لاپتہ بلوچوں کی تشدد زدہ لاشوں کی برآمدگی

پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت یہ اعلانات و دعوے کرتی ہوئی نہیں تھک رہی ہے کہ وہ تمام مسائل کے حل کیلئے مفاہمتی و مصالحتی پالیسی کو جاری رکھے گی- کچھ ایسے ہی دعوے بلوچستان کے بارے میں بھی کئے گئے ہیں- اور حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں طاقت کا استعمال ترک کردیا گیا ہے اور حکومت مسائل کے حل کیلئے مزاکرات اور افہام و تفہیم چاہتی ہے-

لیکن دوسری طرف بلوچ سیاسی رہنماؤں و کارکنوں، ادیبوں اور فنکاروں، طلباء اور نوجوانوں سمیت ہر مکتبہ فکر اور شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے اغواء، گمشدگیوں، گرفتاریوں اور سیکورٹی اداروں کی جانب سے مختلف کاروائیوں کا سلسلہ ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا اور اس میں روز بروز شدت آتی جارہی ہے-

بلوچ سیاسی و عوامی حلقوں کا حکومتی دعوؤں کے ردعمل میں کہنا ہے کہ موجودہ جمہوریت کی دعویدار پی پی کا دور اقتدار گزشتہ آمریت کے دور سے ضرور مختلف ہے مگر یہ تفریق پہلے سے زیادہ انسانیت سوز کاروائیوں کے حوالے کے حوالے سے ہے، کیونکہ مشرف آمریت میں بلوچ سیاسی رہنماؤں وکارکنوں کو اغواء کرکے لاپتہ کیا جاتا تھا لیکن اب اغواء ہونے والوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بناکر بے رحمی سے قتل کیا جارہا ہے جس کا مظاہرہ گزشتہ چند ماہ میں لاپتہ کئے جانے والے درجنوں بلوچوں کی لاشوں کی برآمدگی کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے، اس بے رحمانہ عمل کا تسلسل مستونگ سے اغواء کئے جانے والے بی ایس او آزاد کے رہنما ظہور بلوچ اور فنکاروشاعر فقیرعاجز کی تشدد زدہ مسخ لاشوں کی برآمدگی کی شکل میں بھی نظر آیا ہے- دونوں بلوچوں کو پاکستانی فورسز اور آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے بھرے بازار سے کچھ عرصہ قبل اٹھا کر غائب کردیا تھا- جس کے خلاف بلوچ طلباء و سیاسی تنظیموں اور متاثرہ لواحقین نے بھر پور احتجاج بھی کیا مگر ظہور بلوچ اور فقیر عاجز کی زندہ سلامت بازیابی ممکن نہ ہوئی اور آخرکار یہ دونوں بلوچ بھی اپنے لاپتہ پیش روؤں کی طرح پاکستانی فورسز کی درندگی کا نشانہ بن گئے- مبصرین کے مطابق یہ وہ سانحات ہے جو بلوچستان میں علیحدگی پسندوں میں اضافے کا سبب بننے اور پاکستانی دانشورز اپنے وہی پرانے جھوٹ کا سہارا لیے ہوئے ہیں کہ جی انڈیا ملوث ہے- ایسے درندگی کے واقعات و سانحات بلوچ قوم میں نفرت و انتقام کے بھڑکے ہوئے شعلوں پر مزید تیل چھڑکنے کا کام کررہے ہیں جس کے تنیجے مین بلوچستان میں قائم جنگ وجدل کی فضاء مزید گہری ہوسکتی ہے-

ایک اور بنگلہ دیش سے بچنے کے لیے پاکستانی دانشوروں کو آگے آنا ہوگا- بلوچستان میں مزید مسخ شدہ لاشوں کے گرنے اور اسکے بدلے میں واقعات کی تدارک کے لیے خفیہ اداروں کے خلاف پورے ملک کے لوگوں کو اکھٹا ہوکر اک آواز ہونا ہے- میرے ہم وطنوں کے لیے یہ ایک تلخ حقیت ہے کہ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک زور پکڑ چکی ہے اور اس کا قصور وار بلوچ نہیں بلکہ پاکستانی خفیہ ادارے ہیں جو کبھی بلوچوں پر ایوب کی شکل میں، کبھی بھٹو کی شکل میں تو کبھی مشرف کی شکل میں نازل ہوئے- اور اب کی بار زرداری کی صورت میں یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے-

اے میرے ہم وطنوں آپ کو خود فیصلہ کرنا ہے کہ بلوچوں پر لاٹھی چلانے کا کہنے والا رحمان ملک کو پاکستان سے محبت ہوسکتی ہے یا نہیں- یا وہ بلوچ سردار جنہوں نے اپنے بیٹوں کو کھو کر بھی پاکستانی اسمبلیز میں آئے اور کہنے لگے کہ “ میں پاکستان سے وفادار رہوں گا“

اس بار اگر بلوچوں کے درد کو نہیں سمجھ سکے تو پر بلوچوں سے زندگی میں کھبی بھی گلہ نہ کرنا میرے دوستوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
Shahzain Baloch
About the Author: Shahzain Baloch Read More Articles by Shahzain Baloch: 4 Articles with 3266 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.