنٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی کو کافر قرار دے ؟ درحقیقت یہ سوال ہی محض کم علمی اور جہالت کا نتیجہ تھا کیونکہ پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار نہیں دیا اور نہ ہی امت سے باہر نکالا ہے بلکہ آنجہانی مرزاغلام احمد قادیانی نے خود اپنے آپ کو اور اپنے متبعین کوامت سے باہر نکالا ہے ۔ پاکستانی پارلیمنٹ نے تو متفقہ طور پر متنبی قادیاں مرزاقادیانی کے فیصلے کی توثیق کی ہے ۔
قارئین کرام ! اب میں آپ مرزاقادیانی کوخودکو اور اپنی جماعت کو امت سے باہر نکالنے کے دلائل ملاحظہ فرمائیں چنانچہ ایک مشہور روایت ہے کہ نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ
2((موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے بہتر 72فرقے تھے اور میری قوم میں تہتر 73فرقے ہوں گے اور ان میں سے فقط ایک فرقہ جنتی ہو گا۔ یہ سن کر صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ! وہ گروہ کونسا ہو گا؟تو نبی رحمت علیہ السلام نے فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر چلے گا۔))
(رواہٗ عبداﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہ سنن ابو داؤد ‘ جامع ترمذی)
اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوتاہے کہ امت صرف اور صرف تہتر فرقوں پر مشتمل ہو گی جبکہ اس کے برعکس مرزاقادیانی تمام تہتر فرقوں کو پلید اور جہنمی قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ
’’درمیانی زمانہ جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ سے بلکہ تمام خیرالقرون کے زمانہ سے بعد میں ہے اور مسیح موعود کے زمانہ سے پہلے ہے یہ زمانہ فیج اعوج کا زمانہ ہے یعنی ٹیڑھے گروہ کا زمانہ جس میں خیر نہیں مگر شاذونادر ۔یہی فیج اعوج کا زمانہ ہے جس کی نسبت آنحضرت ﷺ کی یہ حدیث ہے لیسوا منی ولست منھم۔ یعنی نہ یہ لوگ مجھ میں سے ہیں اور نہ میں ان میں سے ہوں یعنی مجھے ان سے کچھ بھی تعلق نہیں یہی زمانہ ہے جس میں ہزارہا بدعات اور بے شمار ناپاک رسومات اور ہر قسم کے شرک خداکی ذات اور صفات اورافعال میں گروہ در گروہ پلید مذہب جو تہتر تک پہنچ گئے پیدا ہو گئے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ صفحہ 140مندرجہ قادیانی خزائن جلد 17صفحہ226)
انگریز لیفٹیننٹ گورنر کے نام درخواست میں آنجہانی مرزاقادیانی اپنا اور اپنی جماعت کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتا ہے کہ
’’چونکہ مسلمانوں کا ایک نیا فرقہ جس کا پیشوااور امام اور پیر یہ راقم(مرزاقادیانی) ہے پنجاب اور ہندوستان کے اکثر شہروں میں پھیلتا جاتاہے ۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلددوم صفحہ 188طبع جدید)
محترم قارئین ! اب دیکھئے کہ فرمان نبوی کے مطابق تو امت صرف تہتر فرقوں پر مشتمل ہے اور مرزاقادیانی تمام تہتر فرقوں کو نہ صرف پلید قرار دے رہا ہے بلکہ ایک نئے چوہترویں فرقے کی بنیاد رکھ رہاہے جس کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ ایک اور جگہ پر اپنی جماعت کو فرقہ جدیدہ قراردیتے ہوئے لکھتا ہے کہ
’’اور تیسرا امر جو قابل گزارش ہے وہ یہ ہے کہ میں گورنمنٹ عالیہ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ فرقہ جدیدہ جو برٹش انڈیاکے اکثر مقامات میں پھیل گیا ہے جس کا میں پیشوا اور امام ہوں گورنمنٹ کے لیے ہرگز خطرناک نہیں ہے اور اس کے اصول ایسے پاک اور صاف اور امن بخش اور صلح کاری کے ہیں کہ تمام اسلام کے موجودہ فرقوں میں اس کی نظیر گورنمنٹ کو نہیں ملے گی۔ جو ہدایتیں اس فرقہ کے لیے میں نے مرتب کی ہیں جن کو میں نے ہاتھ سے لکھ کر اور چھاپ کر ہر ایک مرید کو دیا ہے کہ ان کو اپنا دستور العمل رکھے وہ ہدایتیں میرے اس رسالہ میں مندرج ہیں جو 12جنوری 1889ء میں چھپ کر عام مریدوں میں شائع ہوا ہے۔ جس کا نام تکمیل تبلیغ مع شرائط بیعت ہے جس کی ایک کاپی اسی زمانہ میں گورنمنٹ میں بھی بھیجی گئی تھی۔۔۔۔۔۔ اور میری جماعت جیسا کہ میں آگے بیان کروں گا جاہلوں اور وحشیوں کی جماعت نہیں ہے بلکہ اکثر ان میں اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ اور علوم مروجہ کے حاصل کرنے والے اور سرکاری معز ز عہدوں پر سرفراز ہیں اورمیں دیکھتا ہوں کہ انھوں نے چال چلن اور اخلاق فاضلہ میں بڑی ترقی کی ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ تجربہ کے وقت سرکار انگریزی ان کو اوّل درجہ کے خیرخواہ پاوے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غرض یہ ایک ایسی جماعت ہے جو سرکار انگریزی کی نمک پروردہ اور نیک نامی حاصل کردہ اور مورد مراحم گورنمنٹ ہے۔‘‘
(اشتہار ’’بحضور لیفٹیننٹ گورنر بہادر دام اقبالہ ‘‘ مندرجہ مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 195تا197 ازمرزاقادیانی طبع چہارم)
قارئین کرام! امت مسلمہ میں کوئی ایساشخص نہیں ہے جو یہ کہے کہ اسے مکہ اور مدینہ میں امن اور سکون نہیں ملتا کیونکہ اﷲ تعالی قرآن کریم میں فرماتاہی کہ
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتِِ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکََا وَّ ھُدَی لَلْمُتَّقِیْن oفِیْہِ اٰیٰتٌ بَیِّنٰتٌ مَقَامُ اِبْرٰھِیْمَ وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنََا
(سورہ آلعمران: ۹۷،۹۸)ترجمہ از تفسیر صغیر:سب سے پہلا گھر جو تمام لوگوں کے(فائدہ کے ) لئے بنایا گیا تھا وہ ہے جو مکہ میں ہے وہ تمام جہانوں کے لئے برکت والا( مقام )اور (موجب) ہدایت ہے oاس میں کئی روشن نشانات ہیں (وہ)ابراہیم کی قیام گاہ ہے اور جو اس میں داخل ہو امن میں آجاتا ہے ۔
وَضَرَبَ اﷲ مَثَلََا قَرْیَۃََ کَانَتْ اٰمِنَۃََ مُّطْمَئِنَّۃ (سورہ النحل :۱۱۳)
ترجمہ از تفسیر صغیر: اور اﷲ (تمہیں سمجھانے کے لئے )ایک بستی کا حال بیان کرتا ہے۔ جسے (ہرطرح سے)امن حاصل ہے (اور)اطمینان نصیب ہے ۔
محترم قارئین!اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مرزا بشیرالدین لکھتا ہے کہ
’’اس جگہ بستی سے مراد مکہ مکرمہ ہے ۔‘‘
اﷲ تعالی قرآن کریم میں مکہ شہر کی قسم اٹھاتے ہوئے فرماتا ہے کہ
وَھَذَالْبَلَدِالْاَمِیْنَo (سورہ التین :۴)
ترجمہ از تفسیر صغیر: اور اس امن والے شہر (مکہ) کو بھی
(نوٹ) محترم قارئین !مکہ مکرمہ کی حرمت اور امن والا شہر ہونے کے بارے میں جو بھی آیات پیش کی گئی ہیں ان کے نمبر تفسیر صغیر کے اعتبار سے دیئے گئے ہیں کیونکہ اس میں ہر سورۃ میں بسم اﷲ الرحمن الرحیم کوبھی بطور آیت پیش کر کے ایک آیت کا اضافہ کیا گیاہے ۔
لیکن مرزاقادیانی اس کے برعکس لکھتا ہے کہ
’’ میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے میری اور میری جماعت کی پناہ اس سلطنت کو بنا دیا ہے۔ یہ امن جو اس سلطنت (برطانیہ) کے زیر سایہ ہمیں حاصل ہے نہ یہ مکہ معظمہ میں مل سکتا ہے اور نہ مدینہ میں اور نہ سلطان روم کے پایہ تخت قسطنطنیہ میں۔‘‘
(تریاق القلوب صفحہ28مندرجہ قادیانی خزائن جلد15صفحہ 156)
محترم قارئین!جس طرح اسلام کے دو حصے ہیں اﷲ تعالیٰ کی اطاعت اور محمدرسول اﷲ ﷺ کی اطاعت۔اسی طرح مرزاقادیانی نے بھی اپنے مذہب کے دو حصے بیان کیے ہیں چنانچہ مرزاقادیانیاپنے مذہب کا اظہار کرتے ہوئے رقمطراز ہے کہ
’’سومیرامذہب جس کو میں باربارظاہرکرتاہوں یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ایک یہ کہ خداتعالیٰ کی اطاعت کریں‘دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہو جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں پناہ دی ہو ۔سو وہ سلطنت
برطانیہ ہے۔‘‘
(شہادت القرآن صفحہ84مندرجہ روحانی خزائن جلد6صفحہ380)
قارئین کرام ! مرزاقادیانی کا بیٹا مرزا بشیر احمد لکھتا ہے کہ
’’ہر ایک ایسا شخص جو موسی کو تو مانتا ہے مگر عیسی کو نہیں مانتا یا عیسی کو تو مانتا ہے مگر محمد (ﷺ) کو نہیں مانتا اور یا محمد (ﷺ) کو تو مانتا ہے پر مسیح موعود (مرزا) کو نہیں مانتاوہ نہ صرف کافر پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔‘‘
(کلمۃ الفصل صفحہ110از بشیر احمد ابن مرزاقادیانی)
اسی طرح قادیانی اخبار الفضل لکھتا ہے کہ
’’غیر احمدیوں کی ہمارے مقابلہ میں وہی حیثیت ہے جو قرآن کریم ایک مومن کے مقابلہ میں اہل کتاب کی قرار دے کر تعلیم دیتا ہے کہ ایک مومن اہل کتاب عورت کو بیاہ لا سکتا ہے مگر مومنہ عورت کو اہل کتاب سے نہیں بیاہ سکتا ۔ اسی طرح ایک احمدی غیر احمدی عورت کو اپنے حبالہ عقد میں لاسکتا ہے ، مگر احمدی عورت شریعت اسلام کے مطابق غیر احمدی مرد کے نکاح میں نہیں دی جا سکتی ۔۔۔۔۔ حضور (مرزاصاحب ) فرماتے ہیں :
غیر احمدی کی لڑکی لے لینے میں حرج نہیں ہے ، کیونکہ اہل کتاب عورتوں سے بھی نکاحجائز ہے ، بلکہ اس میں فائدہ ہے کہ ایک اور انسان ہدایت پاتا ہے ۔ اپنی لڑکی غیر احمدی کو نہ دینی چاہئے ۔اگر ملے تو لے لو ،بے شک لینے میں حرج نہیں اور دینے میں گناہ ہے ۔(الحکم ۱۴ ,اپریل ۱۹۲۰؁ء)۔‘‘
(اخبار الفضل قادیاں مورخہ ۱۶ دسمبر ۱۹۲۰؁ئمنقول از قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ مؤلف الیاس برنی رحمۃ اﷲ علیہ)
مزید قادیانی اخبار الفضل مرزاقادیانی کے بڑے بیٹے اور قادیانیوں کے دوسرے خلیفہ میاں بشیر الدین محمود کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ
’’ایک شخص کے سوالات کے ۔۔۔۔۔ حضرت میاں محمود احمد صاحب نے مندرجہ ذیل جوابات لکھے ۔
سوال: کیا جو شخص احمدی کہلاتا ہے ، چندہ بھی دیتا ہے ،تبلیغ بھی کرتا ہے لیکن حضرت مسیح موعود کے حکم صریحی کے خلاف کہ غیر احمدی کو اپنی لڑکی دینا جائز نہیں ۔اپنی لڑکی کا نکاح کر دیتا ہے ۔ وہ ایک ہی حکم کے توڑنے سے مسیح موعود کے منکروں میں سے ہو سکتا ہے ؟
جواب : جو شخص اپنی لڑکی کا رشتہ غیر احمدی لڑکے کو دیتا ہے میرے نزدیک وہ احمدی نہیں ، کوئی شخص کسی کو غیر مسلم سمجھتے ہوئے اپنی لڑکی اس کے نکاح میں نہیں دے سکتا۔
سوال: جو نکاح خواں ایسا نکاح پڑھاوے اس کے متعلق کیا حکم ہے ؟
جواب : ایسے نکاح خواں کے متعلق ہم وہی فتوی دیں گے جو اس شخص کی نسبت دیا جا سکتا ہے ۔ جس نے ایک مسلمان لڑکی کا نکاح ایک عیسائی یا ہندو لڑکے سے پڑھ دیاہو۔
سوال : کیا ایسا شخص جس نے غیر احمدیوں سے اپنی لڑکی کا رشتہ کیا ہے دوسرے احمدیوں کی شادی میں مدعو ہو سکتا ہے ؟
جواب : ایسی شادی میں شریک ہونا بھی جائز نہیں ۔
(ڈائری میاں محمود احمد خلیفہ قادیاں مندرجہ الفضل قادیاں جلد ۸نمبر۸۸ مورخہ ۲۲ مئی ۱۹۲۱؁ء منقول از قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ مؤلف پروفیسر الیاس برنی رحمۃ اﷲ علیہ )
محترم قارئین ! اب آپ پاکستانی آئین کو بھی ملاحظہ فرمائیں کہ وہ قادیانیوں کے بارے میں کیا کہتا ہے اور پاکستانی آئین و قانون قادیانیوں پر کون کونسی پابندیاں عائد کرتا ہے ۔چنانچہ پاکستانی آئین کے آرٹیکل نمبر ۲۶۰ میں لکھا ہے کہ
آرٹیکل نمبر ۲۶۰
جو شخص خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ختم نبوت پر مکمل ایمان نہیں لاتا یا حضرت محمد ﷺ کے بعد کسی بھی اندازمیں نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے یا کسی ایسے مدعی نبوت یا مذہبی مصلح پر ایمان لاتا ہے وہ ازروئے آئین و قانون مسلمان نہیں ۔
آرٹیکل نمبر ۱۰۶ کلاز نمبر۳
صوبائی اسمبلیوں میں بلوچستان ،پنجاب،شمال مغربی سرحدی صوبہ اور سندھ کی کلاز نمبر 1میں دی گئی نشستوں کے علاوہ ان اسمبلیوں میں عیسائیوں ، ہندوؤں، سکھوں ، بدھوں ، پارسیوں اور قادیانیوں یا شیڈول کاسٹس کے لئے اضافی نشستیں ہونگی۔
اس ترمیم کے بعد بھی توہین آمیز قادیانی سرگرمیوں کی روک تھام نہ ہو سکی ، جذبات کی آگ پھر بھڑکنے والی تھی کہ ۲۷ اپریل ۱۹۸۴؁ء مندرجہ ذیل آرڈی ننس جاری کیا گیا ۔
آرڈی ننس
قادیانی گروہ ،لاہوری گروہ اور احمدیوں کو خلاف اسلام سرگرمیوں کے ارتکاب سے روکنے
کے لئے قانون میں ترمیم کرنے کا آرڈی ننس
ہر گاہ یہ امر قرین مصلحت ہے کہ قادیانی گروہ ، لاہوری گروہ اور احمدیوں کو خلاف اسلام سرگرمیوں کے ارتکاب سے روکنے کے لئے قانون میں ترمیم کی جائے ۔
ہر گاہ کہ صدر پاکستان کو اطمینان ہے کہ ایسے حالات موجود ہیں جو فوری کاروائی کے متقاضی ہیں لہٰذا پانچ جولائی ۱۹۷۷؁ء کے اعلان کی تعمیل میں اور ان تمام اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے جو اس سلسلے میں انہیں حاصل ہیں صدر پاکستان حسب ذیل آرڈی ننس وضع اور نافذکرتے ہیں ۔
1۔ مختصر عنوان اور آغاز
(ا)اس آرڈی ننس کا نام قادیانی گروہ ، لاہوری گروہ اور احمدیوں کا خلاف اسلام سرگرمیوں کا ارتکاب (ممانعت و سزا )آرڈی ننس ۱۹۸۴؁ء ہو گا۔
(ب) یہ فوری طور پر نافذالعمل ہو گا۔
2۔ عدالتوں کے احکام اور فیصلوں کے استرداد کاآرڈی ننس
ا۔س آر ڈی ننس کی دفعات /عدالتوں کے احکام اور فیصلوں کے علی الرّغم نافذ ہونگے۔
حصہ دوم :
مجموعہ تعزیرات پاکستان کی ترمیم (قانون نمبر۱۴بابت۱۸۶۰)
۳ ۔مجموعہ تعزیرات پاکستان کی ترمیم (قانون نمبر۱۴بابت۱۸۶۰) میں نئی دفعات ۲۹۸ب
اور ۲۹۸ ج کا اضافہ
مجموعہ تعزیرات پاکستان کی ترمیم (قانون نمبر۱۴بابت۱۸۶۰) کے باب پندرہ میں دفعہ ۲۹۸ (ا)کے بعد حسب ذیل نئی دفعات کا اضافہ کیا جائے گا۔
۲۹۸ ب بعض مقدس ہستیوں اور متبرک مقامات کے لئے مخصوص القاب و آداب صفحات
وغیرہ کا غلط استعمال
۱۔ قادیانی گروہ یا لاہوری گروہ ( جو اپنے آپ کو احمدی یا کسی اور نام سے موسوم کرتیہیں ) کا جو شخص کسی تقریر ، تحریر یا واضح علامت کے ذریعے سے
ا۔ رسول پاک حضرت محمد ﷺ کے کسی خلیفہ یا صحابی کے سوا کسی اور شخص کو ’’ امیر المومنین ‘‘ ’’ خلیفۃ المومنین‘‘ ’’صحابی ‘‘’’رضی اﷲ عنہ‘‘
ب ۔ رسول پاک حضرت محمد ﷺ کے افراد خاندان (اہل بیت) کے سوا کسی اور کو’’اہل بیت ‘‘ یا
ج۔ اپنی عبادت گاہ کو مسجد کے نام سے !
پکارے گا ،یااس کا حوالہ دے گا وہ تین سال تک کی قید (کسی قسم) اور جرمانے کی سزا کا مستوجب ہوگا۔
۲۔ قادیانی گروہ یا لاہوری گروہ ( جو اپنے آپ کو احمدی یا کسی اور نام سے موسوم کرتے ہیں ) کا جو شخص کسی تقریر ، تحریر یا واضح علامت کے ذریعے سے اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کے لئے بلانے کے طریقے یا شکل کو ’’اذان‘‘ سے موسوم کرے گا یا مسلمانوں کے طریقے کے مطابق اذان کہے گا وہ تین سال تک کی قید (کسی قسم) کی سزا،نیز جرمانہ کا مستوجب ہو گا۔
۲۹۸ ج ۔ قادیانی گروہ وغیرہ کا اپنے آپ کو مسلم کہلانے ، اپنے عقیدے کی تبلیغ
کرنے یا نشرواشاعت کرنے والا شخص
قادیانی گروہ یا لاہوری گروہ ( جو اپنے آپ کو احمدی یا کسی اور نام سے موسوم کرتے ہیں ) کا جو شخص اپنے آپ کو بلاواسطہ یا بالواسطہ’’ مسلم‘‘ کہلاتا ہے ، یااپنے عقیدے کو اسلام کہتایا ظاہر کرتا ہے ، یا دوسروں کو تقریر،تحریر یاواضح علامت یا کسی بھی طریقے سے دعوت دیتا اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرتا ہے وہ تین سال تک کی قید(کسی قسم) کی سزا یا جرمانہ کا مستوجب ہو گا ۔
قارئین محترم ! یہ تمام دلائل اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ مرزاقادیانی نے خود اپنے آپکو اور اپنیجماعت کو امت مسلمہ سے باہر نکالا ہے نہ کہ پاکستانی پارلیمنٹ نے ۔ پاکستانی پارلیمنٹ نے تومتفقہ طور پر مرزاقادیانی کے فیصلے کی توثیق کی ہے اور کچھ نہیں ۔جب قادیانی جماعت نے عوام کو دھوکہ دینے کے لئے اپنے آپ کو مسلمان کہناشروع کیا اور برملاتمام اسلامی اصطلاحات کو مرزاقادیانئی اور اس کے خاندان اور ساتھیوں کے لئے استعمال کرنا شروع کیا تو اس پر پاکستانی پارلیمنٹ نے قانون سازی کی یہی وجہ ہے کہ آئین پاکستان کی رو سے قادیانی جماعت ہو یا ان کا لاہوری گروپ یہ دونوں پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلے کے مطابق دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور کسی بھی قادیانی کو شعائر اسلام کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں یہاں تک کہ اگر کوئی قادیانی یا لاہوری ایک مرتبہ شعائر اسلام کو اپنے یااپنی جماعت کے لیے استعمال کرے گا تو اسے کم از کم تین سال قید بامشقت گزارنا ہو گی ۔

عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif
About the Author: عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif Read More Articles by عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif: 111 Articles with 215335 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.